Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, November 28, 2020

منزل ‏کی ‏تمنا ‏ہے ‏تو ‏کر ‏جہد ‏مسلسل۔۔۔۔


مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پٹنہ۔
                  صداٸے وقت 
              ============
ہر آدمی کامیابی کے بام عروج کو چھونے کا خواہش مند ہوتا ہے، یہ خواہش کسی خاص فرد اور طبقہ میں نہیں بلکہ تمام لوگوں کے پاس ہوتی ہے،جو لوگ اپنی خواہش کو کامیابی سے ہم کنار کرنے کے لیے جد وجہد کرتے ہیں، وہ منزل کو پالیتے ہیں، اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ انسان کو بقدر محنت وکوشش ہی ملا کرتا ہے، عربی کا مشہور مقولہ ہے من جد وجد جس نے کوشش کیا پالیا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ منزل کو پانے کے لیے جاں فشانی، محنت مشقت اور جہد مسلسل کے بغیر کوئی کامیابی حاصل نہیں کی جا سکتی دنیا میں مختلف شعبوں میں جو کامیاب لوگ ہیں ان کی زندگی کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ انہیں کامیابی اتفاقا نہیں ملی ہے، اس کے لیے انہوں نے جی جان لگا دیا، ہندوستان کے سابق صدر جمہوریہ، عظیم سائنس داں مفکر اور دانشور اے پی جے عبد الکلام کا کہنا تھا کہ بڑا مقصد بڑی محنت اور بڑی لگن چاہتا ہے، وہ چھوٹے ہدف، نشانے اورمقصد کو جرم تصور کرتے تھے، ان کا کہنا تھا کہ خواب وہ نہیں ہے جو آپ سوتے ہوئے دیکھتے ہیں، خواب وہ ہے جو آپ کو سونے نہ دے، عربی کا ایک مصرعہ ہے، جس کا مفہوم ہے، جو بلندی کا خواہش مند ہوتا ہے وہ راتوں کو جاگتا ہے۔”من طلب العلیٰ سھراللیالی“ جاگنے اور محنت کے راستہ میں رکاوٹیں بھی آتی ہیں، لیکن اولو العزم لوگ ان رکاوٹوں کو دور کرکے منزل تک پہونچتے ہیں، اس کے لیے پختہ عزم وارادہ کی ضرورت ہوتی ہے، یہ عزم وارادہ اور حوصلہ چھوٹی سے چھوٹی چیزوں کو دیکھ کر بھی پیدا ہوسکتا ہے، چیونٹی کو دیکھیئے، بار بار اپنے وزن سے زیادہ بوجھ لے کر چلتی ہے، رکتی ہے، گرتی ہے، دوبارہ اٹھاتی ہے اور بار ہا گرنے کے باوجود وہ حوصلہ نہیں ہارتی اورمنزل پر جا کر ہی دم لیتی ہے، پتھر بہت سخت ہوتا ہے اور اس میں سوراخ کرنا آسان نہیں ہوتا، لیکن پانی کا قطرہ مسلسل اس پر گرتا رہے تو سوراخ کر دیتا ہے، زیادہ تیزی میں گرنے لگے تو پتھر کو اس کی جگہ سے ہٹا دیتا ہے۔ ان مثالوں میں ہمارے لیے سبق ہے کہ ہمیں ناکامیوں سے گھبرانا نہیں چاہیے، مایوسی سے بچنا چاہیے،اور منزل تک پہونچنے کے لئے مسلسل کوشش کرتے رہنا چاہیے،یوں بھی اللہ پر ایمان رکھنے والے مایوس نہیں ہوا کرتے، زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے ضروری ہے کہ راستوں کو بند نہ سمجھا جائے، راستہ کبھی بند نہیں ہوتے، ہر بند راستے کے قریب سے ایک متبادل سڑک ہوتی ہے جو آگے جا کر شاہ راہ کو جوڑتی ہے، بے حوصلہ لوگ راستے بند دیکھ کر واپسی کی راہ لیتے ہیں، اوربا عزم وحوصلہ لوگ اس متبادل راستے پر چل پڑتے ہیں، جسے ڈائی ورسن (Diversion)کہا جاتا ہے، یہ ڈائی ورسن منزل اور مقصد سے نہیں ہوتا بلکہ راستے اور طریقوں سے ہوتا ہے اس لیے کہ ہدف میں بار بار تبدیلی کرنے والے ناکام ہوجاتے ہیں، اس لیے ہدف اور مقصد سوچ سمجھ کر قائم کرنا چاہیے، بڑوں کے مشورے اور گارجین کی راہنمائی میں منتخب کرنا چاہیے، اس انتخاب میں اپنی دلچسپی کا بھی خیال رکھنا چاہیے، تاکہ طبیعت میں امنگ باقی رہے، کئی بار دیکھا گیا ہے کہ ہدف ایسا مقرر کر لیا گیا جس سے ذہنی ہم آہنگی نہیں ہے، ایسے میں مقصد کے حصول کے لیے جد وجہدکی طرف طبیعت مائل نہیں ہوتی اور انسان اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتا رہتا ہے، جس کا ٹھیٹھ ترجمہ جھک مارنا ہے، جھک ماری اور چیز ہے اور خوش دلی سے محنت دوسری چیز۔
ہدف اور مقصد کو پانے میں ہمارے طلبہ وطالبات مالی دشواریوں کا رونا روتے ہیں، کوچنگ کلاسز کے مہنگے ہونے اور قوت خرید نہ ہونے کا شکوہ کرتے ہیں، یقینا کبھی یہ بھی رکاوٹ کا سبب ہوتا ہے، لیکن اللہ نے آپ کو ایک سوچنے والا دماغ، دو کام کرنے والے ہاتھ اور منزل کی طرف رواں ہونے کے لیے دو پاؤں دیے ہیں، اس رکاوٹ کو دور کرنے کے لیے سوچیے، دماغ کو کام میں لائیے، ہاتھ سے مالی دشواریوں کو دور کرنے کی کوشش کیجئے، پاؤں کو منزل کی طرف رواں رکھنے کے لیے ہر جائز جتن کیجئے۔ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا بکریوں کو چرانا، کھجور کے باغات کی سینچائی کرنا، محنت مزدوری کرنا یہ اسوۃ ہے ہمارے لیے؛ خصوصاً ان کے لیے جن کے راستے میں مالی رکاوٹ عفریت کی طرح منہ کھولے کھڑی ہے، اے پی جی عبد الکلام نے ہدف کو پانے کے لیے نبی کے اس اسوۃ کو اپنا یا، غربت اور مفلسی کی چادر کو تار تار کرنے کے لیے اخبار کے ہاکر کا کام کیا، انٹر کے امتحان کے لیے فیس مہیا نہیں ہو رہی تھی تو بہن کے کنگن گروی رکھے اور پھر اس بحران کو عبور کرکے ملک کے سرکا تاج بن گیے، کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مالی پریشانیوں کو دور کرنے کے لیے کسی بھی جائز اور حلال کام کو جز وقتی طور پر کیا جا سکتا ہے، ان چھوٹے چھوٹے کاموں کی مثال اس لیے دی گئی ہے کہ کامیابی کے ہدف تک پہونچنے کے لیے کسی کام کو ہلکا نہ سمجھا جائے، آج کل تو جز وقتی کام کے بڑے مواقع صحافت، کمپیوٹر، کال سنٹراور کل کارخانوں میں کثرت سے موجود ہیں، ضرورت ہمیں اپنے مزاج کے اعتبار سے اسے اپنا کر معاشی تنگی دور کرنے کی ہے،گذشتہ سالوں میں کچھ ایسے ادارے بھی وجود میں آگیے ہیں جو آپ کو ہدف تک پہونچانے کے لیے معاون ومددگار ہیں، ان میں سب سے نمایاں رحمانی۔۰۳ ہے، جو امیر شریعت مفکر اسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانی دامت برکاتہم کی قیادت میں ایسے غریب وبے سہارا طلبہ وطالبات کے لیے مفت کوچنگ، رہائش اور خورد ونوش کا انتظام کرتی ہے، بڑی تعداد میں وہاں سے طلبہ وطالبات کامیاب ہو کر اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہیں۔اس سلسلے میں ہمارے بچوں کا مزاج روشنی سے زیادہ پانی کی طرح ہونا چاہیے، روشنی بہت اچھی چیز ہے بلکہ علم کو نورہی کہا گیا ہے، لیکن اس نور کے حصول کے لیے روشنی کی ایک صفت کو ترک کرنا ضروری ہے، آپ پھیلی ہوئی روشنی کو کھڑکی پر پردہ ڈال کر روک سکتے ہیں، اور اس کی تیز رفتاری چاہے سائنس دانوں کے مطابق جس قدر ہو کپڑے کا ایک پردہ اس کی رفتار کو روک سکتا ہے، اس کے بر عکس پانی کو دیکھیں، پانی کی رفتار کو راستے میں حائل پہاڑ بھی نہیں روک پاتا، پانی کے راستے میں اگر کوئی چیز حائل ہوجاتی ہے تو دائیں بائیں سے وہ راستہ لیتا ہے اور اس وقت تک رواں رہتا ہے، جب تک اس میں روانی کی سکت باقی رہتی ہے، ہدف کو پانے کے لیے اسی قسم کی محنت کی ضرورت ہوا کرتی ہے اور آخری حد تک اپنی توانائی لگا دینی پڑتی ہے، ہمارے بچوں کا رویہ یہ ہے کہ وہ والدین کے غریب ہونے کی صورت میں اپنا ہاتھ پیر نہیں چلاتے، بس شکوہ کناں ہوتے ہیں کہ میرے والدین کے پاس کوچنگ اور شہر میں رہائش کے اخراجات کے پیسے نہیں ہیں، اس لیے میں نہیں پڑھ رہا ہوں، وہ اپنے اندر چھپی صلاحیت کو بروئے کار نہیں لاتے اور اطمینان سے اپنی قسمت کو قصور وار بنا کر بیٹھ جاتے ہیں، ایسے لوگ ہمیشہ ناکام ہی رہا کرتے ہیں۔
 قسمت یقینا بڑی چیز ہے، اور اللہ جو چاہیں گے وہی ہوگا، اس پر ہمارا ایمان وعقیدہ ہے، لیکن یہ یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ ہمیں اسباب اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور قسمت نیز مشیت ایزدی کو ہم سے چھپایا گیا ہے، اس کا مطلب ہے کہ تقدیر کے بھروسے بیٹھنے کا حکم ہمارے لیے نہیں ہے، ہمیں ہدف کو پانے کے لیے قدم اٹھانا چاہیے، حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ آدمی ایک پاؤں اٹھائے تو اللہ دوسرا قدم اٹھوا دیتے ہیں، اللہ اس کے علاوہ بھی کر سکتے ہیں، وہ قادر مطلق ہیں، لیکن اللہ رب العزت کا طریقہ وہی ہے جس کا ذکر کیا گیا؛ اس لیے ہمیں زندگی کے ہر موڑ پر اسباب کو اختیار کرنا چاہیے، سخت جد وجہد کرنی چاہیے؛ کیوں کہ مسلسل محنت ہی کامیابی کے لیے ماسٹر کی (Master Key)اور شاہ کلید ہے۔
محنت کرنے سے جب منزل قریب آجاتی ہے تو خوشی اور مسرت کا عالم عجیب ہوتا ہے، ایسے میں وہ محنت سے گھبراتے نہیں اپنی ضرورت کی تکمیل کے ساتھ وہ دوسروں کی مدد کے لیے بھی تیار رہتے ہیں، حالاں کہ اس مدد کے نتیجے میں ان پر محنت کا اضافی بوجھ پڑتا ہے، لیکن وہ اسے دوسروں کی خوشی کے لیے گوارہ کر لیتے ہیں، اس لیے ان پر ناگواری کی کیفیت نہیں طاری ہوتی، بلکہ انہیں ذہنی سکون ملتا ہے، آپ کا تعلق زندگی کے جس شعبہ سے بھی ہو، پڑھ رہے ہوں، ملازمت کر رہے ہوں، تجارت میں مشغول ہوں، کوئی ہنر سیکھ رہے ہوں، سب میں آپ کی ذاتی دلچسپی اور سخت محنت ہی آپ کو کامیابی سے ہم کنار کر سکتی ہے، جو لوگ سست اور کاہل ہیں، جو اپنی منزل تک پہونچنے کے لیے نہ محنت کرتے ہیں اور نہ ہی حوصلہ جُٹا پاتے ہیں، وہ جلد ہی تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں اور ناکام لوگوں کی فہرست میں جگہ پاتے ہیں۔خوب یاد رکھیے   ؎
منزل کی تمنا ہے تو کر جہد مسلسل 
خیرات میں تو چاند ستارے نہیں ملتے
(بشکریہ نقیب)