Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, November 23, 2020

نہی ‏عن ‏المنکر۔۔۔۔۔


تحریر / مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی 
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ وجھارکھنڈ پھلواری شریف، پٹنہ.
             صداٸے وقت    
       ==============
ایک سرکاری دفترجس کا پورا ماحول بدعنوانی، کر پشن اوررشوت خو ری سے آلودہ ہو چکا تھا،اس میں ایک افسر تھے،نام تھا: ابو المکارم ،انتہا ئی دیا نت دار ،ایما نداراور اصو ل پسند ،اپنی دنیا میں مگن رہنے و الے ،نماز کا اہتما م ،قر آن کریم کی تلاوت ،غلط فائل کی واپسی اور ہر قسم کی بے اصولی سے اجتناب ،گو یا دفتر کے پورے ماحول میں وہ کسی طر ح فٹ نہیں بیٹھتے تھے،بد عنوانی اور کرپشن کے اس ماحو ل میں بے چار ے ابوالمکارم پر کیا کچھ گزر رہی ہو گی،دوسرا کون جان سکتا ہے، مجلس میں کبھی تذکرہ ہوتا تو ان کی تعریف بھی کی جا تی ،ان کے صلاح و تقو ی کو مثال میں پیش کیا جاتا اور کہا جاتا کہ اسے کہتے ہیں’’ قعر دریا‘‘ میں ’’تختہ بند‘‘ ہو کر اس طر ح رہنا کہ’’ دامن تر ‘‘نہ ہو؛لیکن اندر سے کوئی پسند نہ کرتا ،سب انہیں کباب کی ہڈی سمجھتے ۔
ایک دن میں اس دفتر کے نیم پلیٹ (Name Plaet) کو پڑھ رہا تھا تو دیکھا کہ کسی نے ان کے نام کے آخری میم کو کھرچ کر صاف کردیا تھا ،گناہ گاروں کی اس دنیا میں اس عمل کے بعد ابو المکارم، کم از کم لکھنے کی حد تک ’’ابو المکا ر‘‘ہو گئے تھے ۔
’’ابو المکارم ‘‘سے ’’ابو المکار ‘‘تک کا یہ سفر صرف میم کے مٹا دےنے کا معا ملہ نہیں ہے ؛بلکہ یہ اس صورت حال کو بتا تا ہے کہ سما ج میں جب منکرات کا مزاج بن جاتا ہے،عام لو گ اس رنگ میں رنگ جا تے ہیں ،تو سما ج کا وہ فرد یا طبقہ جو منکرات سے الگ رہتا ہے، اپنے کو سما جی بائیکاٹ کی پوزیشن میں پاتاہے ،گاؤں میںشا دی کی تقر یب میں ڈسکو ڈانس ،بھگڑاناچ ،فحش قسم کے فلمی گانے کا شور ہے ،ایسے میں وہ شخص جس نے اپنے کو اس ماحول سے پچا رکھا ہے، چہاردیواری میںمحصور،کمرہ میں بندہو جاتا ہے ،سارے لوگ عیش و طرب کی مجلس میں شریک ہیں اور یہ بے چارہ الگ تھلگ ہوکر رہ گیا ہے ، نماز کی اذان ہو گئی، دو چارلوگ مسجد گئے ،بقیہ تاش کھیلنے میں لگے ہوئے ہیں، دوکانوں پر بیٹھ کر غیبت کر رہے ہیں ،کسی کی پگڑی اچھالی جا رہی ہے ،کسی کا مذاق اڑایا جا رہا ہے اور بقیہ لو گ ٹھٹھے لگا رہے ہیں،یہ ماحول کسی ایک دفتر ،ایک گاؤں یا شہر کا نہیں ہے،یہاں تو ہر نگر ہر ڈگر ایک سا حال ہے ۔
غو ر کریں تو معلوم ہوگا کہ یہ بے راہ روی یک بیک سماج کا جز نہیں بنی ہے ؛بلکہ اس کے پیچھے برسو ں اور سالو ں کی کوتاہیاں ہیں ،جو نہی عن المنکر کے سلسلے میں کی گئی ہیں ۔جب سماج میں ایسا ماحو ل بن جاتا ہے تو حضرت لوط علیہ السلام جیسے بر گزیدہ نبی کو بھی گاؤں اور علاقہ نہیں بخشتا اور اعلان کر دیتا ہے کہ﴿ أخْرِ جُوْ ا آلَ لُو طٍ مِنْ قَرْ یَتِکُمْ اِنَّہُمْ اُنَا سٌ یَتَطَہَّرُوْنَ﴾ (قرآن ) ’’آل لو ط کو اپنے شہر سے نکال دو، یہ لو گ ستھرے رہنا چاہتے ہیں؛یعنی اپنے کو بڑا پاک وصاف بننا چاہتے ہیں‘‘  تو ہم ناپاکوں میں ان کا کیا کام ہے ۔
اور اگر نکالنا ممکن نہیں ہوتا تو اس پاک و صاف آدمی میں اتنے کیڑے نکالے جاتے ہیں کہ اپنا عیب چھپ جائے، نیز صالح اور منکرات کے عادی لوگ ایک ہی صف میں کھڑے نظر آئیں اور کچھ نہیں ممکن ہوا تو ایسا نام ہی دےدیتے ہیں جو برائی کی طرف مشیر ہو؛ حا لانکہ قرآن کریم میں صاف صاف کہا گیا کہ ﴿بِئْسَ الِا سْمُ الْفُسُوْ قُ بَعْدَ الِایْمَانِ﴾’’  ایمان کے بعد فاسقانہ نام رکھنا بُری بات ہے‘‘؛،لیکن سماج اس کی پرواہ نہیں کرتا ،خیال ہوتا تو منکرات ہی سے تائب نہ ہو جاتا ۔
اس حد تک جب سماج چلا جائے تو غضب الہی متوجہ ہوتا ہے اور قوم کو اپنے کئے کی سزا ملتی ہے ۔اس کی زد میں کچھ ایسے لوگ اور ایسا خاندان بھی آجاتا ہے جو اصلاً سما ج کی بے راہ روی کا شریک و سہیم نہیں ہوتا ،قر آن کریم میں واضح طور پر فرمایا گیا کہ ﴿وَ اتَّقُوْ ا فِتْنَۃً لَا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْ ا مِنْکُمْ خَا صَّۃ﴾ً اس فسادسے بچتے رہو جو صرف ظالموں پر ہی نہیں پڑے گا۔
اس کا سیدھا اور صاف مطلب یہ ہے کہ جنہو ں نے برائیوں کو دیکھ کر مداہنت کی پالیسی اپنائی، نہ تو تذکیر کا کام کیا، نہ ہی برائی سے رو کنے کی جرأت دکھائی اور نہ اظہار نفرت ہی کر سکا ،خدائی عذاب میں یہ شخص بھی مبتلا ہوگااور اس کا جرم صرف اتنا ہوگا کہ اللہ کی زمین پر اس نے گناہ ہوتے دیکھا اور اس پر نکیر کی کسی در جے میں ہمت نہیں جٹا سکا ،اوراس نیک آدمی کے چہرے پرشکن تک نہیں آئی ۔
اس معاملہ کو سمجھنے کے لئے اللہ کے رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ تمثیلی حدیث کافی ہے جس میں آپ نے دو منزلہ جہاز کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ کچھ لوگ اوپر کی منزل میں ہیں اور کچھ نیچے کی منزل میں، پانی اوپر کی منزل سے لانا ہوتا ہے اب اگر نیچے والا سوچے کہ بار بار اوپر جانے سے ہر دو کو تکلیف ہوتی ہے کیوں نہ نیچے کی سطح میں ہی ایک سوراخ کر لیا جا ئے تا کہ پانی بآسانی حاصل ہو، ایسے میں اگر اوپر والے نے اس احمقانہ حرکت سے نیچے والے کو نہ روکا اور اس زعم میں رہ گئے کہ ہم تو اوپر ہیں ،نیچے والا جو چاہے کرے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ دونوں اس میں غرقاب ہو جائیں گے ۔یعنی ’’ہم تو ڈو بے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے ‘‘والا معاملہ ہو گا ۔
بعض لو گ نہی عن المنکر کی کوتاہیوں کو چھپانے کیلئے قرآن کریم کی دوسری آیت ﴿ یَاَ یُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْاعَلَیْکُمْ اَنْفُسَکُمْ لَا یَضُرُّ کُمْ مَنْ ضَلَّ اِذاھْتَدَیْتُمْ﴾ کا سہارا لیتے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ تم پر اپنی جان کی فکر لازم ہے، تم راہ پر رہو تو جو کوئی بھی گمراہ ہو، تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔حالانکہ اس آیت سے نہی عن المنکر جیسے فریضہ سے غفلت کی کوئی گنجائش نہیں نکلتی ۔ کیوںکہ سارے مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ ’’ اِھْتَدَیْتُمْ‘‘ یعنی سیدھی راہ کا مطلب، ایمان کے ساتھ نہی عن المنکرکی ادائیگی بھی ہے، ہا ں! اگر روکنے کی کوشش کی گئی ،پھر بھی لوگ برائی سے نہیں رُکے تو یہ شخص معذور سمجھا جائے گا ،حضرت تھانوی نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ اس آیت سے یہ سمجھ لینا کہ ’’جب ایک شخص اپنا روزہ نماز ٹھیک کرلے تو امر بالمعروف چھوڑ دینے سے اسے کوئی مضرت نہیں ہوتی، سخت نادانی کی بات ہے، لفظ اہتداء امر المعروف وغیرہ تمام وظائف و ہدایت کو شامل ہے‘‘ ۔
لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ موقع ومحل دیکھے بغیر تذکیر شروع کردی جائے اور ہر آدمی نہی عن المنکر زور وشور سے کرنے لگے بلکہ شر یعت میں نہی عن المنکر کے مدارج اور طریقے ہیں ،جس کی وضاحت آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے مَنْ رَ أیٰ مِنْکُمْ مُنْکَرَاً فَلْیُغَیَِّرْہُ بِیَدِہِ فَمَنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہِ فَمَنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہِ میں فرمایا ہے کہ اگر کوئی تم میں منکرات کو دیکھے اور قوت سے رو کنے کی استطاعت ہو تو قوت سے روک دے۔ اور اگر قوت سے نہ روک سکتا ہے تو زبان سے کہے ۔اور اگر اس کی بھی سکت نہیں ہے تو دل سے برا مانے ۔ امام غزالیؒ نے اس حدیث پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ ہدایت سماج کے تین طبقوں کے لئے ہے ،ایک امراء اور حکام ہیں ،سلطنتو ں کے مالک ہیں اور سارے معاملات میں ان کا حکم چلتا ہے ،ان لوگوں کے لیے ہدایت ہے کہ وہ طاقت و قوت سے منکرات کو روکنے کی جد و جہد کریں؛ تاکہ سماج کو برائیوں سے پاک کیا جا سکے ۔
دوسرا طبقہ علماء و صلحاء کا ہے، ان لوگوں کے پاس قوت تنفیذ تو نہیں ہوتی؛ لیکن اللہ تعالی ان کی زبانوں میں ایسی تاثیر عطا کرتے ہیں کہ وہ لوگوں کے دلوں پر دستک دیتے ہیں اور لوگ ان کے احکا م کی تعمیل اور ان کی ہدایات پر عمل کرنا فخر سمجھتے ہیں، ایسے لو گو ں کو یہ ہدایت ہے کہ سماج کے منکرات پر زبان سے نکیر کریں ۔
تیسرا طبقہ عوام الناس کاہے جن کو اللہ نے نہ تو حکومت دی ہے اور نہ زبان ہوشمند، نہ ان کے پاس طاقت ہے اور نہ ہی وہ کچھ کہنے کی ہمت جٹا پاتے ہیں، ایسے لوگوں اس کے لیے دل سے برا ماننا، ہدایت پر قائم رہنے کے لئے کافی ہے،یہ ایمان کا کمزور اور کمتر درجہ ہے؛ لیکن عضو ضعیف کر بھی کیا سکتا ہے،وہ منکرات کو دیکھتا ہے اور دل میں کڑھ کر رہ جاتا ہے ،وہ سخت ذہنی ٹنشن میںرہتا ہے،کچھ نہیں ہو تا تو اپنی بے بسی اور بے کسی پر آنسو بہاتا ہے؛ اس لیے کہ وہ اس سے زیادہ کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا ،کچھ لوگ خوب منکرات کی مجلسوں میں دعوتیں اڑاتے ہیں ،اور سارے پروگرام میں شریک رہتے ہیں ،پوچھیے کہ آپ کو وہاں نہیں جانا چاہےے تو بڑی معصومیت سے کہتے ہیں کہ ہم دل سے برا ماننے والوں میں ہیں،یہ گناہ پر ڈھٹائی ہے ، دل سے برا ماننے والا مجلس کا شریک نہیںہوا کرتا،جب دل میں کڑھن ہو ،اور اللہ کی نا فر ما نی دیکھ دیکھ کر قلب و جگر تپ رہا ہو ،ایسے میں مجلسوں میں شر یک ہو نے کا خیا ل ہی نہیں آسکتا ۔ہر ر و ز وتر کی نماز میں جب ہم دعا ئ قنو ت میں وَنَخْلَعُ وَ نَتْرُ کُ مَنْ یَفْجُرُ کَ پڑھتے ہیں ،تو اللہ کے سامنے اقرار کر تے ہیں کہ ہم گنا ہگا ر وں سے قطع تعلق کر تے ہیں اور پھر اس وعدہ کو بھول کر نہ صرف گناہ گاروںکی مجلس کی زینت بڑھاتے ہیں ؛بلکہ خو د گنا ہو ں کے ارتکا ب میں مبتلا ہو تے ہیں ۔اور ان لو گوں کے دست و با زو بننے سے بھی گر یز نہیں کر تے ،جنہو ں نے پوری دنیا میں عیاشی و فحا شی کا با زا ر گر م کر ر کھا ہے ۔
مختصر یہ کہ آج سما ج جس طر ح منکر ات میں جکڑا ہو ا ہے اور یہ سلسلہ در از سے در از تر ہو تا جا رہا ہے ،ضر و رت ہے کہ ’’امر با لمعر و ف ‘‘کے لئے قائم جما عت کے طرز پر’’ نہی عن المنکر‘‘کی بھی ایک جماعت ہو ،صر ف ’’امر با لمعر و ف ‘‘کی تبلیغ کا فی نہیں ہے۔ اگر یہ کافی ہو تا تو امر بالمعروف کے ساتھ نہی عن المنکر کا تذکرہ اہتمام کے ساتھ نہ ہو تا،یہ اہتمام بتا تا ہے کہ’’ نہی عن المنکر‘‘بھی ہماری ملی اور دعوتی ذمہ دا ری ہے ۔یہ امت خیرامت اس لےے ہے کہ یہ لو گوں کو بھلائی کا حکم کر تی ہے اور بر ائی سے رو کتی ہے ۔بر ائی سے رو کنے کے عمل کو چھو ڑ کر ہم خیر امت کہلانے کے مستحق نہیں ہو سکتے ۔