Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, February 25, 2021

اسد الدین اویسی مغربی بنگال میں کیوں نہیں؟؟؟.


تحریر / عارف حسین طیبی

arifhusainshab@gmail.com
                         صدائے  وقت۔
+++++++++++++++++++++++++++++++++++
مجلس اتحاد المسلمین کے قومی صدر بیرسٹر اسدالدین اویسی ایک ایسا نام جو ملک کی سیاست میں سب زیادہ مشہورو معروف ہیں لیکن حزب مخالف سیاسی طور پر انکے وجود کو اپنے لئے شجرہ ممنوعہ مانتے ہیں پھر بھی ہر شخص کی زبان پر شب و روز انکے چرچے عام سی بات ہے ! کوئی انہیں اپنے حریف کے لئے شمشیر بے نیام مانتے ہیں تو کوئی مسلم سیاسی قیادت کے لئے سب بڑا چہرہ تو کوئی مسلم سیادت کے بحران کو ختم کرنے لئے انکے وجود کو جزء لاینفک سمجھتے ہیں تو کوئی انکی سیاسی قیادت پر سوال اٹھاتے ہوئے بی جے پی کا ایجینٹ کہکر عوام کو گمراہ کرنے کی اوچھی روایت پر عمل کرتے نظر آتے ہیں لیکن ایسے زہریلے عناصر کو یہ بات بہت اچھی طرح سمجھنی ہوگی کہ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے یہاں ہر شخص اور ہر سیاسی پارٹی کو یہ حقوق حاصل ہیں کہ وہ جمہوری انداز میں ملک کی سیاست میں حصہ لیں اور مخالفین کو پسپا کرنے کی ہر ممکن کوشش میں لگا رہے
یہ سارا جھمیلا اور بکھیرا اسوقت اسلئے سرخیوں میں ہے کیوں کہ اسدالدین اویسی نے مغربی بنگال میں الیکشن لڑنے کا اعلان کرکے ممتا بنرجی کے خیمے میں ہڑکم مچادی ہے ہر سو سوگ کی لہر دور گئی ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت مغربی بنگال میں اسدالدین اویسی کی انٹری کو ہر زاویے سے بے معنی اور غیر ضروری امر گردانا جارہا ہے بڑی تعجب کی بات ہے اگر کوئی غیر مذہب مسلم دشمنی میں نمبر ون شخص یہ کہہ دے کہ بیرسٹر اویسی بی جے پی کے لئے کام کر تے ہیں تو ہم خوشی بخوشی قبول کر لیتے ہیں ایسا لگتا ہے پوری دنیا میں اس سے زیادہ اور کوئی بات سچ ہو ہی نہیں سکتی افسوس تو تب ہوتا ہے جب اس جھوٹی خبر کی تشہیر میں وہ لوگ بھی شامل نظر آتے ہیں جو روزانہ قرآن و حدیث کے درس میں طلبا کہ یہ تلقین کرتے نہیں تھکتے جسمیں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانستہ نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کیے پر پشیمان ہو ( الحجرات )
اس طرح کے بے بنیاد شوشل میڈیائی پوسٹ کی تشہیر مسلم قیادت کے تئیں حد درجہ نفرت اور غیروں کی قیادت سے خوش فہمی کا غماز ہے آزادی رائے کا حق سب کو ہے مگر کسی شخص کو صرف اسلئے ملامت کرنا کہ کوئی فلاں کے بارے الگ رائے رکھتا ہے نادانوں کی جنت میں رہنے جیسا ہے
اسلئے یہ کہکر نکل جانا کہ مسٹر اویسی کسی کو ہرانے کے لئے کسی کو جتانے کا کام کرتے ہیں میں سمجھتا اس طرح کے بے بنیاد الزام فرسودہ خیالات اور بیمار ذہنیت کی پیداوار ہے جس سے ، بغض و عناد ، حسد و کینہ ، نفرت و بے مروتی ، مردہ ضمیری اور جہالت کی ایسی بو آتی ہے جہاں سیاست اپنی شفافیت کھوتی نظر آتی ہے
ہم مسلمانوں کا المیہ ہے ہم نے اپنی قیادت پر کبھی بھروسہ ہی نہیں کیا بلکہ ہمیشہ طعن و تشنیع اور تنقیدی نقطہ نظر سے دیکھتے رہے یہی وجہ رہی فرضی سیکولر واد نے ہماری کمزوری اور آپسی رسہ کشی کو سنجیدگی سے لیا اور بڑی شاطر مزاجی سے ہم سے ووٹ تو لیتے رہے لیکن ہماری حصہ داری کو کبھی ہم تک نہیں پہونچانے کی زحمت گوارہ نہیں کیا کبھی آرجے ڈی نے جدیو نے بی کے پی ایجینٹ نہیں کہا کبھی پپو یادو کو بی جے پی کی بی ٹیم نہیں کہی گئی کبھی کسی نے کنہیا کو بی جے پی کا ایجینٹ نہیں بتایا لیکن ان فرضی سیکولر واد کے گودوں میں بیٹھے کچھ مسلم چہرے ایسے جو اپنی سیاسی وجود جلا بخشنے کے لئے مسلسل اویسی صاحب کو نشانے میں رکھتے ہیں
اویسی صاحب کبھی بھی قوم و ملت کے لئے تباہ کن نہیں رہے ہیں البتہ کچھ میر جعفر اور میر صادق ہیں جو آج بھی ڈھونگی سیکولرزم کے علم برداروں کے ساتھ مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لئے میدان میں اترتے رہتے ہیں ایسے لوگوں سے میری درخواست ہے کہ اب مسلمانوں کو اپنی راہ انتخاب کرنے دیجئے کب تک دوسروں کے دست نگر بنے رہنے دیں گے

 
آج ملک کی بدنصیبی یہ کہ چند مٹھی بھر لوگوں کے ذریعہ مذہبی منافرت اور فرقہ واریت کی مسموم فضا کو ملک کے گوشے گوشے تک پہونچانے کے لئے ایسی انسانی زنجیر بنائی گئی ہے جو صرف مذہبی کٹر پن اور ملک کو ہندو راشٹر کو بنانے کے جانب اپنی فکری توانائی کو صرف کرنے پر یقین رکھتی ہے اور یہ بات یاد رہے اویسی کے سیاسی نظریات کے مخالفین صرف سیاسی جماعتیں ہی نہیں ہیں بلکہ وہ نام نہاد مسلم افراد بھی ہیں جو گذشتہ ستر سالوں سے طوق غلامی میں جکڑے رہنے کے باوجود آج بھی سیکولرزم کے ڈھونگیوں کیساتھ مل کر مسلمانوں کا بیڑا غرق کے عزم کیساتھ اویسی کی سیاسی زمین پر گمراہ کن لفاظیوں سے مسلمانوں کو ان سے دور رہنے کی نصیحت کرتے آرہے ہیں لیکن گذشتہ بہار الیکشن میں حزب مخالف کے ساتھ ان لوگوں بھی اویسی کی کامیابی نے جواب دے دیا ہے کہ اب اس ملک میں ظلمت و ضلالت اور سیاسی استحصال درشت روایت نیست و نابود ہونے والی ہے آج مسلمانوں کو سمجھنا ہوگا کہ اسکا ہمدرد کوئی نہیں ہے وقت کے ساتھ سارے لوگ ان سے انکی نادانی کا بدلہ لیتے رہیں گے
اگر مسلمانوں سے ان فرضی سیکولر وادوں کو اتنی ہی ہمدرد ہیں تو کانگریس ، ترنمول کانگریس اور سی پی آئی ایل کو چاہیئے کہ ان سیٹوں پر اپنا امیداوار نہ اتارے جہاں سے اویسی صاحب کی پارٹی الیکشن لڑرہی ہے وہ ستر سالوں سے لوگوں ٹھگتے آرہے ہیں اس بار مجلس کی سچی قیادت کو موقع فراہم کرے اگر ایسا وہ نہیں کرتے ہیں تو سمجھا جائیگا دراصل وہ مسلمانوں کے ہمدرد نہیں بلکہ صرف انہیں مسلمانوں کا ووٹ تو چاہیئے مسلم لیڈر شپ نہیں
یہ ملک جمہوریت کے تانے بانے سے چلتا ہے ہر ایک کو حقوق حاصل کہ وہ الیکشن لڑکے جمہوری انداز میں ملک اور سماج کی خدمت کرے کون کس کا ووٹ کاٹے گا یہ وقت ہی بتائیگا قبل از وقت اس طرح کی سیاسی آویزش کو آشکار کرنا اور صرف مسلم قیادت کو موردالزام ٹھہرانا مسلم قیادت سے بیر رکھنے کے مترادف ہے میں کہتا ہوں بنگال میں اویسی صاحب الیکشن نہ لڑیں اور سارے مسلمان ملکر ممتا دیدی کو ووٹ کردیں اور پوری اکثریت سے انکی سرکار بھی بن جائے کوئی ہے جو اس بات کی ضمانت لے لے کہ آئندہ پانچ سالوں میں مسلمانوں کے سارے مسائل حل ہوجائیں گے انہیں بے روزگاری ، بھکمری ، اکتساب مال کے لئے دیگر شہروں کی ہجرت پر روک لگے گی
ہندوستان میں اسوقت مسلمانوں کی جو ابتر حالات ہیں اسکا ذمہ دار ایسی سیاسی پارٹیاں ہیں جو مسلمانوں کو ووٹنگ مشین کے طرح استعمال تو کیا لیکن انکے حقوق ،خوشحالی ترقی پسماندگی اور تعلیمی نشو نما کے لئے ذرہ برابر بھی فکر خاطر میں لانے کی زحمت تک نہیں کرسکے
ممتا بنرجی نے مغربی بنگال میں مسلمانوں کے ترقیاتی کاموں لئے کوئی خاص اقدامات نہیں کئے اگر واضح لفظوں میں کہا جائے انکی کارکردگی نہایت ہی مایوس کن رہی ہے اقتصادی مندی بے روزگاری اور بھکمری جیسے حالات بدستور قائم ہیں ہر سو لوگوں میں بالخصوص مسلمانوں میں سراسیمگی ، مایوسی اور شب و روز اپنوں کے تحفظ کے تئیں فکر مند نظر آتے ہیں مسلم قوم کی آزادی کے ستر سال بعد بھی اس ملک میں مسلمانوں کی کیا حیثیت ہے اس درد کو بیان کرنے کے لئے سچر کمیٹی کی رپورٹ ہی کافی ہےجسکو مسلمانوں کی سماجی-اقتصادی اور تعلیمی صورت حال کی معلومات کے لئے یو پی اے حکومت کے دوران اس وقت کے وزیر اعظم منموہن سنگھ نے 2005 میں دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس راجندر سچر کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی تھی۔ سچر نے 403 صفحات پر مشتمل رپورٹ 30 نومبر 2006 کو لوک سبھا میں پیش کی ۔ جس میں انہوں نے ملک میں مسلم معاشرے کی پسماندگی کے اسباب کا جائزہ لیا اور کئی اہم سفارشیں کیں۔ راجندر سچر کی رپورٹ سے پہلی بار یہ بات منظر عام پر آئی کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بھی زیادہ بد تر ہے یہ ایسی رپورٹ تھی جس سے مسلمانوں کی بدحالی اور سماجی پس ماندگی پہلی واضح ہوسکی تھی
لیکن اب وقت آگیا ہے ملک کے مسلمانوں کو اپنا سیاسی مستقبل خود طے ہونا کرنا ہوگا اور زمینی حقائق کی روشنی میں اپنی واضح شناخت وضع کرنی ہو گی اب مسلمانوں کو بھی اپنا تابناک مستقبل کے بارے سوچنا ہوگا اور ملک کے سیاسی رہنماؤں کو پیغام دینا ہوگا

 
موجودہ وقت میں جہاں ایک طرف بر سر اقتدار ممتا بنرجی اس کو شش میں لگیں ہیں کہ کسی طرح دوبارہ زمام اقتدار کی باگ ڈور حاصل کرنے میں کامیابی نصیب ہوجائے وہیں دوسری طرف بی جے پی اپنی اقتدار کے پرچم لہرانے کے لئے این آرسی سی اے اے اور جے شری رام کے نعروں کہ ذریعہ ہندو مسلم کارڈ کھیلنے کے لئے پوری زمین تیار کر لی ہے اور یہ بات روز روشن کے عیاں ہے اس بار بنگال کے تاج کا حصول کسی بھی سیاسی جماعت کے لئے آساں نہیں ہوگا کیوں کہ مغربی بنگال کے الیکشن کو مذہبی انتہا پسندوں کے ذریعہ فرقہ واریت کی رنگ دینے کی ایک الگ ہی کوشش کیجارہی ہے سیاسی جانکاروں کے مطابق مغربی بنگال کا الیکشن دیدی بنام جے شری رام ہوگا جسمیں یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا آخر بنگال کی عوام کس پر بھروسہ کرتی ہے