Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, January 4, 2021

مولانا محمد علی جوہر کی یاد میں: ایک نئی کتاب نئی بازیافت۔ پروفیسر اخترالواسع

آج مولانا محمدعلی جوہر کے انتقال کو 90 برس پورے ہوگئے۔ اس موقع پر معروف دانش ور پروفیسر اخترالواسع نے ایک خصوصی مضمون قلم بند کیا ہے ۔ اس مضمون کی اہمیت کے پیش نظر یہاں نقل کیا جارہا ہے۔
                صداٸے وقت ۔
==============================
 4/جنوری 1931کو لندن میں رئیس الاحرار مولانا محمد علی جوہر کا انتقال ہوا اور وہاں سے فلسطین کے مفتیئ اعظم امین الحسینی کی فرمائش پر ان کے جسدِ خاکی کو یروشلم لے جایا گیا اور وہاں بیت المقدس کے جوار میں ان کو دفن کیا گیا اور اس طرح آج ان کے انتقال کو 90 سال ہو چکے ہیں۔ محمد علی جوہر رامپور میں پیدا ہوئے، علی گڑھ اور آکسفورڈ میں پڑھے، رامپور اور بڑودہ میں ملازم رہے، انگریزی سامراجیت کے لیے تیغ بے نیام اور ملک و ملت کے لیے سراپا دردمند تھے۔ 1911 سے 1930 تک کی سیاست جس شخص سے غالباً سب سے زیادہ عبارت ہے وہ مولانا محمد علی ہی تھے۔ بدنصیبی سے آزاد ہندوستان میں سب سے زیادہ مظلوم شخصیت ان ہی کی رہی کیوں کہ ہم ان کی یاد کو بھی اس طرح باقی نہ رکھ سکے جس کے وہ کم سے کم مستحق تھے۔ 
 مولانا محمد علی کی عزیمت، ان کے فکر کی نمایاں خصوصیت، اندازِ کار، زندگی کی بے ترتیبی، ذوق کی بلندی، مزاج کی سیمابیت، شخصیت کی ولنوازی اور قہر سامانی وغیرہ سے ہر وہ شخص بخوبی واقف ہے جس نے محمد علی کی سیرت کا مطالعہ کیا ہے۔ وہ ایک عبقری تھے اس لیے حدود کا تعین کبھی نہ کر سکے لیکن ان کی ایمانداری، نیکی اور صداقت ہر شبہ سے ہمیشہ بالا تر رہی۔ محمد علی جوہر صحافت کے راستے سے سیاست کی وادیِ پر خار میں داخل ہوئے۔ ہمدرد اردو اور کامریڈ انگریزی میں ان کی زود نویسی اور طوالت مضمون کے باوجود وہ دلکشی اور حلاوت ان کی تحریر میں تھی کہ وائسرائے سے لے کر قوم پرور رہنما تک سب ان کی اشاعت کے منتظر رہتے۔ ہندوستانی سیاست کو محمد علی کا سب سے بڑا عطیہ تحریکِ خلافت تھی جس نے ہماری جدوجہد آزادی کو نیا آہنگ، نیا جذبہ دیا اور نئی جہت سے روشناس کرایا۔یہی تحریک خلافت تھی جس کے بطن سے تحریک عدم تعاون نے جنم لیا۔ جس نے 1857کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد پہلی مرتبہ منظم طور پر غیرملکی حکمرانوں کے سامنے ایک چیلینج پیش کیا۔ اسی تحریک کے ذریعے عام ہندوستانیوں نے اتحاد، اتفاق اور آزادی سے محبت اور اس کے حصول کے لیے ہر ممکن قربانی کا مظاہرہ کیا اور اس کے بعد سے تحریک آزادی بدستور قوی تر اور انگریز حکمران بہ باطن کمزور تر ہوتے چلے گیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہندوستانی سیاست میں مولانا محمد علی کا دوسرا سب سے بڑا کارنامہ دو تاریخ ساز شخصیتوں سے ان کے احترام، محبت اور دوستی کی بنیادوں پر تعلقات تھے یعنی مہاتما گاندھی اور پنڈت جواہر لال نہرو۔ ہر وہ شخص جو تاریخ کا معروضی نقطہ نظر سے مطالعہ کرے گا تو اس بات کی تائید کرتاہوا پائے گا کہ شری موہن داس کرم چند گاندھی کو مہاتما بنانے والے محمد علی اور ان کے مرشد مولانا عبدالباری فرنگی محلی تھے۔ نیز تحریک خلافت ہی وہ تحریک تھی جس نے ہندوستان کی جنگ آزادی میں ممتاز ترین شخصیت کا حامل بنا دیا تھا۔ اسی طرح پنڈت جواہر لال نہرو کے جوہر پوشیدہ کی پرکھ اور اس کا تعارف بھی مولانا محمد علی کا ہندوستانی سیاست کو سب سے بڑا فیضان تھا۔ وہ مولانا محمد علی ہی تھے جنہوں نے 1923میں اپنی صدارت کانگریس کے زمانے میں جوان العمر پنڈت نہرو کو ملک کی سب سے بڑی اور نمائندہ جماعت انڈین نیشنل کانگریس کا جنرل سیکریٹری نامزد کیا۔ مولانا محمد علی جوہر پر یوں تو کئی کتابیں لکھی گئیں جن میں رئیس احمد جعفری، مولاناعبدالماجد دریاآبادی اور پروفیسر مشیرالحسن نے بڑے اہم کام کیے ہیں لیکن ایک اہم کام جو ابھی تک پردہئ خفا میں تھا وہ مولانا کے بچپن کے پرستار اور بعد ازاں جامعہ ملیہ اسلامیہ سے 1929میں اپنی وابستگی کے زمانے سے مولانا محمد علی جوہر کو قریب سے دیکھنے والے، ان کا ساتھ دینے والے، ان کے کردار، مزاج، اطوار، انداز اور طریقہ کار کو دیکھنے والے مولانا عبدالملک جامعیئ نے اپنی کتاب ”مولانا محمد علی جوہر: آنکھوں دیکھی باتیں“میں جو کچھ لکھا، ان کے متعلقین کے حوالے سے قلم بند کیا، مولانا کی میراث، نوادرات اور ان کی قائم کردہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بارے میں لکھا وہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے اور محمد علی جوہر کے بارے میں ایک دستاویزی حیثیت کامالک ہے۔ مولانا عبدالملک جامعی جو 12اکتوبر 1912کو پیدا مرادآباد میں ہوئے اپنی عمر کے ابتدائی سال بجنور میں گزارے اور بعد ازاں مدینۃ العلم جامعہ ملیہ اسلامیہ ہوتے ہوئے سچ مچ مدینۃ النبیﷺ میں مقیم آستانہ ہوگیے۔ مدینہ منورہ کے قیام میں بھی عبدالملک جامعی صاحب نہ تو جامعہ کو بھولے اور نہ محمد علی جوہر کو۔ دونوں سے ان کے عشق کا اندازہ اس کتاب کے ہر صفحے سے ہو جاتا ہے جو 1991میں ان کے انتقال کے بعد کسی طرح ان کے بھانجے اور مشہور زمانہ صحافی اور قلم کار معصوم مرادآبادی نے مدینۃ النبیؐ میں حاضری کے وقت اپنی تحویل میں لے لی تھی اور اس امانت کو خود کمپوزنگ کی زحمتیں اٹھا کر اور نئی ترتیب و تہذیب کے ساتھ اسے ہمارے لیے یکجا کرکے شائع کر دیا ہے۔ اس کتاب کی اشاعت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب مولانا محمد علی جوہر کی اپنے رفقاء کے ساتھ قائم کردہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سو سال پورے ہو رہے ہیں اور مولانا محمد علی جوہر کے انتقال کو 90سال ہو رہے ہیں۔ ہم سب کو معصوم مرادآبادی کا شکرگزار ہونا چاہیے کہ انہوں نے وہ کام کیا کہ اگر وہ اس کتاب کی تالیف کے ساتھ اشاعت نہ کرتے تو ہم مولانا محمد علی جوہر، ان کے خاندان والوں بالخصوص ان کی والدہ بی امّاں اور بیگم محمد علی کے حوالے سے بہت سے حقائق سے ناواقف رہتے۔ اس کتاب میں مولانا محمد علی جوہر اور جامعہ کے حوالے سے جن شخصیات کا اور ان کی ترجیحات کا جس طرح تذکرہ آیا ہے وہ ہمارے لیے چشم کشا بھی ہے اور یہ بھی بتاتا ہے کہ ہم عصریت کس طرح حجاب بھی ہوتی ہے اور عذاب بھی۔
مولانا محمد علی جوہر کی تمام خوبیاں ایک طرف لیکن وہ اپنے نزدیک حق کے معاملے میں کسی سمجھوتے کے عادی نہیں تھے۔ اس لیے بقول بابائے اردو مولوی عبدالحق ”ان سے ان کے دوست بھی اس طرح ڈرتے تھے جیسے آتش پرست آگ سے ڈرتا ہے۔“ ان کے انتقال کے 90سال پورے ہونے پر یہ ضروری ہے کہ ایک زبردست خطیب، انگریزی اور اردو پر یکساں قدرت رکھنے والے بے مثال مدیر، انڈین نیشنل کانگریس کے صدر، تحریک خلافت کے بنیاد گزار، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بانیوں میں سے ایک، ہندوستان کی آزادی کے لیے اپنی جان قربان کرنے والے رئیس الاحرار مولانا محمد علی جوہر کی ایک دفعہ پھر بازیافت کی جائے۔ ہمیں خوشی ہے کہ قلم کے شہ سوار ہماری عصری تاریخ کو ترجمے، ترتیب اور تحریر تینوں کے ذریعہ نئی معرفت اور آگہی برتنے والے معصوم مرادآبادی نے محمد عبدالملک جامعی کی اس کتاب کی ترتیب و تالیف اور اشاعت کے ذریعے یہ کام کر ڈالا۔ مولانا محمد علی جوہر اپنے تمام ایثار و توکل، استغنا، جرأت، حق گوئی اور حق پرستی کے باوجود تقریباً بھلا دیے گیے۔ افسوس یہ ہے کہ ان کی قوم نے ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جو قوم بنی اسرائیل نے اپنے انبیاء کے ساتھ روا رکھا تھا اور شاید اسی لیے اللہ جل شانہ نے بھی ان کی آخری آرام گاہ کے طور پر اسی سرزمین یعنی یروشلم کا انتخاب کیا جو کبھی انبیائے بنی اسرائیل کی آماجگاہ تھی۔ 
 مولانا کو اپنی ناقدری کا پوری طرح احساس تھا اور انہوں نے اس کا شکوہ بھی ان لفظوں میں کیا:”افسوس! مسلمانوں نے میری قدر نہ کی۔ ہندوستان کے مسلمان زندہ پرست نہیں مردہ پرست ہیں۔ جب میں مر جاؤں گا تب یاد کریں گے مگر میں بھی ان سے تنگ آ گیا ہوں کہ ہندوستان میں مرنے ہی کا نہیں۔“محمد علی کی لاج ان کی قوم نے رکھی یا نہ رکھی مگر ان کے رب نے ضرور رکھی اور اس شان سے رکھی کہ پروفیسر رشید احمد صدیقی کے بقول’محمد علی کی موت اور زندگی دونوں کو ایک برگزیدہ حقیقت بنا دیا عرفا وارجمند۔‘ اور محمد علی اپنی زندگی میں ہی اس کی بشارت دے گیے تھے جس پر ان کی موت نے مہر تصدیق ثبت کر دی ؎
راہرو تھا راہِ عشق کا منزل کو پا لیا
اب اور کیا نشاں میری لوح مزار دے
ہے رشک ایک خلق کو جوہر کی موت پر 
یہ اس کی موت ہے جسے پروردگار دے

(مضمون نگار مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے صدر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس ہیں)