Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, November 5, 2020

مسلماں ‏اور ‏ہندوستان ‏کی ‏جان۔۔یہی ‏ہے ‏میرا ‏ہندوستان۔۔۔۔




از /   سرفراز احمد قاسمی،حیدرآباد 
      برائے رابطہ: 8099695186
                 صداٸے وقت 
             ===========
     اپنے ملک بھارت میں جس تیزرفتاری کے ساتھ نفرت وعداوت کاماحول تیارکیا جارہاہے اورآپسی خانہ جنگی کی فضاء جس طرح ہموار کی جارہی ہے یہ یقینا افسوسناک ہے،حالیہ برسوں میں ان واقعات میں تشویشناک حدتک اضافہ ہواہے،جو ملک کے مستقبل کےلئے نیک شگون ہرگز نہیں ہے،ہندوستان برسوں سے بھائی چارہ،قومی یکجہتی،محبت ومؤدت،ہمدردی و خیرخواہی کا علمبردار رہاہے،جس وقت ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد نہیں ہوئی تھی اور عرب کے مسلم تاجرین جوتجارت کی غرض سے ہندوستان آیاکرتے تھے اسوقت یہاں کے باشندوں نے ان تاجروں کے ساتھ مثالی میزبانی اورخیرخواہی کا ثبوت پیش کیا،یہاں کے ہندو راجا بھی مسلم تاجرین کےساتھ نہایت عزت واکرام کامعاملہ کیاکرتے تھے،یہاں تک کہ ان تاجرین کو بادشاہوں سے ملاقات اور انکے دربار میں حاضری کےلئے خصوصی رعایت حاصل تھی،تاریخ کی کتابوں میں اسطرح کےبے شمار واقعات موجود ہیں،اس سلسلے میں علامہ مناظر احسن گیلانیؒ اپنی کتاب ہزار سال پہلے میں معروف مسلم سیاح بزرگ ابن شہریار اور انکی کتاب عجائب الہند کے حوالے سے ایک جگہ رقم طراز ہیں کہ"بعض ایسی رعایتیں ان ممالک میں مسلمانوں کوحاصل تھیں جن سے خود اس ملک کے باشندے محروم تھے،سونے والے ملک(ہندوستان)اور جادہ کے بادشاہوں کاقاعدہ ہے کہ انکے سامنے کوئی بھی ہو ایک خاص شکل ہی کے ساتھ بیٹھ سکتاہے،اس نشست کانام انکی اصطلاح میں برسیلا ہے،چارزانو ہوکر لوگوں کو ان بادشاہوں کے سامنے بیٹھنا پڑتاہے،حتی کہ خود انکے ملک کے لوگ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں،خواہ وہ کسی درجے کا آدمی ہو،نشست کے اس خاص طریقے کو ترک کرکے راجہ کے سامنے بیٹھنے کی اگرکوئی جرآت کرے تو سخت سزاکا مستوجب ٹھیرتا ہے،اسوقت تک یہ دستور چلاآرہاہے کہ ان غیر مسلم راجگان کے سامنے مسلمان جس طرح چاہیں بیٹھ سکتے ہیں،لیکن مسلمانوں کے سوا دوسرے مذکورہ بالاقاعدہ کے مطابق بیٹھنے پر مجبور ہیں"
(ہزارسال پہلے ص 38)
مولانا گیلانیؒ ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں کہ یہاں کے راجگان کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ بسا اوقات پچاس پچاس سال تک ایک ایک راجہ کو حکومت کرنے کا موقع اسکی گدی پر مل جاتاہے،اور یہ برکت ان حکمرانوں کو کس ذریعہ سے حاصل ہوئی؟سلیمان راوی ہے کہ بلھرا کی حکومت والوں کا خیال ہے کہ انکی حکومت کی مدت اور انکی عمر کی درازی کاسبب یہ ہے کہ عرب سے یعنی مسلمانوں سے وہ محبت کرتےہیں"(صفحہ 36)
یہ ہے قدیم ہندوستان کی تاریخ اور یہاں کے راجاؤں کا مسلمانوں کے ساتھ حسن سلوک جسکی وجہ سے بھارت پوری دنیا میں اپنی امتیازی شناخت رکھتاتھا،لیکن رفتہ رفتہ ہمارے ملک کو انگریزوں کی نظر لگ گئی، پھر جب انگریز بہادر ہندوستان آئے اور یہاں کے سیاہ وسفید کے مالک بن بیٹھے،بھارت کے اقتدار پر قبضہ کرلیا تو سب سے پہلے اسی چیز کو ختم کرنے کی کوشش کی اور ہندومسلم اتحاد اور بھائی چارے کو مٹانے کی پوری سازش رچی،جس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی رہے،اس سلسلے میں یہ تاریخ ہند نامی کتاب کا یہ اقتباس پڑھئے"کہ ایک طرف ہندوستان کی سیاسی سرگرمیاں بڑھتی جارہی تھیں،دوسری طرف برطانوی حکومت  ایک نئی چال چلنے کے بارے میں بڑی سنجیدگی سے غور کررہی تھی اور پورے انہماک کے ساتھ ہندوستان کی بساط سیاست پر مہرہ بٹھانے کے کام میں مصروف تھی،اسکے نزدیک سب سے خطرناک ہندومسلم اتحاد تھا،اس نے دیکھا کہ تشدد پسند بعض مسلمانوں کی طرح ہندؤں میں بھی ایسے جیالے اور جوان پیداہوتے جارہے ہیں،جواپنی جان ہتھیلیوں پر رکھ کر میدان میں آگئے ہیں اورطاقت وتشدد کے استعمال سے گریز نہیں کرتے،مسٹروانڈ اور لفٹنٹ ایریسٹ کاممبئی میں مرہٹوں کے ہاتھوں قتل،مظفر پور بہار میں جج پر قاتلانہ حملہ پرجوش مسلمانوں کے بجائے ہندوؤں نے کیا،اس لئے 1900ء میں انگریزوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان خلیج پیدا کرنے کےلئے یکے بعد دیگرے کئی کارروائیاں کیں،اسی سال مسٹر اینٹونی میکڈانل لفٹنٹ گورنر یوپی نے حکم جاری کیا کہ عدالتوں اور کچہریوں میں ہندی رسم الخط میں لکھی ہوئی درخواستیں اب لی جاسکیں گی،اس حکم پر ہندو حلقوں میں اظہار مسرت کیاگیا اور جلسے کرکے شکریہ کی تجویز پاس کی گئی،پھراسکو گورنر کی خدمت میں پیش کیاگیا،دوسری جانب 1903ء میں تقسیم بنگال کا شوشہ چھوڑ کر مسلمانوں سے کہاگیاکہ ہم ایک ایسا صوبہ بنانا چاہتےہیں،جس میں مسلمانوں کی اکثریت ہو اوراس صوبے میں مسلمانوں کو سیاسی بالادستی حاصل ہو ان دونوں واقعات نے دونوں طبقے پر الگ الگ اثرات ڈالے اور ہرایک کو دوسرے سے شکایت پیدا ہوگئی،اور بتدریج دونوں فرقوں میں دوری بڑھتی چلی گئی،انگریزوں کا یہی مقصد تھا،دونوں کے دلوں میں ایک دوسرے خلاف میل آگیا،اسی طرح مسٹر آر چیبالڈ کے ذریعے مسلم لیگ کے قیام کےلئے 1906ء سے زمین ہموار کی جارہی تھی اور شملہ ڈیپوٹیشن کو شرف باریابی بخش کر مسلم لیگ کے قیام کا راستہ آسان کردیاگیا،اور پھر مسلمانوں کی جنگ کا رخ جوانگریزی حکومت کی طرف تھامسلم لیگ کے ذریعے اسکو ہندؤں کی طرف پھیر دینے کی سازش کی گئی،اسطرح ہندومسلم چیقلش بڑھانے کےلئے کئی شوشے چھوڑے گئے،یہ چیقلش 1916ء میں اپنے شباب پر پہونچ گئی اوربات بالآخر کانگریس اور مسلم لیگ کے درمیان ایک معاہدہ پرجاکر ٹھہری جومیثاق لکھنؤ کے نام سے تاریخوں میں مشہور ہے"(جامع ومدلل تاریخ ہند ص 253)
اوپر کے اس اقتباس سے آپنے اندازہ لگالیا ہوگا کہ نفرت وعداوت کی یہ کھیتی کب اور کیسے شروع ہوئی؟جسکا سلسلہ تاحال جاری ہے،ملک میں ہونے والے ہزاروں سانحات،فرقہ وارانہ فسادات اور ماب لنچنگ وغیرہ کا سلسلہ جو ابھی تک ملک میں جاری ہے یہ اسی مذہبی منافرت کی کڑی ہے،
   مولانا مناظر احسن گیلانیؒ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ"ہندوستان پہونچنے اور اسکووطن بنالینے کے بعد ہندؤں کے مذہب ودین کے متعلق مسلمانوں کی جہاں تک میں جانتاہوں کوئی تنقیدی یامناظراتی کتاب نہیں پائی جاتی،یہ قصہ اسوقت شروع ہوا جب ہندوستان کی حکومت  ایک ایسی قوم کے قبضے میں چلی گئی،جسکی حکمرانی کی بنیاد ہی فرق واحکم(بانٹو اور حکومت کرو)پر قائم تھی،تحفۃ الہند اورتحفة الہند کے جواب وسوال کا سلسلہ اسی کے بعد شروع ہوا،اسی سے اندازہ کیجئے کہ مہاراجہ پٹیالہ کے پاس جب مسٹر جارج فریڈرک کمشنر انبالہ بطور مہمان کے تشریف لائے اور بہادر گڑھ کے قلعے میں مہاراجہ نے انکو اتارا تو عین محل کے پاس ایک "مسجد" کو دیکھ کر کمشنر صاحب بہادر نے فرمایا کہ اورنگ زیب تو مسجدوں کو ڈھواتا تھا(شہیدکراتاتھا)آپ نے اپنے محل کے پاس اس مسجد کو کیسے قائم رہنے دیا؟ مہاراجہ نے جواب میں کہا کہ جس ڈھنگ سے اسوقت آپ نے اورنگ زیب کا ذکر کیا،میں نہیں چاہتاکہ میرے بعد میرا ذکر بھی لوگ اسی طرح کریں،اس واقعے کونقل کرنے کےبعد آگے لکھتےہیں کہ"اگرچہ یہ جزئی واقعہ ہے لیکن بیسیوں کلیات کو جن میں آج ہندوستان پھنسا ہواہے آپ حل کرسکتےہیں"(ہزارسال پہلے 24)
میں نے اس سے پہلے بھی اپنی تحریر میں لکھاتھاکہ ملک اگر محفوظ رہےگا تو یہ صرف آپسی محبت اور بھائی چارے کےذریعے ہی ممکن ہے نفرت وعداوت کے ذریعہ ملک تقسیم اور کمزور ہوجائےگا،2014ء کے بعد سے جس طرح ملک کی فضاء میں زہر گھولا گیاہے اورحکومت میں بیٹھے ہوئے لوگ جسطرح اس منافرت کو پروان چڑھا رہے ہیں اس سے یہ بات طے ہے کہ یہ لوگ ملک کو توڑنے کی سازش میں ہیں، ملک کے چپے چپے،شہر شہر اورگاؤں گاؤں میں جسطرح شدت پسندی اور مذہبی منافرت کوہوادی جارہی ہے،یہ کوئی اتفاق نہیں ہے بلکہ یہ سب ایک پلان کےتحت کیاجارہاہے،کبھی میڈیا جھوٹ اور زہر پھیلاتاہے،کبھی حکومت کے نمائندے اشتعال انگیزی کرتے ہیں،رام مندر، لوجہاد،ماب لنچنگ یہ منافرت بھرا ایجنڈا ایک سازش کے تحت تیار کیاگیاہے،دیکھنا یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی سازشوں میں کہاں تک کامیاب ہوتے ہیں؟
روز مرہ کی زندگی میں انسان کے ساتھ کچھ ایسے واقعات پیش آجاتے ہیں جنھیں بھلایا نہیں جاسکتا،وہ ایک یادگار کی شکل میں محفوظ ہوجاتاہے،کچھ ایساہی دوتین ماہ قبل میرے ساتھ بھی ہوا جسکو یہاں ذکر کرنا دلچسپی سے خالی نہیں،ہواکہ شہر کے مشیرآباد میں،ایک نجی پروگرام میں شرکت کررہاتھا،جب یہ پروگرام ختم ہوا تھا تو رات کے ساڑھے دس بج رہےتھے، شہر حیدرآباد میں یہ وقت نارمل سمجھاتاہے،پروگرام سے فراغت کےبعد مجھے اپنے قیام گاہ تک پہونچنے کے لئے بیس پچیس کیلو میٹر کا سفر طے کرنا تھا،لہذا میں ٹووہیلر پرسوار ہوا اور اپنی منزل کی جانب چل پڑا،راستے میں موسلادھار بارش شروع ہوگئی، بارش کی وجہ سے مجھے بھی ایک جگہ رکنا پڑا،تقریباً ایک ڈیڑھ گھنٹے کے بعد بارش کچھ کم ہوئی تو میں پھر آگے کے سفرکےلئے تیار ہوا،وقت دیکھا تو سوا بارہ بج رہے تھے،لیکن اتفاق یہ کہ میری بائیک نے سیلف اٹھانا چھوڑدیا،جسکی وجہ سے گاڑی اسٹارٹ نہیں ہورہی تھی،خیال آیا کہ کک مارکر گاڑی اسٹارٹ کی جائے،لیکن یہ کوشش بھی کارگر نہ ہوسکی،کیونکہ پیٹ میں شدید دردشروع ہورہاتھا،مجھے اپنی منزل تک پہونچنے کےلئے بارہ پندرہ کیلو میٹر کا فاصلہ باقی تھا،میں نے ادھر ادھر نظردوڑائی کہ کوئی دکان کھلی ہوتو میکانک کو بتایاجائے،لیکن سنڈے اور کافی وقت ہونے کی وجہ سے ساری دکانیں بندتھی،بارش کاسلسلہ بھی جاری تھا لوگوں کی آمد ورفت بھی ہورہی تھی،کچھ لوگوں کو ہیلف کےلئے لفٹ دیا لیکن کسی نے رکنا گوارہ نہ کیا،بہرحال اسی پریشانی کی حالت میں بائیک گھڑکاتے ہوئے آگےچل پڑا،بارش اور تیز ہونے لگی اب ایک بج چکے تھے،تقریباً اسی حالت میں آدھاکیلو میٹر چلنےبعد اچانک میرے سامنے ایک غیر مسلم موٹا تازہ آدمی جنکی پیشانی پر بٹولگاہواتھا(مذہبی نشان)ٹووہیلر پرسوار اپنی نئی گاڑی میرے سامنے روکی،اور مجھ سے مخاطب ہوا،کیاہوابھائی پٹرول ہوگیاکیا؟
میں نے ان سے کہا نہیں، پٹرول تو ہے گاڑی اسٹارٹ نہیں ہورہی،وہ اپنی گاڑی سے اترا اور میری ٹووہیلر اسٹار کرنے لگا،کبھی سلیف کے ذریعے کبھی کک کے ذریعے لیکن گاڑی پھربھی اسٹارٹ نہ ہوئی،بارش اور تیز ہونے لگی،وہ میری گاڑی اسٹارٹ کرنے کی پوری کوشش کرنے لگا تقریباً آدھے گھنٹے سے زائد ہوچکا تھا،پریشان ہونے کےبعد مجھ سے کہنےلگا"مول صاب آپکی گاڑی میں پانی چلے گیا جسکی وجہ سے انجن ٹھنڈا ہوگیا"یہ کہہ کر پھر ادھر ادھر کاسامان کھولنا شروع کیا، کچھ ہی دیر میں پھر کک کے ذریعے میری گاڑی اسٹارٹ ہوگئی،میں نے دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ کاشکراداکیا، اس نے دوتین باراسٹارٹ کیا پھر بندکیا پھرمجھے سے کہاکہ"اب آپ آرام سے جاسکتےہیں"درد کی شدت کی وجہ سے میرابراحال ہورہاتھا،گاڑی چالو دیکھ کر میرے چہرے پرکچھ مسرت کی لہردوڑگئی،میں نے آنے والے غیر مسلم اجنبی کا بھی شکریہ اداکیا، پھرمیں اپنی گاڑی سوار ہوا اور اسے کچھ محنتانہ دینے لگاتو انھوں نےلینے سے یکسر انکارکردیا،میں نے بہت منت سماجت کی لیکن وہ اس رقم کوقبول کرنے کےلئے تیارنہ ہوا،میں بادل ناخواستہ انکاشکریہ اداکرتے ہوئے اپنی راہ لی،کچھ آگے جاکر جب میں نے پیچھے پلٹ کردیکھا تو وہ کھڑا تھا جہاں میں اپنی گاڑی کےساتھ تھا،نظرسے اوجھل ہونے تک تووہ اس جگہ کھڑاتھا اسکے بعد پھر معلوم نہیں کیاہوا میں نے جووہاں سے گاڑی اسٹارٹ کی توراستے میں کہیں وہ بند نہ ہوئی،گھرپرآکر بند کرنے کےبعد بند ہوئی،اس واقعے نے میرے دل پربڑا گہرا اثر چھوڑا اور میں یہ سوچتا ہوں کہ نفرت کے اس عالم شباب میں آخر ایسے لوگ بھی باقی ہیں جوصرف امن اور انسانیت کاپیغام دینا چاہتےہیں،یہ بھی سوچتاہوں کہ آخریہ آنےوالا اجنبی کون تھا؟ جسے میں نے کبھی اس سے پہلے دیکھا اور نہ اس واقعہ کے بعد،کیا آپ کو لگتانہیں ہے کہ جب تک اپنے ملک میں ایسے لوگ باقی ہیں ملک کو توڑنا آسان نہیں ہے۔ملک کے حالات تو دن بہ دن بدسے بدتر ہوتے جارہے ہیں،ملکی حالات کودیکھتے ہوئے شاید اجمل سلطان پوری کئی سال قبل اسی اصل اور قدیم ہندوستان کوتلاش کررہےتھے،وہ اب مرحوم ہوچکے ہیں،اخیرعمرتک انکو ملکی حالات سےشکوہ رہا ،اس واقعے کو وہ پڑھتے توشاید انھیں کچھ تسلی ہوتی،جسکے بارے میں ایک مشہور نظم انھوں نے کہی،جسکامصرع یہ ہے کہ 
مسلماں اور ہندو کی جان، 
کہاں ہے  میراہندوستان؟
میں اسکو ڈھونڈ رہاہوں 

(مضمون نگار کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہیں)
sarfarazahmedqasmi@gmail.com