Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, December 11, 2020

دلیپ ‏کمار ‏اور ‏یوسف ‏خان ‏کے ‏درمیان ‏کا ‏فرق۔۔


از / جاویدجمال الدین،/ صداٸے وقت ۔
==============================
یوسف خان عرف دلیپ کمار کے بارے میں بچپن علم رہا،ہوش سنبھالنے پر ان کی تین کردار والی فلم بیراگ کے کافی چرچے رہے،جس میں اُن کی عمر صاف نظر آنے لگی کہ اب انہیں کالج طالبعلم یا باغی نوجوان کا رول نہیں کرناچاہئیے۔فلمی داستان کے مطابق پھر وہ پانچ سال کے لیے گوشہء نشین ہوگئے۔خدادادصلاحیت کے مالک دلیپ کمار اور یوسف خان میں زمین آسمان کا فرق نظر آتا ہے،بقول آصف فاروقی وہ اکثر کہتے تھے کہ یوسف خان تو دلیپ کمار سے خوف زدہ رہتا ہے۔
دلیپ کمار سے ویسے تو انگنت ملاقاتیں ہوئی ہیں ،لیکن چار مواقع ایسے آئے جس میں ہم دونوں بالکل روبرو رہے، مارچ 1993ءکی ملاقات میں توان کے پالی ہل کے بنگلے پرصرف اور صرف ہم دونوں موجودتھے،اور ممبئی فسادات اور 12،مارچ 1993کے مسلسل بم دھماکوں کے بعد کی صورتحال پر تبادلہ خیال کررہے تھے،اس موقع پر مجھے احساس ہوا کہ دلیپ کمار کے دل میں قوم وملت کا کتنا درد ہے اور کسمپرسی کی شکار ملت کے لیے کس حد تک فکر مند ہیں۔دراصل 6دسمبر1992ء کو بابری مسجد کی شہادت کے بعد ممبئی سمیت ملک بھر میں خونریز فسادات پھوٹ پڑے تھے،لیکن ممبئی میں یہ سلسلہ دور یعنی جنوری 1993ء میں بھی جاری رہاتھا۔انقلاب کے مالکان نے انقلاب ریلیف فنڈ کی تشکیل کی تھی،حیدراباد سے شائع ہونے والے ملک کے کثیرالاشاعت اخبار سیاست کے روح رواں جناب زاہدعلی خاں نے دکن کے اس مشہور شہر سے اخبارہذاکے توسط سے ریلیف فنڈ جمع کرنے کے لیے اہم رول ادا کیاتھا۔مارچ1993ء میں وہ چاہتے تھے کہ دلیپ کمار کے ذریعے ایک خط جاری کیاجائے ،جس میں وہ حیدرآباد اور آندھراپردیش کے عوام کا شکریہ اداکریں ۔مرحوم مدیرانقلاب فضیل جعفری نے مجھے یہ زمہ داری سونپی تھی کہ میں دلیپ صاحب سے شکریہ کاخط لیکر آؤں ،ماہ رمضان کا آخری عشرہ تھا،میں ایک روز قبل رات آٹھ ساڑھے آٹھ بجے فون ملایا اور یہ اتفاق ہی تھاکہ دلیپ کمار نے خود ہی فون کال ریسیو کیا،بھاری بھرکم آواز سن کر پہلے تو میں ہڑبڑاگیا لیکن پھر ہمت کرکے ان سے ملاقات کا مقصد اور وقت طلب کرلیا۔بڑی نرمی سے گفتگو کی اور وقت بھی دے دیا۔
ایک رپورٹر کی حیثیت سے 1993ء میرا بچپن ہی تھا،میں بھی خوشی خوشی پالی ہل پہنچ گیا،حیدرآبادیں دربان نے انٹرکوم پر کسی سے بات کی اور اس کے اشارے پر میں کشادہ لان پارکرتے ہوئے برآمدے میں پہنچااور پی اے جارج نے استقبال کرکے دلیپ کمار کومیری آمد کے بارے میں مطلع کردیا۔
دوپہر کا وقت اچانک پہلی منزل سے زینے دلیپ صاحب اترتے ہوئے نظرآئے۔میری آنکھیں پھٹ رہ گئیں ،لیکن پھر میں سنبھل گیا اور اپنا تعارف پیش کیا،بڑی خندہ پیشانی سے ملے۔ بنگلہ کے طور میں کھڑی لمبی سی کار میں بیٹھ گئے اور مجھے پہلے ڈرائیور کی بغل والی سیٹ پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔اور پھر نہ جانے ڈرائیور کو کار کے باہر جانے لیے کہہ کر اپنے بغل میں بلالیا۔یہ ایک ایسا موقعہ تھاکہ میں نے اپنے رب کا شکربجالایا، ، کیونکہ ایک معمولی رپورٹر،ایک عالمی شہرت یافتہ شخصیت کی بغل میں بیٹھاتھا۔
پہلے چھوٹالیٹر ہیڈاگیا ،لیکن وہ چاہتے تھے بڑے لیٹر کااستعمال کریں ،"ارے بھائی حیدرآباد کے لوگ دلیپ کمار کو چاہتے ہیں ،اس لیے ٹھیک ٹھاک ہونا چاہئیے۔یوین جانئیے جب انہوں نے اپنا شکریہ کاپیغام تحریر کیا تو میں ان کاخوش خط دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا۔دفتر میں خط کو اسکین کے بعد سیاست کے دفتر بھیج دیاگیا،لیکن مجھے افسوس ہے کہ اس دور میں اسمارٹ فون نہیں تھا،ورنہ وہ خط اور ایک شخصیت سیلفی کے ذریعے موبائل فون میں قید ہوتی۔
 پی اے کے ذریعے  لیٹرلانے کے درمیان ،اس وقفہ میں وہ شہر اور ملک کے حالات خصوصی طور پر ممبئی کے حالات دریافت کرتے رہے، خصوصاً 12،مارچ بم دھماکوں کے بعد پیداصورتحال پر انہیں تشویش تھی ،اس پہلے بھی وہ فساد متاثرین کی امداد کے لیے تشکیل دی گئی مرکزی ریلیف کمیٹی کے لیے میٹنگ میں شریک ہوتے تھے،جبکہ اداکار سنیل دت اور یوسف لکڑاوالابھی پیش پیش رہے تھے۔
یہ ایک ملاقات تھی ،جس کاچرچہ میں ہفتوں تک کرتارہااور آج بھی کرتا ہوں ،لیکن دلیپ کمار سے میری پہلی ملاقات 'بلائنڈ اسپیشل' ٹرین میں بمبئی اور پونے کے درمیان سفر کے دوران ہوئی،میں روزنامہ انقلاب کے نمائندے کے طور پر ٹرین میں سوار تھا۔دراصل دلیپ صاحب نیشنل ایسوسی ایشن آف بلائنڈ (این اے بی) کے چیئرمین تھے اور یہ خصوصی ٹرین فنڈ جمع کرنے کی غرض سے چلائی گئی تھی۔ممبئی کی حد پار کرنے کے بعد دلیپ کمار پریس کے لیے مخصوص ڈبے میں آئے اور سب سے مصافحہ کیا۔میں انہیں دیکھ کر دم بخود رہ گیا،کیونکہ سفید قمیص اور پتلون میں جو سرخ مائل انسان میرے سامنے کھڑا تھا، وہ تو پردے سمیں پر نظر آتا ہے۔
دلیپ کمار اپنی خود نوشت میں فلموں سے ہٹ کر اپنے سیاسی،تعلیمی،فلاحی اور ثقافتی سرگرمیوں کا ذکر کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ "ایسے کاموں سے ایک عجیب سا روحانی سکون ملتا ہے۔اور احساس ہوتا ہے کہ ہاں ہم نے زندگی میں کچھ کیاہے۔"
امتیاز پاکستان ملنے پر پیدا ہوئے تنازع کے بعد جب دلیپ صاحب آنجہانی وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی سے ملاقات کے لیے پہنچے تو انہوں اس بات کا اظہار کیاکہ"آپ ایک فن کار ہیں اور فن کار کے لیے کسی بھی طرح کی سیاسی یا جغرافیائی پابندی نہیں ہونا چاہیئے،آپ نے ہمیشہ انسانی حقوق اور انسانیت کی بقا کے لیے کام کیا ہے۔مجھے امید ہے کہ آپ جیسے فن کاروں کی وجہ سے دونوں ملکوں کے باہمی رشتہ استوار ہوں گے۔"
دلیپ صاحب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اکثر یہ اشعار گنگناتے رہے۔اور یہی حقیقت ہے۔
سکون دِل کے لیے کچھ تو اہتمام کروں 
ذرا نظر جو ملے پھر انھیں سلام کروں
مجھے توہوش نہیں آپ مشورہ دیجیے
کہاں سے چھیڑوں فسانہ کہاں تمام کروں۔
۔