Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, December 24, 2020

ہندوستان ‏مسلمانوں ‏کے ‏لٸے ‏غیر ‏محفوظ ‏بنتا ‏جارہا ‏ہے ‏۔۔۔۔



تحریر / سرفرازاحمدقاسمی،حیدرآباد
برائے رابطہ: 8099695186
                 صداٸے وقت 
==============================
           تقریباً ایک ماہ سے ملک بھرمیں کسانوں کی تحریک جاری ہے،لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ حکومت کسانوں کی بات سننے اور انکے مطالبات ماننے کے بجائے گمراہ کن بیان بازی میں مصروف ہے،ڈسمبر کی شدید ترین سردی اور سردموسم میں دہلی کی مختلف شاہراہوں پر پورے ملک کے کسان بسیرا کیے ہوئے ہیں،جن میں مرد،عورت بچے بوڑھے نوجوان سب شامل ہیں، لیکن حکومت کو کوئی فرق نہیں پڑتا، انکو تو صرف اپنا ایجنڈا عزیز ہے،اور ہرحال میں اسےنافذ کرنا ہے چاہے اسکےلئے انھیں جوبھی کرنا پڑے،ورنہ ایسی کیا مجبوری ہے کہ ایک ہزار کروڑ کے صرفے سے پارلیمنٹ ہاؤس کی تعمیر کی جارہی ہے،ایک ایسے وقت جبکہ ملک کی معیشت انتہائی نچلی سطح پر ہے،کروڑوں لوگ بے روزگار ہوچکے ہیں،سرکاری اداروں کو بڑی تیزی سے فروخت کیاجارہاہے پھرایسے میں نئے پارلیمنٹ ہاؤس کی کیا ضرورت ہے؟آخرکس انجینئر نےیہ کہہ دیا کہ پپارلیمنٹ کی موجودہ عمارت مخدوش  ہوچکی ہے اوراس عمارت میں اب مزیدکام نہیں ہوسکتاپھرپارلیمنٹ ہاؤس کےتعمیرکےلئے اتنی جلد بازی کیوں ؟   کیا سارے مسائل سے منھ موڑ کر پارلیمنٹ کی تعمیر ہی بنیادی ضرورت بن چکی ہے؟ آخرایسا کیوں ہورہاہے،حکومت میں بیٹھے لوگوں کو ملک کے عوام کی پریشانیاں اور مشکلات کوحل کرنے کےلئے کوئی ادنی دلچسپی کیوں نہیں ہے؟ پورے ملک میں کسانوں کا احتجاج جاری ہے،اور اس  تحریک کے نتیجے میں ملک کو ناقابل تلافی نقصان ہورہاہے،اخباری رپورٹ کے مطابق ایک تجارتی تنظیم ایسوسی ایشن آف آل انڈیا مرچنٹس کنفیڈریشن نے دعویٰ کیا ہے کہ"دہلی کی سرحدوں پر بیٹھے ہوئے کسانوں کے احتجاج کے سبب دہلی، ہریانہ،راجستھان اور اتر پردیش کے علاقوں میں تقریباً 14 ہزار کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے،تنظیم نے یہ جائزہ رپورٹ جاری کرتےہوئے کہاہے کہ کسانوں کے احتجاج کی وجہ سے 20 فیصد ٹرک ملک کی دوسری ریاستوں سے دہلی نہیں آرہےہیں،دہلی سے دوسری ریاستوں کو بھیجے جانے والے سامان پر بھی بری طرح سے اثر پڑاہے،تاہم فی الحال دہلی میں اشیائے ضروریہ کے بشمول دیگر کسی بھی چیزوں کی کوئی قلت نہیں ہے،فیڈریشن نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ دہلی میں اصل سپلائی قریبی ریاستوں سے ہوتی ہے،اسکے علاوہ دیگر ریاستوں سے بھی سامان دہلی آتاہے،کسانوں کے احتجاجی مظاہروں کی وجہ سے تقریباً 14ہزار کروڑ روپیوں کے کاروبار کانقصان ہوچکاہے،اعداد وشمار کے مطابق دہلی میں روزانہ تقریباً 50ہزار  ٹرک ملک بھرکی مختلف ریاستوں سے سامان لاتے ہیں،
اور 30ہزار کے قریب ٹرک دہلی سے باہر دوسری ریاستوں میں جاتے ہیں،سامان کی نقل وحرکت عام طور پر دہلی جے پور،دہلی متھرا،آگرہ ایکسپریس وے،دہلی غازی آباد،اور دہلی چندی گڑھ روٹ وغیرہ کے ذریعے ہوتی ہے،ان سڑکوں پر نقل وحرکت کی وجہ سے آج کل ٹریفک نظام درہم برہم ہے،اور انھیں سڑکوں پر کسانوں کااحتجاج چل رہاہے"یہ رپورٹ یواین آئی کی ہے،سوال یہ ہے کہ جب یہ سب ہورہاہے تو حکومت کیاکررہی ہے؟ اسکے حل کےلئے حکومت نے اب تک کیاراستہ نکالا؟ شاید ملک کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہورہاہے کہ اب یہاں ہرسال احتجاجی تحریک شروع ہورہی ہے،آپ کو یاد ہوگا کہ گذشتہ سال اسی ماہ میں"تحریک شاہین باغ"دہلی سے شروع ہواتھا،جو قومی سطح کی مثالی تحریک بن گئی تھی، حکومت نے اس پرامن اور مثالی تحریک کو طاقت کے بل بوتے پراوراقتدار کے نشے میں کچل دیاتھا،اس احتجاج میں شامل سینکڑوں نوجوان اورخواتین اب بھی جیلوں میں قید ہیں جس میں زیادہ ترمسلمان ہیں،اس احتجاج کو درہم برہم کرنے کےلئے دہلی میں حیوانیت کاننگا ناچ ہوا،کئی سو لوگوں کی جانیں گئیں،لوگوں کو اپنے گھروں اور کاروبار سے ہاتھ دھونا پڑا،اس میں بھی اکثر مسلمانوں کانقصان ہوا،اور دہلی کو ایک دوسرا گجرات بنایا گیا،اتنا سب ہونے کےبعد بھی مسلمانوں کوہی نشانہ بنایاگیا، اور مجرم مسلمان ہی ٹھہرے آخر ایساکیوں؟ دہلی فساد میں مسلمانوں کاسب کچھ لٹ گیا لیکن اسکے باوجود مجرم مسلمان ہی، پورے ملک میں مسلمانوں کونشانہ بنایاجارہاہے،ماب لنچنگ کی جارہی ہے،مسجد چھین کر مندر بنایاجارہاہے،مسلم پرسنل لاء پر حملہ اور دخل اندازی کرکے طلاق بل جیسا جبریہ قانون مسلط کیاجارہا ہے، کشمیر میں 370 برخاست کرکے وہاں کے امن وامان کوتباہ وبرباد کردیاگیا،لیکن ان سب کے باوجود حکمراں طبقے کا دعویٰ ہے کہ ملک میں سب ٹھیک ہے،ان حالات کو دیکھتے ہوئے گذشتہ ماہ یعنی نومبر میں امریکہ کے واشنگٹن میں  عالمی ماہرین نے ایک مباحثہ میں حصہ لیتے ہوئے تشویش کا اظہار کیاتھا،اور یہ کہاتھا کہ"بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی کا خدشہ بڑھتاجارہاہے، دہلی حکومت کی نگرانی میں ہندوستان میں حقیقتاً مسلمانوں کی نسل کشی جاری ہے،اور یہاں مسلمان  مستقل خوف ودہشت اور عدم تحفظ کاشکار ہیں،واشنگٹن میں نسل کشی اور ہندوستان کے مسلمانوں کے دس مراحل کےموضوع پر مباحثہ منعقد ہواتھا،تمام شرکاء نے اس مباحثہ میں متفقہ طور پر یہ احساس ظاہر کیاتھاکہ مسلمانوں پر ظلم، قتل عام سے پہلے کامرحلہ ہے اور ہندوستان میں انسانیت کے خلاف منظم جرائم کا سلسلہ جاری ہے،شرکاء نے یہ بھی کہاتھا کہ بابری مسجدکو شہید کرنا،اور اسکی جگہ مندر تعمیر کرنا اسی سلسلے کی کڑی ہے،دہلی فسادات میں پولس نے سینکڑوں افراد کو حراست میں لیا اور حراست میں لئےگئے تمام افراد پر اپنے خلاف تشدد کا الزام لگایا گیا،اس پروگرام میں ماہرین نے یہ بھی کہا کہ مسلمانوں پر مظالم کی وجہ سے انکی معاشی صورتحال بدسے بدتر ہورہی ہے،جو انتہائی سنگین ہے،کشمیر میں مسلمان مستقل خوف ودہشت اور عدم تحفظ کاشکار ہیں،مسلمانوں پرظلم سے سماجی اور اقتصادی حالت خراب ہورہی ہے،مسلمانوں پر گائے کاگوشت فروخت کرنے کا جھوٹا الزام لگاکر ہجوم کےذریعے تشدد کیاجاتاہے،شرکاء نے یہ بھی کہاکہ بھارت جوسب سے بڑی جمہوریت کا دعویدار ہے اپنی کروڑوں کی آبادی کو دبارہاہے، اور وہ مسلسل مسلمانوں کے دستوری اور انسانی حقوق سے انکار کررہاہے، اس مباحثہ کا اہتمام،انڈین امریکن مسلم کونسل کے زیراہتمام کیاگیاتھا،
اس رپورٹ نے بھارت کی سنگھی حکومت کا چہرہ صاف کردیاہے اور یہ طے ہے کہ آنے والے دنوں میں بھارت کے مسلمانوں کو مزیدمشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا،سوال یہ بھی ہے کہ ہم مسلمان ان چیلنجوں سے نمٹنے کےلئے کیا کررہےہیں ہیں؟یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ 2014 کے بعد جب سے موجودہ حکومت اقتدار میں آئی ہے مسلمانوں کے لئے اس سرزمین کو مسلسل تنگ کی جارہی ہے جوبے حدافسوسناک ہے،اگر اسطرح کی واردات پر قابو نہ پایا گیا تو پھرملک کا اللہ ہی محافظ ہے،
ابھی دوتین دن قبل بین الاقوامی رپورٹ لندن سے جاری ہوئی ہے جسکو ملک کے مخلتف اخباروں نے اپنی پہلی خبر بنائی تھی،آئیے ذرا دیکھتے ہیں  یہ رپورٹ بھارت اور یہاں کے مسلمانوں کے تعلق سے کیاکہتی ہے؟ ساؤتھ ایشیا اسٹیٹ آف مائنارٹی ایک بین الاقوامی تنظیم ہے، اس تنظیم نے اپنی 2020 کی رپورٹ جاری کی ہے جس میں شہریت سے متعلق قوانین کا حوالہ دیکر کہاگیا ہے کہ"ہندوستان، مسلمانوں کےلئے ایک انتہائی خطرناک ملک ہے،رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ شہری قوانین میں ترمیم کے ساتھ ہی ہندوستان مسلم اقلیتوں کےلئے ایک خطرناک اور پرتشدد مقام بن چکاہے،تنظیم نے اپنی رپورٹ میں  افغانستان،بھوٹان بنگلہ دیش،نیپال پاکستان اورسری لنکا کے شہریوں کی اظہارِ رائے اورانفرادی آزادی کاجائزہ لینے والی رپورٹ تیار کی  ہے،جس میں کہاگیاہے کہ پوری دنیامیں انسانی حقوق کو خطرہ لاحق ہے،لیکن ہندوستان مسلمانوں کےلئے خطرناک اور پرتشدد مقام بن چکاہے،رپورٹ میں یہ بھی کہاگیا ہے کہ 2014 میں جب سے بی جےپی اقتدار پرقابض ہوئی ہے،مذہبی اقلیتوں پرحملے ہورہے ہیں اور ہندوستان میں مسلمانوں اور مسلم تنظیموں کے حقوق اوراظہار رائے پر برا اثر پڑاہے،مئی 2019 میں بی جے پی زبردست اکثریت کے ساتھ اقتدار میں واپس لوٹی تو صورتحال مزید ابتر ہوگئی،فارین کنٹریبیوشن(ریگولیشن)ایکٹ  جوہندوستانی اداروں کےلئے بیرونی عطیہ پر نظر رکھتاہے اس میں بھی تبدیلی لائی گئی ہے،رپورٹ میں یہ بھی کہاگیا ہے کہ ہندوستان میں مسلم اداکاروں،حقوقِ انسانی کے وکلاء،جہدکاروں،مظاہرین،ماہرین تعلیم، صحافیوں،دانشوروں اور انکے علاوہ جولوگ بھی حکومت کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں،ان پر تیزی سے حملے کئے گئے ہیں،انسانی حقوق کے کارکنان،پابندی،تشدد،ہتک عزت کے معاملوں اور استحصال کا سامنا کررہےہیں،رپورٹ میں گذشتہ سال جموں کشمیر میں اسوقت کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کابھی تذکرہ کیاگیاہے،جب مرکزی حکومت نے آئین کی دفعہ 370 کے تحت ریاست کو حاصل خصوصی درجہ کو منسوخ کردیاتھا،رپورٹ میں سخت تبصرہ کرتے ہوئے یہ بھی کہاگیاہے کہ کشمیر کا معاملہ ظاہر کرتاہے کہ باضابطہ جمہوری ڈھانچے کے اندر شہریوں کے حقوق کو کس طرح پامال کیاجاسکتا ہے"
یہ ہے امینسٹی انٹرنیشنل رپورٹ اور سوچئے آخر ہمارا ملک بھارت کس رخ پر جارہا ہے،ملک میں کیا ہورہا ہے اور آگے کیا ہونے والا ہے؟کیا آپ کو لگتا نہیں ہے کہ اب اپنے ملک میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی کی جارہی ہے،دستوری حقوق کومسلسل پامال کیاجارہا ہے،ایسے میں یہ سوال تو ہوگانا کہ کیااب بھی یہاں جمہوریت باقی ہے یا کسی خاص ایجنڈے پر ملک کو لےجایاجارہاہے؟ایسے میں ملک کے کروڑوں لوگوں کی ذمہ داریاں کیاہونی چاہئے کیا اس پر ہمیں غوروفکر کی ضرورت نہیں ہے؟ اس بات سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ ملک کے جوحالات دن بہ دن ہورہے ہیں یہ ایک نئے انقلاب کا متقاضی ہے،اور یہ انقلاب  گھرمیں بیٹھکر نہیں آتا،انقلاب بڑی قربانیاں اور جدوجہد کاطالب ہوتاہے بغیر ان چیزوں کے کسی انقلاب کا تصور نہیں کیا جاسکتا،ملک کے حالات تشویش ناک ہوتے جارہے ہیں لیکن یہ تشویش کہاں ختم ہوگی یہ طوفان کہاں رکے گا؟ اس بارے میں کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا اگرہم انقلاب چاہتےہیں تو پھر ہمیں ملک میں انقلاب لانے کےلئے تیاررہنا ہوگا اور اسکےلئے تیاری کرنی ہوگی،اور پھر یہ عہد کرنا ہوگاکہ 
زمیں پہ بہتے لہو کاحساب چاہتاہوں 
میں اب گلاب نہیں انقلاب چاہتاہوں 

(مضمون نگار کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہیں)
sarfarazahmedqasmi@gmail.com
------------------------------------------------------
نوٹ۔۔مضمون نگار کی آرا سے ادارہ صداٸے وقت کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔