Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, November 4, 2020

تعمیر ‏انسانیت ‏کی ‏اہم ‏بنیادیں۔۔۔۔


از / مفتی محمد ثناء الھدیٰ قاسمی نایب ناظم امارت شرعیہ بہار اڑیسہ جھاڑکھنڈ ۔
             صداٸے وقت 
          ==========
اللّٰہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا، اسے اشرف المخلوقات بنا یا ، مزاجاً اور طبعاً سماجی جاندار کا رنگ وروپ بخشا، ان امور کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ وہ دوسرے جانوروں کی طرح زندگی نہ گذارے ، اس کے اعمال ، افعال ، اخلاق دو سروں سے اس قدر ممتاز ہوں کہ آدمی کو انسان کہا جا سکے ، وہ نہ صرف خود انسان رہے، بلکہ دوسروں کو بھی انسان بنا نے کی جد وجہد میں شامل ہو ، اور تعمیر انسانیت کا کام پوری زندگی کرتا رہے ، اس پر حیوانیت اور درندگی کا دورہ کبھی نہ پڑے ،تعمیر کا یہ کام جوڑ کا کام ہے؛ اور جوڑنے کے کچھ اصول وضوابط ہوتے ہیں ، دیوار جتنی اونچی کھڑی کرنی ہو، بنیاد اتنی ہی مضبوط ہونی چاہئے؛ جس طرح کمزور بنیادوں پر محل کھڑے نہی کئے جا سکتے، ویسے ہی تعمیر انسانیت کا کام خود ساختہ بنیادوں پر نہیں کیا جا سکتا ،اسی لئے اللّٰہ تعالیٰ نے اس اہم کام کے لئے بنیادیں فراہم کیں ، ان بنیادوں پر اگر ہم نے تعمیر انسانیت کا کام شروع کیا تو انسانیت کی فلک بوس عمارت کھڑی ہو سکتی ہے ۔ سب سے پہلی بنیاد یہ ہے کہ ہم سب خواہ مسلم ہوں یا غیر مسلم ، کہیں کے رہنے والے ہوں ، کسی برادری اور علاقے سے تعلق رکھتے ہوں ،زبان کوئی سی بھی بولتے ہوں ، سب ایک آدم کی اولاد ہیں، اور آدم مٹی سے بنائے گئے تھے ، اس طرح ہم سب ایک نسل اور ایک خاندان کے ہیں، جس کا ایک سرا اس دنیا کے سب سے پہلے انسان آدم علیہ السلام سے ملتا ہے ، کسی بنیاد پر کوئی بڑا اور چھوٹا نہیں ہے ، خاندان، قبائل اور برادریاں آپسی تعارف کے لئے ہیں ، نہ کالے کو گورے پر اور نہ گورے کو کالے پر کوئی فضیلت حاصل ہے ، نہ عربی ہو نا قابل فخر ہے اور نہ عجمی ہو نا، ذلت کا سبب، جو جتنا اللّٰہ سے ڈرتا ہے ، اللّٰہ کے نزدیک وہی قابل اکرام واحترام ہے ،اس طرح دیکھیں تو ہم سب بھائی بھائی ہیں ۔ ہمیں ایک دوسرے کا ہمدرد وغم گسارہوناچاہئے ،مصیبت کے وقت مدد کے لئے آگے آنا چاہئے، دکھ درد میں شریک رہنا چاہئے، یہ کام تمام مذاہب جماعتوں اور گروہوں کی طرف سے ہونا چاہئے ۔ ہماری بد قسمتی سے ایسا ہو نہیں ہو پا رہا ہے، آج صورت حال یہ ہے کہ ہم اپنے علاوہ دوسروں کو بھائی سمجھتے ہیں اور وہ دوسرے ہمیں چارہ  ، اسرار جامعی نے مزاحیہ انداز میں اس کا نقشہ کھینچا ہے'   
بھائی چارے کا مطلب ہر گز یہ نہ ہونا چاہئے
 ہم تو انہیں بھائی سمجھیں اور وہ چارہ ہمیں
حالانکہ بھائی کا دوسرے بھائی کو تکلیف پہونچانا، انتہائی قابل مذمت کام ہے ، اسی لئے اللّٰہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ، مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے انسان محفوظ رہے ، اللّٰہ تعالیٰ نے کسی ایک انسان کے ناحق قتل کرنے کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا اور ایک انسان کی حفاظت کو پوری انسانیت کی حفاظت کے مترادف قرار دیا ، اتنے بڑے پیمانے پر انسانی بنیادوں پر امن وسکون کا فارمولہ دوسرے مذاہب میں دیکھنے کو نہیں ملتا ۔ تعمیر انسانیت کی دوسری اہم بنیاد یہ ہے کہ کوئی قوم دوسری قوم کا مذاق نہ اڑا ئے؛ کیونکہ اس کی وجہ سے منافرت پھیلتی ہے اور بغض وعداوت کا بازار گرم ہوتا ہے ؛ حالانکہ ایسا ممکن ہے کہ جس کا مذاق اڑا یا جا رہا ہے وہ مذاق اڑانے والے سے بہتر ہو ، فرمایا: کوئی عورت دوسری عورت کا بھی مذاق نہ اڑائے؛ اس لئے کہ ممکن  ہے کہ وہ دوسری عورت ہی اللّٰہ کے نزدیک بہتر اور پسندیدہ ہو ، مذاق اڑانے ہی کی ایک شکل دوسروں پر آواز یں کسنا ، کرید کرید کر عیب نکالنا اور برے القاب سے ایک دوسرے کو موسوم کرنا ہے ، شریعت نے اسے بھی نا پسند یدہ عمل قرار دیا؛ تاکہ لوگوں کے دل نہ ٹوٹیں اور فتنہ وفساد کی آگ سے انسانیت خاکستر نہ ہو ۔ اتنا ہی نہیں؛ بلکہ یہ بھی کہا گیا کہ دوسرے مذاہب والے اللّٰہ کے علاوہ جن معبودوں کی پرشتش کرتے ہیں، ان معبود ان باطل کو بھی برا بھلا نہ کہو ، اس لئے کہ وہ جواباً تمہارے خدا کو برا بھلا کہیں گے اور آٓپس میں معاملہ جنگ وجدال تک پہونچ جائے گا ۔ منافرت کا بازار گرم ہو گا ، بزرگان دین ، اولیائے کرام اور علمائے دین نے اس پر اس قدر عمل کیا کہ ان کی خانقاہوں میں مسلم اور غیر مسلم سبھی کا رجوع عام ہونے لگا ،کہتے ہیں کہ ایک بار خواجہ نظام الدین اولیائ ؓ کی خدمت میں کسی نے قینچی پیش کی تو آپ نے فرمایا کہ فقیرجو ڑنے کے لئے آیا ہے ، مجھے تو سوئی دھاگا دو تاکہ میں پھٹے ہوئے دلوں کی بخیہ گری کا کام انجام دے سکوں ، فقیر کے یہاں قینچی کا کیا مصرف ہے؟ شیخ عبد القادر جیلا نی ؓ کے بارے میں لکھا ہے کہ ایک بار ایک بڑھیا حلوا لے کر آئی اور کہا کہ بیٹا میں خاص کر تیرے لئے بنا کر لائی ہوں اور بغیر کھلائے نہی جاؤں گی ، آپ نے حلوا نوش فرمایا ، بڑھیا کے جانے کے بعد لوگوں نے کہا کہ آپ کا روزہ تھا ، فرمایا  نفلی روزہ تھا ، یاد رکھو روزے کی قضا تو ہو سکتی ہے ، لیکن دل ٹوٹنے کی کوئی قضا نہیں ہے ، میں نہیں کھا تا تو بڑھیا کا دل ٹوٹ جا تا اگر اس قدر دوسروں کی دل جوئی کا خیال رکھا جائے تو قصر انسانیت کے فلک بوس ہونے میں کتنی دیر لگے گی ۔ تعمیر انسانیت کی تیسری بنیاد حقوق کی طلب اور فرائض کی ادائیگی میں اعتدال اور توازن کا قیام ہے ، آج صورت حال یہ ہے کہ ہر آدمی اپنے حقیقی اور فرضی حقوق کے حصول کے لئے بے چین ہے ، احتجاج ، جلوس ،مظاہرے ،ہڑتال اور چکہ جام کا چلن اس قدر عام ہو گیا ہے کہ لوگ سخت پریشانی میں مبتلا ہیں ، ہر گروہ ، ہر پارٹی اور مزدوروں کی یونین یہ سب حقوق کے حصول کے نام پر کر رہی ہیں ، بعض دفعہ خود کشی اور خود سوزی کے واقعات بھی سامنے آتے ہیں، جس سے انسانیت شرم سار ہوتی ہے ۔ اب ان لوگوں سے کوئی پوچھے کہ آپ نے اپنے فرائض کی ادائیگی کاکتنا خیال رکھا ، کیا آپ وقت پر دفتر جاتے ہیں ؟ پورے وقت کا م کرتے ہیں؟ دفتر کے اوقات میں دوسری مصروفیات میں وقت تو نہیں لگا تے، دفتر کا وقت ختم ہو تا ہے، تب گھر کے لئے نکلتے ہیں ؟ تو جواب نفی میں آئے گا ، فرائض کے معاملہ میں تو حال یہ ہے کہ ’’بارہ بجے لیٹ نہیں اور تین بجے کے بعد بھینٹ نہیں ‘‘ ابھی گئے تو بہت سارا وقت غیر ضروری کا موں میی لگا دیا ، گپیں لڑانے سے فرصت نہیں، خلاصہ یہ ہے کہ ہر آدمی اپنے حقوق کے حصول کی جنگ لڑ رہا ہے اور اپنے فرائض سے غافل ہے ، اس طرح تعمیر انسانیت کا کام نہیں کہا جا سکتا ، اللّٰہ تعالی نے سماج کا جو نظام بنا یا ہے ، اس میں حقوق وفرائض کا چولی دامن کا ساتھ رکھا ہے، ایک کے تئیں حساسیت اور دوسرے سے غفلت کے ساتھ یہ نظام چل ہی نہیں سکتا ، یہی وجہ ہے کہ اسلام نے جہاں ہر ایک کے حقوق متعین کئے ،وہیں فرائض کی طرف بھی توجہ دلائی ،حقوق چھین کر لئے جائیں کا نعرہ دینے والوں کو حقوق کی ادائیگی پر ابھا را اور حکم دیا کہ قرابت داروں ، مسکینوں ، یتیموں اور مسافروں کے ساتھ صلہ رحمی کرو ، ترکہ کی تقسیم، تجہیز وتکفین ، ادائیگی وصیت اور قرض کے بعد فوراً ادا کردو، غرباءکو کھیتی کٹنے کے دن ان کا حق دیدو ، اور مزدوروں کی اجرت پسینہ خشک ہونے سے قبل ادا کرو، مانگنے والوں کو مت جھڑکو اور اگر ان کو کچھ نہیں دے سکتے تو بہتر انداز میں معذرت کرلو، جو تم سے ٹوٹ رہے ہیں ، ان کو جوڑواور جس نے ظلم کیا اسے معاف کردو ۔ یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اللّٰہ کے نزدیک سب سے پیارا انسان وہ ہے، جو لوگوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہونچا تا ہے 
تعمیر انسانیت کی اور بھی بنیادیں ڈھونڈ ی جا سکتی ہیں؛ لیکن ان تین امور کی حیثیت سنگ بنیادکی ہے ان کا خیال رکھ لیا جائے تو پوری دنیا سے فساد وبگاڑ کا ماحول ختم ہو گا ، دلوں کی دوریاں قربت میں بدلیں گی ۔ آج ضرورت ہے کہ سب مل کر اس اہم کا م میں لگ جائیں؛ تاکہ یہ دنیا انسانوں کے رہنے کے قابل ہو سکے ۔