Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, February 2, 2021

ہفتہ ‏ترغیب ‏تعلیم ‏و ‏تحفظ ‏اردو۔۔امارت ‏شرعیہ ‏کی ‏بنیادی ‏دینی ‏تعلیمی ‏تحریک۔۔

 .  .  .  .  .  .   .    .  تحریر .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  
*مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہا ر، اڈیشہ وجھارکھند*/ صدائے وقت۔
----------------------------------------------------------------------
اسلام میں تعلیم کاحصول مردو عورت کے لیے فرض قرار دیا گیاہے ، اس معاملہ میں جنس کے اعتبار سے ان کے درمیان کوئی تفریق نہیں کی گئی، اسلام نے علم کو اللّٰہ کی معرفت اور ترقی درجات کا سبب بتایاہے، خود اللّٰہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے  اعلان فرمایا کہ میں معلم بناکر بھیجا گیا ہوں، قرآن کریم میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرائض میں تعلیم کتاب وحکمت کوشامل کیاگیا، اور اعلان کیاگیاکہ علم والے اور بے علم برابر نہیں ہوسکتے، قرآن کریم کے نزول کا آغاز بھی ’’اقرائ‘‘ سے ہواجس کے معنی پڑھنے کے آتے ہیں۔
ان احکام وہدایات کی روشنی میں امارت شرعیہ نے اپنے قیام کے ابتدائی زمانہ سے تعلیم پر خصوصی توجہ مرکوزرکھی پندرہ روزہ’’ امارت‘‘ کی پرانی فائل دیکھنے سے پتہ چلتاہے کہ تین سال کے قلیل عرصہ میں صرف پلاموں میں ۲۲ مکاتب قائم کیے گئے اوراگلے پانچ سال میں اس کی تعداد سوسے متجاوز ہوگئی، بعد کے دنوں میں ان علاقوں میں جہاں غریبی کی وجہ سے تعلیم کا کوئی نظم ممکن نہیں ہورہاتھا، امارت شرعیہ کے بیت المال سے امدادی رقوم ماہ بہ ماہ معلمین کے وظیفہ کے لیے منظور کی گئیں ، اور پابندی سے اسے ارسال کیاجاتا رہا۔ یہ سلسلہ ۱۹۹۶ء تک کلی طور پر جاری رہا۔ اور اب بھی بیت المال سے مکاتب کے معلمین کو ماہانہ وظائف دیے جاتے ہیں۔
لیکن تجربہ سے یہ بات محسوس ہوئی کہ معلم کو پورا وظیفہ دینے کی صورت میں ان کا رابطہ گائوں کے لوگوں سے کٹ جاتا تھا۔ اوروہ اپنے کو سرکاری ملازم کی طرح سمجھنے لگتے تھے، جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا کہ تعلیم کامعیار باقی نہیں رہتا، وقت کی پابندی نہیں ہوتی او رتعلیم کے دنوں میں غیر حاضری کاتناسب بھی بڑھ جاتا ، اس احساس کے نتیجہ میں مجلس شوریٰ منعقدہ ۲۲؍دسمبر۱۹۹۶ء نے مختلف علاقوں میں دینی مکاتب اپنی نگرانی میں کھولنے کافیصلہ کیا۔ اس سلسلے میں سب سے بڑی دشواری معیاری اساتذہ کی فراہمی تھی، اچھے استاد کے بغیر اچھی تعلیم کاتصور دیوانے کے خواب کی طرح ہے جس کی کوئی تعبیر نہیں ہوا کرتی۔ چنانچہ اچھے اساتذہ کی فراہمی کے لیے امارت شرعیہ نے معلمین کا تربیتی کیمپ لگانے کی تحریک شروع کی ،یہ تربیتی کیمپ کم سے کم پانچ دن اور زیادہ سے زیادہ دس دن کے ہوا کرتے ہیں۔ اب تک بہار اڑیسہ وجھارکھنڈ میں اڑتالیس تربیتی کیمپ لگائے جاچکے ہیں، ہر کیمپ میں سوسے ڈیڑھ سو معلمین نے استفادہ کیا، اور اب وہ امارت شرعیہ کے ذریعہ چلائے جارہے مکاتب میں تعلیم وتربیت کے فرائــض انجام دے رہے ہیں اساتذہ کی تعلیمی نگرانی کے لیے نگراں مقرر ہیں۔ جو بار ی باری سے مکاتب کا معائنہ کرتے رہتے ہیں، ان معلمین کا رشتہ بچوں کے گارجین سے بھی مضبوط رہے اور وقت کی پابندی کے ساتھ تعلیم جاری رہ سکے۔ اس کے لیے گائوں کی سطح پر ایک تعلیمی کمیٹی ہوتی ہے، جس کی حیثیت ہمہ وقت نگراں کی ہوتی ہے،اس طرح تعلیم کے معیار کی برقراری کے ساتھ گائوں والوں کی دلچسپی بھی اس تعلیمی ادارہ سے قائم رہتی ہے ، نگرانی کے ساتھ گائوں والے اساتذہ کے وظیفہ میں بھی جزوی تعاون کرتے ہیں۔
ان مکاتب کے لیے طلبہ کی نفسیات اوران کی کم عمری کا خیال رکھتے ہوئے ہلکا نصاب تعلیم تیار کیاگیا ہے، تاکہ طلبہ کی دلچسپی برقرار رہے، اور ان پر کتابوں کا غیر معمولی بوجھ جیسا کہ پرائیویٹ اسکولوں اور کنوینٹ کی تعلیموں میں پڑا کرتاہے، نہ پڑے۔ کوشش کی جاتی ہے کہ جدید طریقۂ تعلیم کے اعتبار سے بچوں کی نفسیات کو سامنے رکھ کرتعلیم کا نظم کیاجائے۔
امارت شرعیہ کے دینی مکاتب میں عموماًچار سے لے کر آٹھ سال تک کے بچے اوربچیاں ایک ساتھ تعلیم حاصل کرتے ہیں بچیوں کے لیے الگ سے کوئی نظم نہیں ہوتا،  اس سے آگے کی تعلیم کے لیے لڑکیوں کے مخصوص تعلیمی ادارے ہیں جن کی تعداد یقینا آبادی کے اعتبار سے بہت کم ہے، مگر ان میں وہ اپنی تعلیم جاری رکھ سکتی ہیں،بچیوں کے لیے انگریزوں کے دور میں ابتدائی تعلیم کے لیے ’’پردہ نشیں‘‘ اسکول کا نظم تھا جواب ایک دو کی تعدادمیں ہی پورے بہار میں باقی رہ گئے ہیں، اوربقیہ اسکول آزادی کے بعد جنرل اسکول قرار دیے گئے ۔ امارت شرعیہ کی سوچ یہ ہے کہ یہ ایک مفیدسلسلہ تھا، جس سے بچیوں کی تعلیم کامناسب نظم ہوپاتا تھا  اگر یہ سلسلہ پھر سے جاری ہوجائے ،تو مسلم بچیوں کی تعلیم کا مسئلہ اسلامی حدود وقیود کے ساتھ بڑی حد تک حل ہوجائے گا۔
امارت شرعیہ کے معلمین سے کوئی غیر تعلیمی خدمت نہیں لی جاتی۔ اس طرح سبق کا تسلسل برقرار رہتاہے اور لڑکوں کی دلچسپی میں کمی نہیں آتی۔ جب کہ سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کو مختلف موقعوں سے غیرتدریسی کاموں میں استعمال کیاجاتاہے،جس کی وجہ سے تعلیم کا نظام برقرار نہیں رہ پاتا۔ اور طویل چھٹیوں کی وجہ سے لڑکوں کی دلچسپی تعلیم سے کم ہوجاتی ہے، میری رائے ہے کہ تعلیمی مہم سے جڑے ہوئے سبھی اساتذہ کو غیر تدریسی کاموں سے الگ رکھاجائے، تاکہ وہ پوری دلجمعی کے ساتھ اپناسارا وقت تدریسی کاموں پر لگائیں۔
ایک مسئلہ نصاب تعلیم کا بھی ہے، امارت شرعیہ کے نصاب تعلیم میں دینی تعلیم کے ساتھ اردو لازمی قرار دیا گیا ہے، عربی اور اردو کے حروف تہجی کے یکساں ہونے کی وجہ سے تعلیم میں آسانی ہوتی ہے، اور لڑکوں پر بوجھ بھی نہیں پڑتا ہے۔
الحمد للہ ان مکاتب کے قیام سے معاشرہ پر بڑے مفید اور دو ر رس اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور غریب مسلم آبادیاں جہاں غربت اور افلاس کے سبب لوگ خود کفیل نظام تعلیم نہیں چلاسکتے تھے اور بچے اور بچیاں علم کی روشنی سے محروم کھیل کود وغیرہ میں اپنی زندگیاں ضائع کر رہے تھے، آج ان مکاتب کی برکت سے ان آبادیوں کے بچے بنیادی دینی تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو رہے ہیں، معلمین کی دعوتی محنت سے نمازیوں کی تعداد میں اضافہ اور معاشرتی خرابیوں کا خاتمہ ہو رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق مختلف مقامات پر نوجوانوں کی بڑی تعداد جوا، شراب اور دیگر برائیوں سے تائب ہو رہی ہے ۔ ان مکاتب کے طفیل گارجین حضرات میں بنیادی دینی تعلیم کے بعد بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے کا شوق بھی دو بالا ہوتا ہے۔ آج بہت سے طلبہ ان مکاتب سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد ملک کے دوسرے اداروں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔
اس میدان میں کام کی اچھی شکل مکاتب کے نظام کو خود کفیل بنانا ہے ، جس کا خاکہ پہلے سے موجود ہے اور لوگ دھیرے دھیرے اس کی طرف راغب بھی ہو رہے ہیں، ضرورت اس کو تحریک کی شکل دینے کی ہے ، اس سلسلہ میں تعلیم کے لیے امارت شرعیہ کا جامع منصوبہ ’’نظام تعلیم کے رہنما اصول‘‘ مرتبہ مولانا محمد شبلی قاسمی قائم مقام ناظم امارت شرعیہ سے بھی مدد لی جا سکتی ہے ۔کیوں کہ مکاتب کے قیام کی ہر ہر گاؤں میں ضرورت ہے اور کسی بھی ادارہ کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ ہر گاؤں میں اسے اپنے نفقہ سے قائم کر سکے ، چنانچہ ہمیں ہر گاؤں میں امارت کے نقباء نائبین نقبائ، ضلع بلاک اور پنچایت سطح کے ذمہ داروں کو اس کی تحریک چلانی چاہیے کہ وہ خود کفیل نظام تعلیم کو اپنا ئیں اس میں جو طریقہ بتایا گیا ہے اس کے ذریعہ سرمایہ اکٹھا کریں اور نئی نسل کی دینی تعلیم وتربیت کے لیے پوری مستعدی سے کام کو آگے بڑھائیں۔