Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, December 18, 2020

بنگال۔۔ترنمول کانگریس و بی جے پی کی جنگ میں ” م“ فیکٹر ۔۔

مغربی بنگال میں بی جے پی اور ٹی ایم سی میں گھمسان شروع ہے۔۔ایسے میں ممتا بنرجی کے لٸے ” م“ فیکٹر یعنی مسلم ووٹ یا مجلس الاتحاد المسلمین  کا رول اہم ہے۔ممتا کو چاہٸے کہ اب زمینی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوٸے مجلس سے انتخابی اتحاد کر لیں۔

از/ڈاکٹر شرف الدین اعظمی / صداٸے وقت /١٨ دسمبر ٢٠٢٠
==============================
مغربی بنگال میں آٸندہ سال اسمبلی الیکشن ہے ۔اس بار بی جے پی بنگال میں ممتا بنرجی کے تختہ اقتدار کو پلٹنا چاہتی ہے ۔اس کے لٸے وہ گزشتہ پارلیمانی الیکشن سے ہی بنگال میں اپنی بنیاد  مضبوط بنانے میں پوری طاقت لگا رہی ہے۔بی جے پی کی مرکزی حکومت سے اکثر وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کا  ٹکراٶ بھی ہوتا رہتا ہے۔حالیہ دنوں میں بی جے پی قومی صدر نڈھا پر ان کے بنگال دورے کے درمیان حملہ ہوا ۔اس حملہ سے بی جے پی تلملا اٹھی اور بنگال کے دو ذمہ دار آٸی پی ایس افسر کو دہلی بلایا گیا ۔ریاستی حکومت نے دونوں افسران کو دہلی نہیں بھیجا نتیجتاً مرکزی حکومت نے اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال کرتے ہوٸے دونوں افسران کا تبادلہ کردیا۔ 
اس حملہ کے فوراً بعد وزیر داخلہ امت شاہ نے بنگال کے دورہ کا اعلان کیا اور ان کا یہ دورہ شروع ہوچکا ہے۔۔۔اسی درمیان خبر یہ ہے کہ ٹی ایم سی کے کٸی لیڈران اپنا استعفیٰ دے رہے ہیں ۔دوروز قبل  شیوندھو ادھیکاری  اپنی اسمبلی سیٹ سے استعفیٰ دے چکے ہیں۔۔جن کا بنگال کی سیاست میں بڑا عمل دخل ہے۔۔آج تقریباً 5 ایم ایل اے ابھی تک استعفیٰ دے چکے ہیں جس میں پارٹی کے جنرل سکریٹری قریب الاسلام بھی شامل ہیں۔جس تیزی سے ترنمول کانگریس کے لیڈر پارٹی چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں اس سے تو یہی اندازہ لگتا ہے کہ اب ممتا بنرجی کا قلعہ مسمار ہونیوالا ہے۔
ایسے حالات میں ممتا بنرجی کو اپنی سیاسی چال کو بدلنا ہوگا۔۔بنگال میں 30 فیصد مسلم ووٹر ہیں جو ممتا بنرجی کے روایتی ووٹ مانے جاتے ہیں ۔ممتا بنرجی کا اقتدار مسلمانوں کے ووٹ کا مرہون منت ہے۔لیکن اب اسد الدین اویسی کی پارٹی ” مجلس اتحاد المسلمین “ کے بنگال کی سیاست میں انٹری سے مسلم ووٹوں میں سیندھ لگ سکتی ہے اور مسلم ووٹ تقسیم ہوسکتے ہیں۔ممتا بنرجی کو دو طرف سے نقصان ہو رہا ہے ۔ایک تو ان کی اپنی پارٹی کی بغاوت ، دوسرے مسلم ووٹوں کی تقسیم ۔۔۔ایسے میں ممتا بنرجی کو اپنی سیاسی بساط میں تبدیلی لانی ہوگی۔
مجلس اتحادالمسلمین کی بہار میں کارکردگی اچھی رہی ، آہستہ آہستہ اویسی ایک قومی لیڈر کے طور پر اپنی شناخت کو قاٸم کرنے میں کامیاب نظر آرہے ہیں۔۔ہندوستان کا مسلمان اب ان کو اپنا قومی قاٸد ماننے کا ذہن بنا رہا ہے۔
بنگال کی بی جے پی اور ٹی ایم سی کی جنگ میں اب ” م “ فیکٹر کافی اہم ثابت ہورہا ہے۔۔مسلمان اور مجلس  ہی اب  ممتا بنرجی کو بچا سکتے ہیں۔ممتا بنرجی کے اقتدار کو بچانے کا اب واحد راستہ ہے فیکٹر ” م “ کو اپنا لیں یعنی اب  مجلس سے انتخابی سمجھوتہ کرلیں۔۔اویسی پر الزام تراشی سے ان کا ہی نقصان ہوگا ۔الزام تراشی کے بجاٸے اب اویسی کو اہمیت دیں۔۔ابھی تک مسلمانوں کے ووٹ پر بہت دنوں تک حکومت کر لی ہیں ۔اب حالات یہ ہے کہ بہار ، بنگال و اتر پردیش جیسی ریاستوں میں کوٸی غیر بی جے پی پارٹی اویسی کی پارٹی مجلس کو نظر انداز نہیں کرسکتی اور جس نے بھی نظر انداز کیا اس کو نقصان اٹھانا پڑے گا۔بہار کی مثال سامنے ہے۔
بنگال کا مسلمان ووٹ ممتا کی جاگیر نہیں ہے ۔مجلس کی انٹری اور ٹی ایم سی کی اندرونی بغاوت ممتا کے لٸے خطرناک ہے۔۔ممتا کو اب اپنی سیاسی سوجھ بوجھ کا ثبوت دیتے ہوٸٕے مجلس سے انتخابی سمجھوتہ کر لینا چاہیے۔۔تب شاید ممتا اپنا اقتدار بچانے اور بی جے پی کو بنگال سے دور رکھنے میں کامیاب ہوسکیں۔