Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, November 16, 2020

بی جے پی رہنما کی جانب سے ناتھورام گوڈسے کی حمایت، گاندھی اور ان کے قاتل کے حامیان میں سوشل میڈیا پر ٹھن گئی.

انڈیا میں ایک بار پھر مہاتما گاندھی اور اُن کے قاتل ناتھورام گوڈسے کے حوالے سے مباحثہ جاری ہے۔

نٸی دہلی /صداٸے وقت / بی بی سی اردو سروس سے ماخوذ۔

=============================

جہاں ملک کے زیادہ تر شہری ’بابائے قوم‘ کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ان کے قتل کی مذمت کرتے ہیں، وہیں ایک حلقہ ایسا بھی ہے جو گاندھی کے قاتل کو وطن پرست مانتا ہے، ان کا یوم پیدائش اور برسی مناتا ہے۔ گذشتہ روز، یعنی 15 نومبر کو ناتھو رام گوڈسے کی پھانسی کی برسی تھی۔


گوڈسے کو مہاتما گاندھی کو 30 جنوری سنہ 1948 میں گولی مار کر قتل کرنے کے جرم میں 15 نومبر سنہ 1949 میں امبالہ میں پھانسی ہوئی تھی۔اسی روز انڈیا کی وسطی ریاست آندھر پردیش میں حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ریاستی سیکریٹری رمیش نائڈو ناگوتھو نے گوڈسے کی تعریف کرتے ہوئے ایک ٹویٹ کی جس میں انھوں نے لکھا: ’آج ان کی برسی پر میں ناتھو رام گوڈسے کو احسان مندی کے ساتھ سلام پیش کرتا ہوں۔ وہ بھارت بھومی (سرزمین ہند) پر پیدا ہونے والے سچے اور عظیم ترین وطن پرستوں میں سے ایک تھے۔‘

ان کی ٹویٹ کو سوشل میڈیا پر جب شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تو انھوں نے اس ٹویٹ کو ہٹا دیا اور شام کو تیلگو زبان میں یہ ٹویٹ بھی کیا کہ ’جس آئی ٹی سیل والے کی جانب سے یہ غلطی ہوئی تھی اسے ان کے کام سے ہٹا دیا گیا ہے۔‘ان کی اس ٹویٹ کے جواب میں کئی صارفین نے لکھا کہ جب پہلی ٹویٹ انگریزی زبان میں کی تھی تو وضاحت بھی انگریزی میں ہی ہونی چاہیے۔

بی جے پی اور گوڈسے

یہ پہلا موقع نہیں ہے جب بی جے پی کے کسی رہنما کی جانب سے گوڈسے کے حق میں بات کہی گئی ہو یا انھیں خراج تحسین پیش کیا گیا ہوا۔ اس سے قبل سنہ 2019 میں متواتر اس قسم کی باتیں سامنے آئیں جب ناتھورام گوڈسے کی تعریف و توصیف کی گئی۔

انڈیا کے وزیر داخلہ امت شاہ نے 17 مئی 2019 کو اپنی پارٹی کے ارکان کے خلاف تادیبی کارروائی کا ذکر کرتے ہوئے ایک ٹویٹ کیا تھا۔

ہندی زبان میں کیے جانے والے اس ٹویٹ میں انھوں نے لکھا: ’ان لوگوں نے اپنے بیان واپس لے لیے ہیں اور معافی مانگی ہے۔ تاہم عوامی زندگی اور بی جے پی کے وقار اور نظریے کے مخالف ان بیانوں کو پارٹی نے سنجیدگی سے لیا ہے اور تینوں بیانوں کو ڈسپلنری کمیٹی کو بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے اس کے ساتھ انھوں نے یہ بھی لکھا کہ تینوں رہنماؤں سے جواب طلب کر کے دس دنوں میں مطلع کی جانے کی بات انھیں بتائی گئی ہے۔

اسی زمانے میں پارلیمانی انتخابات کے دوران ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی اس کے متعلق سخت موقف اپنایا تھا لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی یا نہیں، یہ نہیں پتا چل سکا۔