Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, November 17, 2020

مدھیہ پردیش میں لو جہاد کے خلاف قانون لائے گی شیوراج حکومت، جمعیت علما نے بتایا آئین کی خلاف ورزی

لو جہاد کے خلاف مدھیہ پردیش حکومت کے موقف میں کسی قسم کی کمی نہیں دکھائی رہی ہے۔ پہلے سی ایم شیوراج سنگھ کے ذریعہ اس پر سخت قدم اٹھانے کی بات کہی گئی تھی مگر حکومت نے لو جہاد کو لیکر قانون بنانے کا اب با قاعدہ اعلان کردیا ہے۔ لو جہاد کے خلاف قانون بنانے کو لیکر آئندہ اسمبلی سیشن میں بل پیش کرنے کا بھی حکومت کی جانب سے اعلان کردیاگیا ہے۔

بھوپال۔ مدھیہ پردیش /صداٸے وقت /ذراٸع /17 نومبر 2020.
==============================
لو جہاد کے خلاف مدھیہ پردیش حکومت کے موقف میں کسی قسم کی کمی  نہیں دکھائی رہی ہے۔ پہلے سی ایم شیوراج سنگھ کے ذریعہ اس پر سخت قدم اٹھانے کی بات کہی گئی تھی مگر حکومت نے لو جہاد کو لیکر قانون بنانے کا اب با قاعدہ اعلان کردیا ہے۔ لو جہاد کے خلاف قانون بنانے کو لیکر آئندہ اسمبلی سیشن میں بل پیش کرنے کا بھی حکومت کی جانب سے اعلان کردیاگیا ہے۔
مدھیہ پردیش کے وزیر داخلہ ڈاکٹر نروتم مشرا کہتے ہیں کہ لو جہاد کو لیکر بی جے پی پہلے ہی اپنا موقف صاف طور پر بیان کر چکی تھی کہ اس کو لیکر قانون بنایا جائے گا۔ لوجہاد کو لیکر آئندہ اسمبلی سیشن میں سرکار بل پیش کریگی اور اسمبلی سے بل پاس ہونے اور قانون بننے کے بعد لوجہاد کو انجام دینے والوں کے خلاف  غیر ضمانتی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا جائے گا اور اس قانون کے ذریعہ پانچ سال کی سزا کا بھی التزام ہوگا۔ اگر کوئی اپنی مرضی سے تبدیلی مذہب کر کے شادی کرنا چاہتا ہے تو اسے ایک ماہ قبل کلکٹر کے یہاں عرضی دینا ہوگی۔ کلکٹر کے یہاں عرضی دینے اور منظوری کے بغیر اگر کوئی تبدیلی مذہب کرتا ہے تو اس کے خلاف سخت کاروائی ہو گی۔
وہیں سرکار کے موقف کے خلاف مدھیہ پردیش میں سیاست شروع ہوگئی ہے۔ مدھیہ پردیش کانگریس نے حکومت کے موقف کی سخت مذمت کرتے ہوئے اسے اپنی حکومت کی ناکامی سے تعبیر کیا ہے۔ مدھیہ پردیش یوتھ کانگریس کے صدر و کانگریس ایم ایل اے کنال چودھری کا کہنا ہے کہ خواتین کی عصمت دری کو روکنے اور لو جہاد جیسے معاملہ کو روکنے کے پہلے سے ہی بہت سے قانون بنے ہوئے ہیں ۔ حکومت جس قانون کی بات کر رہی ہے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ در اصل حکومت اپنی ناکامی کوچھپانے کے لئے ایسے قانون بنا رہی ہے تاکہ عوام کو بنیادی مسائل سے بھٹکایا جا سکے۔ آٹھ مہینے کی سرکار میں اب تک خواتین کی عصمت دری کے چھیالیس ہزار معاملے درج ہوچکے ہیں ۔ جرائم کو کنٹرول کرنے اور مافیا پر جب تک سرکار کاروائی نہیں کرتی ہے تب تک قانون بنانے سے کچھ نہیں ہونے والا ہے۔
مدھیہ پردیش جمعیت علما نے بھی لوجہاد پرحکومت کے موقف کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ سپریم کورٹ کے معروف وکیل و مدھیہ پردیش جمعیت علما کے صدر حاجی محمد ہارون کہتے ہیں کہ  اس قانون سے شہریوں کو آئین میں دئے گئے حقوق کی خلاف ورزی ہوگی۔ آئین نے سبھی شہریوں کو اپنی پسند کا مذہب اختیار کرنے کی آزادی دی ہے اور لو اور جہاد کو ایک ساتھ نہیں جوڑا جا سکتا ہے۔ جہاد ایک مقدس فریضہ کے لئے ہوتا ہے ۔ جہاں برائی کا خاتمہ کرنے اور اچھائیوں کو قائم کرنے کے لئے ہوتا ہے ۔بھگوان رام نے بھی نیکی کو قائم کرنے اور بدی کا خاتمہ کرنے کے لئے راون سے جہاد کیا تھا۔ یہی نہیں اگر کوئی مسلم لڑکی کسی ہندو لڑکے سے شادی کرتی ہے تو ایسے لوگ گھر واپسی کہہ کر استقبال کرتے ہیں مگر اگر کوئی ہندو لڑکی مسلم لڑکی سے شادی کرلیتی ہے تو اسے لو جہاد کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے جو کہ غلط ہے۔ اگر سماج میں کوئی برائی ہے تو اس کا خاتمہ ہونا چاہیئے ۔ سماجی برائی کے خاتمہ کے لئے جمعیت حکومت کے ساتھ ہے مگر آئینی حقوق پر شب خون مارنے کی تائید نہیں کی جا سکتی ہے۔