Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, February 22, 2021

جھارکھنڈ میں عشرہ فروغ تعلیم وتحفظ اردو..


*وزیر داخلہ کا نیا شوشہ- ایک ملک ایک زبان*
 
از /*مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہا ر، اڈیشہ وجھارکھند*/صدائے وقت۔
+±++++++++++++++++++++++++++++++++
یوم ہندی کے موقع سے وزیر داخلہ امیت شاہ نے ایک ملک ایک زبان کی بات کہہ کر غیر ہندی ریاستوں کو سخت تشویش میں مبتلا کر دیا ہے ، مختلف سیاسی پارٹیوں نے اس پر سخت احتجاج کیا ہے ، سیاسی لیڈران کا کہنا ہے کہ یہ ہندی کو ہندتوا نظریہ اور تحریک سے جوڑ کر زبان کو فرقہ وارانہ رنگ میں رنگنے کی سوچی سمجھی سازش ہے، اور اس سے ملک کے اتحاد کو نقصان پہونچے گا، ایک ملک اور ایک زبان کا تصور دستور کی دفعہ ۲۹؍ میں دیے گیے الگ زبان اور کلچر کے حق کے بھی خلاف ہے ، ایم ڈی ایم کے سربراہ وائیکو نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اگر ہندی تھوپی گئی تو ملک تقسیم ہو جائے گا، اور ہمارے پاس صرف وہ ہندوستان رہے گا جہاں کے لوگ ہندی بولتے ہیں، اس انتباہ کا مطلب یہ ہے کہ مرکزی سرکار کا ایسا کو ئی قدم آسامی، مراٹھی ، تیلگو ، بنگلہ ، پنجابی، ملیالم،کنر وغیرہ بولنے والوں کو بغاوت پر آمادہ کرے گا اور یہ ملک کی سالمیت کے لیے خطرناک ہوگا ۔
اس معاملہ میں سب سے سخت موقف تامل ناڈوکا رہا ہے ، ہم آپ کو یاد دلائیں کہ تامل ناڈو میں ہندی کی مخالفت پہلے سے ہوتی رہی ہے ، ۱۹۳۷ء میں پہلی بار ہندی کے خلاف آواز بلند ہوئی تھی ، جب وہاں کے اسکولوں میں ہندی لازمی طور پر پڑھانے کی بات کی گئی تھی، تین سال تک مسلسل تحریک چلتی رہی تو ۱۹۴۰ء میں اس وقت کے برٹش گورنر لارڈ آر اسکائن نے اسے منسوخ کرنے کا اعلان کیا، پنجاب میں بھی ہندی کے خلاف آواز بلند ہوئی جس کے نتیجے میں ہریانہ اور ہماچل پردیش الگ سے ریاست قائم ہوئی اور اسے ہندی بولنے والی ریاست کے طور پر تسلیم کیاگیا، پھر ۱۹۶۳ء میں جب پارلیامنٹ میں یہ بل پیش ہوا تو جنوبی ہندوستان کے لوگوں نے سخت مخالفت کی اور بل پاس ہونے کے بعد مدورائی میں سخت فساد پھوٹ پڑا تھا ، جس میں سرکاری اعداد وشمار کے مطابق ستر لوگ مارے گئے ،جب کہ غیر سرکاری اعداد وشمار کے مطابق مرنے والوں کی تعداد پانچ سو سے زائد تھی، بالآخر اس قضیہ کو حل کرنے کے لیے اس وقت کے وزیر اعظم لال بہادر شاستری کو سہ لسانی فارمولہ پیش کرکے ان ریاستوں کو مطمئن کرنا پڑا تھا ، سہ لسانی فارمولے کا مطلب ہندی کو لازم قرار دینے کی نفی تھی۔اس طرح جون ۲۰۱۴ء میں حکومت کی طرف سے اسکولوں میں ہندی کو لازمی زبان کے طور پر شامل کرنے کا منصوبہ سامنے آیا تو تامل ناڈو کی وزیر اعلیٰ جے للیتا اور حزب مخالف کے لیڈر ایم کروناندھی نے وزیر اعظم کو خط لکھ کر اس تجویز کی مخالفت کی اور واضح کیا کہ ۱۹۶۸ء میں سرکاری زبان کے ایکٹ ۱۹۶۳ء کی دفعہ ۱(۱) میں ترمیم کرکے مرکز اور غیر ہندی بولنے والی ریاستوں سے رابطہ کی زبان انگریزی قرار دیا گیا تھا جس پر اب تک عمل ہو رہا ہے ۔ 
آج بھی ملک کی جنوبی ریاستوں میں ریلوے اسٹیشن کے نام ہندی میں درج ہونے کے علاوہ باقی سب کچھ انگریزی یا مقامی زبان میں ہوتا ہے ، تامل ناڈو ، کیرالہ، کرناٹک وغیرہ میں ہندی سمجھنے والوں کی تعداد انتہائی کم ہے ، بولنا تو اس سے اوپر کی بات ہے ، مغربی بنگال میں ہندی بولی سمجھی جاتی ہے ، لیکن بنگالی اپنی مادری زبان کے تحفظ اور بقا میں دوسری ریاستوں سے کم سخت نہیں ہیں ، ممتا بنرجی کا یوم ہندی پر یہ بیان بہت ہی اہم ہے کہ ہم بھلے ہی دوسری زبان سیکھ لیں لیکن ہمیں اپنی مادری زبان کو نہیں بھولنا چاہیے، یہی درست اور صحیح موقف ہے ۔
 ملک کی نئی تعلیمی پالیسی۲۰۲۰ء میں سہ لسانی فارمولے کو تسلیم کیا گیا ہے، اور ترتیب میں مادری زبان ، انگریزی اور دیگر زبان کی بات کہی گئی ہے ، ظاہر ہے جب اسکولوں میں تعلیم مادری زبان میں ہوگی اور یہ بات مسلم ہے کہ ہندوستان کی مختلف ریاستوں کی بولیاں اور مادری زبان الگ الگ ہے ۔ سال ۲۰۰۱ء کی مردم شماری کے مطابق ملک میں ایک سو بائیس زبانیں بولی جاتی ہیں، جبکہ بولیوں کی تعداد پندرہ سو ننانوے ہے، آئین کی آٹھویں شڈول میں بائیس زبانوں کو شامل کیا گیاہے، جن میں سے ایک ہندی بھی ہے ۔ ایسے میں صرف ایک زبان کو پورے ملک پر کس طرح تھوپا جا سکتا ہے ، وزیر داخلہ کو بیان دیتے وقت ملک کی موجودہ صورت حال کا گہرائی سے مطالعہ کرنا چاہیے، اور انہیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ملک کی طاقت کثرت میں وحدت ہے اور یہی پوری دنیا میں ہندوستانی ثقافت کے طورپر جانا پہچانا جاتا ہے ۔