Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, February 27, 2021

‎*ہاں ! میں دِشا رَوی ہوں۔۔۔!*

.
      


از /*نازش ہما قاسمی*/ صدائے وقت۔
+++++++++++++++++++++++++++++++++++
جی دشا روی۔ بھولی بھالی شکل کی خوبرو نوجوان لڑکی، دنیا بھر میں مشہور، ماحولیاتی کارکن، فضائی آلودگی کے خلاف آواز اُٹھانے والی، فطرت سے بغاوت امور پر تحریک چلانے والی، ملک سمیت بیرون ممالک کے اخبارات میں ماحولیات کے تعلق سے کالم لکھنے والی، آس پاس کے ماحول کو فطرت کے مطابق رکھنے پر زور دینے والی، مشہور ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ کی معاون، کسان خاندان سے تعلق رکھنے والی، کسان کی پوتی،سبزی خور، اور سبزی خوری کو فروغ دینے کے لیے بیداری پیدا کرنے والی، انسانوں سمیت جانوروں پر ظلم کے خلاف آواز اُٹھانے والی، جھیلوں کی صفائی کیلئے مہم چلانے والی، شجر کاری کو فروغ دینے والی، فرائی ڈے فار فیوچر کمپین کے بانیوں میں سے ایک، کسان تحریک سے متعلق ٹول کٹ بنانے کے الزام میں گرفتار، مشہور ایکٹویسٹ ، ہندو مذہب کی پیروکار، پرامن ، مساوات و رواداری کی پیامبر، بنگلورو کی رہائشی، ۲۲؍ سالہ سماجی کارکن، دشا اے روی ہوں۔ میری پیدائش ۱۹۹۹ میں والد انپّا روی اور والدہ منجولا مانجیا روی کے گھر سولادیووناحالی، تمکر ضلع، بنگلورو کرناٹک میں ہوئی۔ میری ابتدائی تعلیم مقامی اسکول میں ہوئی، اعلیٰ تعلیم کے لیے مائونٹ کیرمل کالج کا رخ کیا اور وہاں سے گریجویٹ کی ڈگری حاصل کی، دادا دادی کسان تھے اور لنگایت برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ مڈل کلاس سے ان کا تعلق تھا ، سیلابی جگہ پر چھوٹا گھر ہونے کی وجہ سے انہیں آب وہوا کے مسائل کا سامنا تھا، بچپن سے دیکھتے آئی تھی، اس کی تبدیلی کو لے کر مجھ میں امنگ پیدا ہوئی اور میں نے ماحولیاتی تبدیلی کا بیڑہ اُٹھانے کے لیے کمر کس لی، تعلیم کے ساتھ ساتھ اس کام میں مشغول رہی، تعلیم سے فراغت کے بعد جان ودل سے اس کام میں جڑ گئی اور پوری وفاداری کے ساتھ یہ کام کررہی تھی، کہیں درختوں کے کاٹنے کا مسئلہ ہوتا تو میں کھڑی نظر آتی، کہیں سمندروں میں گندگی کا مسئلہ ہوتا تو اس کی صفائی کے لیے آواز اُٹھاتی نظر آتی، کہیں جانوروں کے ساتھ غلط رویہ ہوتا دیکھتی تو کڑھ اُٹھتی، ان کو سکون پہچانے اور بچانے کی کوشش میں مصروف ہوجاتی، کہیں کوئی اور خلاف فطرت کام ہوتا تو میں اس کے خلاف کھڑی نظر آتی۔ ہاں میں وہی دشا روی ہوں جو اپنی تنظیم کے تحت ملک بھر میں ماحولیات کے لیے کام کرتی ہوں، احتجاج کرتی ہوں، ماحولیات کے تعلق سے لوگوں میں بیداری پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہوں، انہیں اُکساتی ہوں کہ فطرت کے خلاف نہ چلیں، فطرت کی موافقت میں ہی زندگی ہے، پہاڑوں کو ان کی جگہوں پر قائم رہنے دیں، ندی نالوں کی صفائی کا خیال رکھیں، جانوروں سے حسن سلوک کریں، انسانوں کے ساتھ انسانوں والا رویہ روا رکھیں، وغیرہ وغیرہ۔

ہاں میں وہی دشا روی ہوں جس نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’’ہندوستان میں لوگ ڈرے ہوئے ہیں، عوام مخالف قوانین کا شکار ہورہے ہیں، ہم ایک ایسے ملک میں رہ رہے ہیں جہاں اختلاف رائے جرم ہے اور کوئی اختلاف کرتا ہے تو اس کی آواز دبا دی جاتی ہے، فرائی ڈے فار فیوچر انڈیا سے منسلک لوگوں پر دہشت گردی کی مہر لگائی جارہی ہے؛ کیوں کہ وہ انوائرمنٹ امپیکٹ اسسمنٹ (اے آئی اے) کے مسودے کی مخالفت کررہے ہیں، مفادات کو عوام کی زندگی پر ترجیح دینے والی حکومت یہ طے کررہی ہے کہ صاف ہوا، صاف پانی اور زندگی گزارنے کے قابل زمین کا مطالبہ کرنا دہشت گردی کی سرگرمیوں میں شامل ہے‘‘۔ ہاں میں وہی دشا روی ہوں جس کے بارے میں مشہور سماجی کارکن کرشنا سوامی نے بی بی سی کو کہا کہ’’ ہم نے ماحولیاتی تبدیلی کے لیے کئی مہم چلائیں ، ہم نے ایک دوسرے سے باتیں کیں؛ لیکن میں نے ہمیشہ نوٹس کیا کہ وہ کبھی بھی قانون کی خلاف ورزی نہیں کرتی ہیں ‘‘۔

ہاں میں وہی دشا روی ہوں جس کی گرفتاری پر کانگریس کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ ’’ڈرتے ہیں بندوقوں والے ایک نہتھی لڑکی سے، پھیلے ہیں ہمت کے اجالے ایک نہتھی لڑکی سے‘‘۔ سابق وزیر خزانہ اور سینئر کانگریسی لیڈر پی چدمبرم نے ٹوئٹ میں لکھا کہ ماحولیاتی کارکن دشا روی ملک کے لیے خطرہ بن گئی ہے تو ہندوستان بہت ہی کمزور بنیاد پر کھڑا ہے۔ لیفٹ رہنما سیتا رام یچوری نے کہا کہ ’’مودی کی بھول ہے کہ وہ اس طرح سے کسانوں کی آواز کو دباد یں گے‘‘۔ سابق وزیر اعلیٰ اترپردیش نے کہا کہ’’سوال یہ ہے کہ وہ کب گرفتار ہوں گے، جو ہندوستان کی قومی اور سماجی ایکتا کو توڑنے کے لیے صبح وشام عوام کے بیچ نفرت کے ذریعے تقسیم کو جنم دینے کے لیے لفظی ٹول کٹ جاری کرتے رہتے ہیں۔ صحافی مہر شرما نے میرے تعلق سے کہا کہ دشا کو گرفتار کرکے ہندوستان ایک بڑا سپر پاور ثابت ہوا‘۔ ونیتا شرما نے ٹوئٹ کیا ‘گرفتاری معمولی واردات نہیں ہے، مودی حکومت ان لوگوں کو بار بار متنبہ کررہی ہے جو یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ملک میں قانون کا راج ہے، اظہار رائے کی آزادی ہے’۔ سب سے اچھی بات تو جے این یو کے سابق طلبہ لیڈر کنہیا کمار نے کہی کہ اگر دشا فسادیوں کا ساتھ دیتی تو گرفتاری کے بجائے کسی اہم عہدے پر فائز ہوجاتی۔۔۔ایک طرف تو یہ لوگ میرے حمایت میں تھے دوسری طرف کچھ لوگ مجھے اجمل قصاب بنا رہے تھے، کوئی مجھے عیسائی کہہ رہا تھا، کوئی مجھے ملک شام سے ہجرت کرکے ہندوستان میں بسا ہوا قرار دینے پر تلا تھا۔ ہاں میں وہی دشا روی ہوں جو کسانوں کے احتجاج کو عالمی طورپر متعارف کرانے کا سبب بنی، جس پر ٹول کٹ بنانے کا الزام ہے اور اس الزام کے تحت مجھ پر یو اے پی اے قانون کی دفعات عائد کی گئی ہیں اور میں فی الحال گرفتار ہوں، میری گرفتاری پر ہندوستانی اپوزیشن سمیت دیگر ممالک میں آوازیں اُٹھ رہی ہیں، گرفتاری سے ماحولیات کے لیے کام کرنے والے کارکنان جہاں ایک طرف خوفزدہ ہیں تو دوسری طرف کچھ لوگ اسے غیر قانونی کہہ رہے ہیں۔ مجھے بنگلورو سے ۱۳ فروری کو گرفتار کیا گیا، ۱۴؍ فروری کو عدالت میں پیش کیا گیا، جہاں سے مجھے پانچ دنوں کی پولس کسٹڈی میں بھیج دیاگیا تھا، پانچ دن مکمل ہونے کے بعد عدالت میں پیش کیا گیا عدالت نے پھر مجھے تین دن کی عدالتی تحویل میں بھیج دیا، ایک ہفتہ مکمل ہونے کے بعد میری ضمانت کی عرضی پر شنوائی ہوئی؛ لیکن فیصلہ محفوظ رکھتے ہوئے سماعت ۲۳؍ فروری تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔ اس دوران ملک بھر میں عجیب نظارہ دیکھنےکو ملا کہیں کوئی میرا حمایتی تھا تو کوئی ملک مخالف بنانے اور ملک سے غداری کرنے والی سمجھتا رہا؛ لیکن میں نے اپنے وکیل کے ذریعے عدالت میں ببانگ دہل کہلوایا کہ ’’کسی بھی اہم معاملے میں کسی سے بات کرنا جرم نہیں ہے، کسی سے ہم بات کررہے ہیں تو وہ ملک مخالف ہے تو اس کی سزا مجھے کیوں۔ جس نے لال قلعے پر جھنڈا لہرایا، جس نے تشدد کیا، کیا اس نے بتایا کہ اس نے یہ کام ٹول کٹ کو پڑھنے کے بعد کیا ہے؟ دہلی تشدد میں جو لوگ گرفتار ہوئے کیا ان میں سے کسی نے میرا نام لیا ہے یا مجھ سے منسلک ہے؟ دہلی پولس نے ہی کہا کہ کسانوں کی ریلی کو اجازت دی، کسان مورچہ ہی اس کے لیے ذمہ دار ہے کیا ان کے خلاف ملک سے غداری کا مقدمہ درج ہوا۔ نہیں تو پھر میرے خلاف کیوں؟ میں نے صرف ریلی جوائن کرنے کے لیے کہا تھا، یہ کہنا جرم ہے؟ اگر کوئی مدعا ہے اور اگر اسے میں نے کسی بڑے پلیٹ فارم پر بتا دیا ہے تو یہ غلط تو ہوسکتا ہے؛ لیکن ملک مخالف نہیں۔ گھریلو معاملوں اور مسائل کو دنیا کے دوسرے پلیٹ فارم پر بولنا غلط ہوسکتا ہے؛ لیکن ملک سے غداری نہیں؟ اگر کسی مسئلے کو لوگو ں کو بتانا ملک سے غداری ہے تو انٹرنیٹ بند ہوجانا چاہئے۔ صرف دور درشن چلے؛ تاکہ سب ایک جیسا دیکھیں‘‘۔
ہاں ! میں دِشا رَوی ہوں۔۔۔!
.