Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, November 30, 2020

اپنا وقار و معیار کھو چکی میں اہم تنظیمیں اور مسلم قیادت؟

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ، جمعیۃ العلما، جماعتِ اسلامی ، مجلس علماء ہند سے لے کر جمعۃ القراء تک کوئی بھی تنظیم ایسی نہیں جس پر انگلیاں نہ اٹھ رہی ہوں اور اس باب میں سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ مسلم پرسنل لا بورڈ اور جمعیۃ العلماء جیسی اہم اور باوقار تنظیمیں بنی ہیں۔

تحریر /طارق قمر /صداٸے وقت /٣٠ نومبر ٢٠٢٠۔
==============================
لکھنئو: یہ آوازیں شدت سے اٹھ رہی ہیں کہ مسلم قیادت اور مسلمانوں کی نمائندہ تنظیمیں مسلم طبقے کے سیاسی سماجی و مذہبی زوال کے لیے پوری طرح ذمہ دار ہیں ۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ، جمعیۃ العلما، جماعتِ اسلامی ، مجلس علماء ہند سے لے کر جمعۃ القراء تک کوئی بھی تنظیم ایسی نہیں جس پر انگلیاں نہ اٹھ رہی ہوں اور اس باب میں سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ مسلم پرسنل لا بورڈ اور جمعیۃ العلماء جیسی اہم اور باوقار تنظیمیں بنی ہیں۔ معروف رہنما معید احمد کہتے ہیں کہ سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کو پرسنل لا بورڈ جیسی تنظیموں نے پہنچایا ہے بورڈ  اور جمیعت کے لوگ نہ مسجد کا دفاع کرسکے ، نہ تین طلاق کے قانون کو روک سکے اور نہ مسلمانوں کے سیاسی سماجی اور مذہبی وقار کو ہی بچا سکے ۔
مولانا ابو العرفان فرنگی محلی کہتے ہیں کہ کچھ نام نہاد مذہبی ٹھیکیداروں نے قیمتی شیروانیاں پہن کر اپنے لباس کو مذہبی زرہ بکتر سمجھ لیا ۔ بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومنے، سیاسی رہنماؤں کے ذریعے اپنے مفاد حل کرنے اور ملت کی زمینوں پر قبضہ کرکے دولت کمانے سے نہیں بلکہ قربانیاں پیش کرنے سے قوم و ملت کے وقار کا تحفظ ممکن ہوسکتا ہے ۔
معروف صحافی عامر صابری کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو مذہبی قیادت نے بھی نقصان پہنچایا اور سیاسی لوگوں نے بھی تباہ و برباد کیا ۔ بورڈ کے اراکین کے پاس کوئی ایسا ایک کام بھی نہیں جو وہ قوم و ملت کے سامنے فخریہ پیش کر سکیں ۔ چمکتی دمکتی گاڑیوں میں آکر عمدہ ناشتوں اور لذیز کھانوں کے اہتمام کے ساتھ میٹنگوں میں شرکت کرنے سے نہیں ، بلکہ عملی اقدامات کرنے سے مسئلے حل ہو تے ہیں ۔ بہتر یہ ہے کہ اب ایسے سبھی بورڈوں اور تنظیموں کو نظر انداز کرکے کوئی نئی حکمت عملی وضع کی جائے ، جو زمانے اور حال کے مطابق ہوں ۔ صابری یہ بھی کہتے ہیں کہ سیاسی قیادت بھی پہلے جذباتی اور پریشان حال مسلمانوں کے ووٹ بنک کے سہارے اسمبلی اور پارلیمنٹ پہنچتی ہے اور پھر مخالفین کے ہاتھ کی کٹھ پتلی بن کر صرف اپنے اور اپنے کنبے کی بہبود کے لئے لئے پوری قوم و ملت کا سودا کردیتی ہے ، پورے ملک کا منظر نامہ کم و بیش یکساں ہے۔
آل انڈیا شیعہ پرسنل لا بورڈ ( قدیم ) کے بانی مولانا علی حسین قمی اعتراف کرتے ہیں کہ بھٹکی ہوئی مذہبی اور سیاسی قیادت مسلم طبقے کے زوال کی ذمہ دار ہے ۔ آر ایس ایس جیسی تنظیموں پر تنقید کرنے سے بہتر ہے کہ اپنی خامیوں پر نظر کرکے اصلاحی اقدامات کئے جائیں ۔ قمی یہ بھی کہتے ہیں کہ اتر پردیش کے مسلمانوں کو یہاں کے مولویوں اور سیاسی رہنماؤں نے برباد کیا ہے ۔ ان لوگوں نے حکومتوں سے اپنے مسائل تو حل کرائے ، لیکن ملت کی بے سرو سامانی کا کا کوئی علاج کوئی مداوا نہیں کیا گیا۔ اعظم خاں سے نسیم الدین صدیقی تک اور مختار عباس نقوی سے محسن رضا تک سب نے اپنے اور اپنے سیاسی آقاؤں کے لئے کام کیا۔
مولانا علی حسین کے مطابق اب سیاست و مذہب کے دوراہے پر کھڑا مسلمان اپنی زبوں حالی کا تماشہ دیکھ رہا ہے ۔ ایسے حالات میں بدر الدجیٰ نقوی اور ڈاکٹر کوثر عثمان جیسے دانشوروں اور صلاح الدین جیسے ایماندار با صلاحیت اور سماجی خدمت میں یقین رکھنے والے لیڈروں سے بات کرنے اور مستقبل کا لائحہ عمل تیار کرنے کی ضرورت ہے ۔