Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, January 4, 2021

سرخ ‏گوشت ‏کی ‏تجارت ‏سے ‏لفظ ‏” ‏حلال“ ‏ختم۔


حکومتِ ہند کا فسطائی ہندوتوا کی سمت ایک اور قدم
سمیع اللہ خان /صداٸے وقت /4 جنوری 2020.
==============================
آج  بھارت سرکار کی ترقیاتی مقتدرہ برائے برآمدات مصنوعاتِ زرعی و تیار خوراک  نے اپنے سرخ گوشت کی تجارت سے متعلق ہدایات / شرطوں سے لفظ " حلال " کو ختم کردیاہے _
 اس ضمن میں، لفظ حلال کو گورنمنٹ کی کاروباری دستاویز سے خارج کرانے کے لیے " ہریندر ایس سکّا " نامی سخت گیر ہندوتوا ہندو احیاء پرست تنظیموں کے ساتھ ملکر کئی مہینوں سے تحریکی طورپر مہم چلا رہے تھے، آج جب حکومت ہند نے لفظ " حلال " کو اپنی وزارتی ڈاکیومینٹ سے خارج کردیا اور متعلقہ وزارت کی دستاویز میں حلال کو ڈیلیٹ کرکے دکھایا گیا تو ہریندر نے اس کامیابی پر وزیراعظم نریندرمودی اور متعلقہ محکمے کے وزیر پیوش گوئل کا شکریہ ادا کیا _

 ہوتا یہ تھا کہ سرخ گوشت کی تجارت کے سلسلے میں حکومت کا متعلقہ شعبہ کاروباری دستاویز میں حلال کی قید لگا کر مسلم ممالک کے تاجروں کا اعتماد حاصل کرتے تھے اور یہ پہلے سے چلا آرہاہے کہ کاروبار میں دیگر مذاہب کی طرح مسلمانوں کے اہم پہلو " حلال " کو گنجائش حاصل ہوتی تھی اور یہ آئین ہند کی دفعہ مذہبی آزادی کے. حقوق کے تحت آتاہے، جیسے کہ اب تک اس تجارت کے دستورالعمل میں حکومت یہ لکھا کرتی تھی: 
" جانوروں کو حلال کے مراحل سے گزار کر ذبح کیا جاتا ہے "
ایسے ہی یہ بھی وضاحت ہوتی تھی کہ 
" اسلامی تنظیموں کی موجودگی جانوروں کو حلال طریقے پر ذبح کیا جاتاہے " اس کے علاوہ بعض کاروباری دستاویزات میں " حلال سرٹیفکیٹ " کا بھی ذکر ہوتا تھا 
 اب اس قسم کی باتوں کے برخلاف یہ لکھا ہوگا کہ: 
" جس ملک میں گوشت بھیجا جارہاہے اس کی ضرورتوں کے مطابق جانور کو ذبح کیا گیا ہے "
اس کے علاوہ کئی اشیاء کے کاروبار کے سلسلے میں جو ایک مرحلہ یا نوٹ " حلال " ہونے سے متعلق ہوتا تھا اب وہ نہیں رہےگا 
 تازه ترین دستاویزات کو ہم نے بھی دیکھا ہے، کئی جگہوں پر لفظ Halal کو Slaughter سے تبدیل کردیاگیا ہے_

 *سَنگھ وادی ہندو شخصیات کی طرف سے ان تبدیلیوں کی وجہ یہ بتائی جارہی ہیکہ ان کی وجہ سے تجارت میں مذہبی بھید بھاؤ ہوتا تھا ہندو بزنس مین اس میں ترقی نہیں کر پا رہے تھے،  یہ بھی الزامات رہے کہ حلال سرٹیفکیٹ کے نام پر ہندوﺅں کا استحصال ہوجاتا تھا نیز جابجا ریستوران اور دیگر جگہوں پر حلال کے سائن بورڈ اور مہریں مذہبی منافرت پر مبنی ہیں*
 گرچہ اس کارروائی کا اثر ابھی براہ راست غیرسرکاری حلال سرٹیفیکیٹ والے اداروں پر نہیں پڑے گا لیکن یہ متعصبانہ پیش رفت اگلے اقدامات کا پتا دیتی ہے، حلال پروسیس اور اس کے متعلقات کو مذہبی آزادی کے ضمن سے خارج کیا جاسکتا ہے_

 *حکومت ہند کے اس اقدام پر تبصرہ کرتے ہوئے مشہور ہندوتوا ایکٹوسٹ ارون پدور نے لکھا ہے: " مودی گورنمنٹ نے لفظ " حلال " کے حوالے کو APEDA وزارت کے تحت ختم کردیا ہے، اب یہ آپکی بحیثیت گاہک ذمہ داری ہیکہ اس کو لازم پکڑیں اور یقینی بنائیں کہ ہوٹل، ریستوران سمیت عوامی جگہوں پر خریدوفروخت کے دوران اس لوگو (حلال) کا استعمال نہیں کیا جائےگا، قدم بڑھائیے اور مذہبی تفریق کو روکیے "*

ترقیاتی مقتدرہ برائے برآمدات مصنوعاتِ زرعی و تیار خوراک، APEDA کا یہ قدم غير آئینی ہے، اس تبدیلی کے ليے ان کے پاس کوئی معقول اور جائز وجہ نہیں ہے بلکہ یہ " تعلیمیافتہ ہندؤوں " کی مذہبی منافرت اور بھڑاس کو سیراب کرنے کے لیے کیاگیاہے، لفظ حلال کی تبدیلی یہ مسلمانوں کے خلاف حکومت کے آئندہ رویے اور پالیسیوں کا واضح بیانیہ ہے، لیکن لفظ حلال سے تعصب ہندؤوں سمیت تمام غیرمسلموں کو عموماً ہے، خواہ وہ کمیونسٹ لبرل ہوں کہ سیکولر، وہ اسے اسلام کا Space سمجھتے ہیں، لہٰذا اس متعصبانہ کارروائی پر آپکو کہیں سے شاید ہی کچھ  سننے کو ملے، میڈیا اور سول سوسائٹی کی سیلیبریٹی دنیا پر بھی فرق نہیں پڑےگا، اور آپکی اپنی قومی و ملّی لیڈرشپ اس کا حال تو آپ جانتے ہی ہیں……… خیر، اگر وہ کہیں نظر آجائے تو انہیں خبر دے دیجیے گا _

✍🏻: *سمیــع اللّٰہ خان*
4 جنوری بروز پیر ۲۰۲۰
ksamikhann@gmail.com