Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, February 5, 2021

ہفتہ ‏ترغیب ‏تعلیم ‏و ‏تحفظ ‏اردو۔


تعلیم عورتوں کو دینی ضرور ہے
*مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہا ر، اڈیشہ وجھارکھند*
----------------------------------------------------------------------
اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کوپیداکیا، اورمرد وعورت کی تخلیق کی، توالد وتناسل کاسلسلہ جاری کیا اورہر دوصنف (مردو عورت) کو اوصاف حمیدہ اور اخلاق حسنہ کے حصول کے یکساں مواقع عطا فرمائے اور اپنے جود وکرم ،بخشش وعطامیںکوئی تفریق نہیںکی، اورانسانوں کووہ سکھایاجووہ نہیں جانتا تھا۔ ارشادربانی ہے:
وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ (القرآن)
اور تمہارا مکرم رب جس نے قلم کے ذریعے تعلیم دی اورانسان کووہ سکھایا جووہ نہیں جانتا تھا۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی علم حاصل کرنا ہر مسلمان کے لیے لازم قرار دیا، خواہ وہ عورت ہویامرد، ابودائود کی ایک روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، شفاء بنت عبداللہ کے پاس تشریف لائے اور ارشادفرمایاکہ:’’جس طرح تم نے حفصہؓ کولکھنے کی تعلیم دی اسے پہلو کے زخم کے جھاڑ پھونک کی تعلیم کیوںنہیں دیتی‘‘۔بخاری شریف کی ایک روایت میںباندیوں کے بارے میںآپ ؐنے ارشاد فرمایاکہ جس شخص کے پاس لونڈی ہواور اس نے اسے اچھی تعلیم وتربیت دے کرآزاد کردیاپھر اس سے نکاح کرلیا تواسے دہرا اجر ملے گا، مسند امام اعظم میںحضرت ام ہانیؓ سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہؓ کوخطاب کرتے ہوئے فرمایا: اے عائشہ تجھ! کو چاہئے کہ تیرا شعار علم اور قرآن ہو۔
ان روایتوں سے روز روشن کی طرح یہ بات عیاں ہے ،کہ اسلام نے علم کے حصول میں مردوعورت میںکوئی تفریق نہیں کی ہے، اورتفریق کی بھی نہیں جاسکتی کیونکہ علم کے بغیر شائستگی ، خانگی امور کی ادائیگی اوربچوں کی تربیت جیسے اہم مسائل میں عورتیں پیچھے رہ جائیں گی، جس سے زن وشو کے باہمی تعلقات بھی متأثر ہوں گے اورزندگی میںایک قسم کی کمی بھی بڑھتی چلی جائے گی۔
ایک روایت کا مفہوم ہے کہ علم مہد یعنی ماں کی گود سے لحد تک حاصل کرو۔ماںکی گود میںعلم حاصل کرنا اس وقت ممکن ہوگا جب مائیں پڑھی لکھی اورتربیت یافتہ ہوں، اسی لیے نیپولین نے کہا تھا کہ بہترین مائیں بہترین بچے پیداکرتی ہیں، حاتم کے تذکرہ میںلکھا ہے کہ ایک بارحاتم طائی کی سخاوت کا شہرہ سن کر اس کے باپ کو کسی قبیلہ والے نے دعوت دی، خوب خوشیاں منائی گئیں اوریہ درخواست کی گئی کہ ہم آپ کو اس لیے لائے ہیں تاکہ ہمارے قبیلہ میں بھی ایک حاتم جیسا لڑکا پیدا ہو،حاتم کے والد نے جواب دیا کہ یہ کام مجھ سے نہیں ہوگا اس لیے کہ تمہارے یہاں حاتم کی ماں جیسی لڑکیاں نہیں ہیں، اس واقعہ سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ماں کے عادات واطوار، اوصاف وخصائل کا کتنا اثر بچے پر ہوتاہے، ماں اگر پڑھی لکھی ہوگی تو وہ بچوں کی تعلیم وتربیت اسلامی خطوط اوردینی نہج پرکرسکے گی، ورنہ بچے کندہ ناتراش ہوکررہ جائیں گے۔
یہی وجہ ہے کہ عہدنبویؐ میں مردوں کے ساتھ عورتیں بھی تعلیم کے حصول میں کوشاں رہتی تھیں اور اس سلسلہ میں کسی قسم کی کمی کا انھیں احساس ہوتا تو دربار رسالت میں استفسار کرتیں اور تعلیم وتعلم کا کوئی موقع ضائع نہیں ہونے دیتیں۔بخاری شریف کی ایک حدیث جس کے راوی حضرت ابوسعید خدریؓ ہیں، نقل کرتے ہیں کہ ایک دفعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عورتوں کاایک وفد آیااور عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مردعلم حاصل کرنے میںہم سے آگے بڑھ گئے ؛اس لیے آپؐ ہمارے لیے کوئی دن مخصوص فرمادیں۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن کا وعدہ فرمایا، اس دن آپؐ عورتوں کو نصیحت فرماتے، احکام الٰہی کی تعلیم دیتے، پھر عورتیںموقع بہ موقع حاضر ہوکر استفسارات کرتیں اور اپنے اشکالات دورکیاکرتیں ،مؤرخین اورسیرت نگاروں نے بہت ساری صحابیات کا تذکرہ کیا ہے، جن کا علم وفضل مسلّم تھا، خودام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ بڑی عالمہ، فاضلہ اور فقہ وفتاویٰ میں مجتہدانہ درک رکھتی تھیں، ان کی مرویات کی تعداد دوہزار دوسو دس ہے، کثرت روایت میں پورے ذخیرہ حدیث میں آپ کا نمبر چوتھاہے، عمر رضا کحالہ نے اعلام النساء کی پانچ ضخیم جلدوں میں خواتین کے علمی مقام اور ان کی خدمات کا تذکرہ کیاہے۔ سلطا ن محمد تغلق ۱۳۲۴ھ؁ تا ۱۳۵۱ھ؁ کے عہد میں مقریزی کی روایت ہے کہ تعلیم اس قدر عام تھی کہ کنیزیں تک حافظ قرآن اور عالم ہوتی تھیں۔
اور دور کیوں جائیے ماضی قریب میں حضرت مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کی والدہ خیر النساء بہترؔ اوربہن امۃ اللہ تسنیمؔ کے علم وفضل کودیکھئے، شعروشاعری ،حدیث وقرآن کا اتنا اچھا علم، بہت سارے ان مردوں کوبھی نہیں ہے، جنھوں نے اسلامی جامعات میںتعلیم حاصل کی ہیں۔
اس طرح عورتوں کاتعلیم حاصل کرنااسلامی بھی ہے اوراسلاف کی روایات کے عین مطابق بھی، لیکن یہاں یہ سوا ل باقی رہ جاتا ہے کہ انھیں کیا پڑھایا جائے؟ اور کس طرح پڑھایا جائے ،کیا پڑھایاجائے کہ جوا ب میں راقم الحروف کا خیال ہے کہ انھیں دینیات ،تہذیب نفس اور تدبیر منزل کی تعلیم تولازماً دینی چاہئے، دینیات سے انھیں معاشرت ،معاملات اور عبادات میں اسلامی طریقہ کار کا پتہ چلے گا،تہذیب نفس کی تعلیم سے ان میںاخلاق حسنہ پیدا ہوں گے اور تدبیر منزل سے واقفیت انھیں خانگی امور کے بحسن وخوبی انجام دینے میں معاون ہوگی، اس طرح وہ گھر کی چہاردیواری میں رہ کر بھی اپنے خاندان کی نگہداشت بچوں کی تعلیم وتربیت اور صالح معاشرہ کی تشکیل میں اپنی حصہ داری ادا کرسکیں گی۔
ان کے علاوہ کچھ علوم تووہ ہیں جن کی ضرورت عورتوں کوپڑتی ہے مثلاً طب ومیڈیکل سائنس ایسے علوم کا حاصل کرنا عورتوں کے لیے لازمی تو نہیں لیکن مستحسن ہے اس لیے کہ عورتوں میں میڈیکل سائنس کی تعلیم ہونے سے عورتیں اپنے امراض کے لیے زیادہ ان سے رجوع ہوں گی اوریہ مردوں کے ذریعہ تشخیص کرانے سے ان کے حق میں زیادہ بہتر ہے۔
بعض علوم ایسے ہیں جوعورتوں کے لیے زوائد کے درجہ میںہیں، جیسے انجینئرنگ ، پولٹیکل سائنس وغیرہ ان علوم کی سماج کوضرورت ہے،لیکن عورتوں کے ان علوم کے نہ پڑھنے سے سماج میں کوئی پریشانی نہیں پیدا ہوتی بلکہ مرد کا ان علوم کا پڑھنا اور سماجی ضروریات کی تکمیل کرنا کافی ہے۔
کس طرح پڑھایاجائے ، کا جواب یہ ہے کہ ان کے مخصوص تعلیمی ادارے ہوں، جہاں مرد وعورت کے اختلاط کا کسی درجہ میں امکان نہ ہو، آمد ورفت میں پردہ کا معقول نظم ہواور اس پر سختی سے عمل کیا جائے۔
آج سارا بگاڑ مخلوط تعلیم اور بے پردہ آمد ورفت کی وجہ سے پیداہوگیاہے، عصری درسگاہوں میں پڑھنے والی لڑکیوں نے اپنا حجاب اتار پھینکا ہے، اور مغرب کی فیشن پرستی نے انھیں اتنا بے لگام کردیاہے کہ ہر چیز میںانھیں مردو ں کی نقالی کی عادت سی پڑ گئی ہے، وہ خاتون خانہ کے بجائے سبھا کی پری ہونے میں فخر محسوس کرتی ہیں، اکبرالٰہ آبادی نے اسی صوت حال کو سامنے رکھ کر کہا تھا:
تعلیم عورتوں کی ضروری تو ہے مگر
خاتون خانہ ہوں ، وہ سبھا کی پری نہ ہوں
آج جب کہ مدارس، اسکول اورجامعات کی بہتات ہے ، مسلمانوں کے ایسے کئی تعلیمی ادارے وجودمیں آگئے ہیں، جن میںلڑکیوںکی تعلیم کانظم اسلامی اصول کو سامنے رکھ کرکیاگیاہے،اب لڑکیاں عالمہ، فاضلہ بھی بن رہی ہیں ،اورعصری علوم میں دستر س بھی رکھ رہی ہیں۔
اس دور میں جبکہ ہر طرف لادینی ، مذہب بیزاری اورمادّیت کا غلبہ ہے، اورفضائوںمیں یہ افکار اس طرح رچ بس گئے ہیں کہ ہر وقت فضائی آلودگی کی طرح ان سے دل ودماغ کے متاثر ہونے کاخطرہ رہتاہے، تعلیم نسواں کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ لیکن اس سے کہیں زیادہ اہم ان کی عفت وپاکدامنی کی حفاظت ہے ،ایسے میں ہمیں تعلیم نسواں کے سارے نظام کو ازسر نو ترتیب دینا ہوگا جس سے لادینی اور اخلاقی انارکی پر بند باندھا جاسکے، ایک نئی حکمت عملی اپنانی ہوگی جس سے ان کے سماجی شعور میں بیداری پیدا ہو اور انھیں اسلامی خد وخال کے موافق تبدیلی قبول کرنے پر آمادہ کیاجاسکے۔ ان کے اندر خدا پرستی کاجذبہ پیدا ہو، اور مادّیت کے اس دور میں وہ خود بھی روحانی قدروں کواپنائیں اوریہ صفت اگلی نسلوں تک منتقل کرسکیں۔ اگر ہم تعلیم نسواں کے میدان میں اپنے جدوجہد سے ایسا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو سمجھئے کہ ہم نے آئندہ نسلوں تک دین کو اس کی اپنی اصلی شکل وصورت میں منتقل کرنے کاسامان کردیا۔ اورایک بڑی ذمہ داری سے ہم عہدہ برآ ہوسکے۔
تعلیم عورتوں کو دینی ضرور ہے
لڑکی جو بے پڑھی ہے وہ بے شعور ہے