Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, March 31, 2021

*اپریل فول كى شرعى حيثيت* ‏



 تحریر / *_عبيد الله شميم قاسمى_* /صدائے وقت 
+++++==++++++++++++++++++++++
اسلام ایک آفاقی مذہب ہے۔ اس نے زندگی کے تمام شعبہ جات کے لیے اپنے ماننے والوں کو بہترین اور عمدہ اصول وقوانین پیش کیے ہیں۔ اخلاقی زندگی ہو یا سیاسی، معاشرتی ہو یا اجتماعی اور سماجی ہر قسم کی زندگی کے ہر گوشہ کے لیے اسلام کی جامع ہدایات موجود ہیں اور اسی مذہب میں ہماری نجات مضمر ہے۔ قرآن كريم ميں الله رب العز ت كا فرمان هے: ﴿إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ﴾ [آل عمران: ١٩]، الله كے نزديك دين دين اسلام ہے، اب اگر كوئى شخص اس دين اسلام سے ہٹ كر كسى دوسرے دين كى پيروى واتباع كرے گا وه قبول نہيں كيا  جائے گا، ارشاد ربانى ہے: ﴿وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ﴾ [آل عمران: ٨٥].
ليكن آج صورت حال يہ ہے کہ آج کا مسلمان مغربی افکار اور نظریات سے اتنا مرعوب ہوچکا ہے کہ اسے ترقی کی ہر منزل مغرب کی پیروی میں ہی نطر آتی ہے۔ ہر وہ قول وعمل جو مغرب کے ہاں رائج ہوچکا ہے اس کی تقلید لازم سمجھتا ہے ،قطع نظر اس سے کہ وہ اسلامی افکار کے موافق ہے یا مخالف ۔حتی کہ یہ مرعوب مسلمان ان کے مذہبی شعار تک اپنانے کی کوشش کرتاہے۔ ’’اپریل فول‘‘بھی ان چند رسوم ورواج میں سے ایک ہےجس میں جھوٹی خبروں کو بنیادبناکر لوگوں کا جانی ومالی نقصان کیا جاتا ہے۔ انسانیت کی عزت وآبرو کی پرواہ کیے بغیر قبیح سے قبیح حرکت سے بھی اجتناب نہیں کیا جاتا۔اس میں شرعاً واخلاقاً بےشمار مفاسد پائے جاتے ہیں جو مذہبی نقطہ نظر کے علاوہ عقلی واخلاقی طور پر بھی قابل مذمت ہیں۔
مگر آج ہمیں یورپ اور یہودونصاریٰ کی تقلید کا شوق ہے اور مغربی تہذیب کے ہم دلدادہ ہیں۔ یورپی تہذیب وتمدن اور طرزِ معاشرت نے مسلمانوں کی زندگی کے مختلف شعبوں کو اپنے رنگ میں رنگ دیا ہے۔ مسلمانوں کی زندگی میں انگریزی تہذیب کے بعض ایسے اثرات بھی داخل ہوگئے ہیں، جن کی اصلیت وماہیت پر مطلع ہونے کے بعد ان کو اختیار کرنا انسانیت کے قطعاً خلاف ہے؛ مگر افسوس کہ آج مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ ان اثرات پر مضبوطی سے کاربند ہے؛ حالاں کہ قوموں کا اپنی تہذیب وتمدن کو کھودینا اور دوسروں کے طریقہٴ رہائش کو اختیار کرلینا ان کے زوال اور خاتمہ کا سبب ہوا کرتا ہے۔ مذہبِ اسلام کا تو اپنے متبعین سے یہ مطالبہ ہے: ﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ﴾ (البقرة آیت:۲۰۸) ترجمہ: اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کے قدم پر مت چلو، یقینا وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے۔ (بیان القرآن)۔

یہود ونصاریٰ کی جو رسومات ہمارے معاشرہ میں رائج ہوتی جارہی ہیں، انھیں میں سے ایک رسم ’’اپریل فول‘‘ منانے کی رسم بھی ہے۔ اس رسم کے تحت یکم اپریل کی تاریخ میں جھوٹ بول کر کسی کو دھوکا دینا، مذاق کے نام پر بے وقوف بنانا اور اذیت دینا نہ صرف جائز سمجھا جاتا ہے؛ بلکہ اسے ایک کمال قرار دیا جاتا ہے۔ جو شخص جتنی صفائی اور چابک دستی سے دوسروں کو جتنا بڑا دھوکا دے دے، اُتنا ہی اُس کو ذہین، قابلِ تعریف اور یکم اپریل کی تاریخ سے صحیح فائدہ اٹھانے والا سمجھا جاتا ہے۔ یہ رسم اخلاقی، شرعی اور تاریخی ہر اعتبار سے خلافِ مروت، خلافِ تہذیب اور انتہائی شرمناک ہے۔ نیز عقل ونقل کے بھی خلاف ہے۔

اس رسم بد کی دو حیثیتیں ہیں: (۱) تاریخی۔ (۲) شرعی۔

 *اپریل فول کی تاریخی حیثیت:* 
اس رسم کی ابتداء کیسے ہوئی؟ اس بارے میں موٴرخین کے مختلف بیانات  ملتے ہیں۔ ان میں سے كچھ اقوال  ہم پیش کرتے ہیں؛ تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ عقل وخرد کے دعوے داروں نے اس رسم کو اپنانے میں کیسی بے عقلی اور حماقت کا ثبوت دیا ہے۔
بعض مصنّفین کا کہنا ہے کہ فرانس میں سترہویں صدی سے پہلے سال کا آغاز جنوری کے بجائے اپریل سے ہوا کرتا تھا، اس مہینے کو رومی لوگ اپنی دیوی ’’وینس‘‘ (Venus) کی طرف منسوب کرکے مقدس سمجھا کرتے تھے، تو چوں کہ سال کا یہ پہلا دن ہوتا تھا؛ اس لیے خوشی میں اس دن کو جشن کے طور پر منایا کرتے تھے اور اظہارِ خوشی کے لیے آپس میں ہنسی مذاق بھی کیا کرتے تھے، تو یہی چیز رفتہ رفتہ ترقی کرکے اپریل فول کی شکل اختیار کرگئی۔

انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا میں اس رسم کی ایک اور وجہ بیان کی گئی ہے کہ اکیس مارچ سے موسم میں تبدیلیاں آنی شروع ہوجاتی ہیں، ان تبدیلیوں کو بعض لوگوں نے اس طرح تعبیر کیا کہ (معاذ اللہ) قدرت ہمارے ساتھ اس طرح مذاق کرکے ہمیں بے وقوف بنارہی ہے؛ لہٰذا لوگوں نے بھی اس زمانے میں ایک دوسرے کو بے وقوف بنانا شروع کردیا۔ (انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا۱/٤٩٦ بحوالہ ’’ذکروفکر‘‘ ص٤٧، مفتی تقی عثمانی مدظلہ)۔

ایک تیسری وجہ انیسویں صدی عیسوی کی معروف انسائیکلوپیڈیا ’’لاروس‘‘ نے بیان کی ہے اور اسی کو صحیح قرار دیا ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ جب یہودیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو گرفتار کرلیا اور رومیوں کی عدالت میں پیش کیا تو رومیوں اور یہودیوں کی طرف سے حضرت عیسیٰ علیہ الصلاة والسلام کو تمسخر اور استہزاء کا نشانہ بنایاگیا، ان کو پہلے یہودی سرداروں اور فقیہوں کی عدالت میں پیش کیا گیا، پھر وہ انہیں پیلاطُس کی عدالت میں فیصلہ کے لیے لے گئے، پھر پیلاطس نے ان کو ہیرودیس کی عدالت میں بھیج دیا اور بالآخر ہیرودیس نے دوبارہ فیصلہ کے لیے ان کو پیلاطس ہی کی عدالت میں بھیج دیا۔ لُوقا کی انجیل میں اس واقعہ کو اس طرح نقل کیا گیا ہے:
’’اور جو آدمی یسوع کو پکڑے ہوئے تھے اس کو ٹھٹھوں میں اُڑاتے اور مارتے تھے اور اس کی آنکھیں بند کرکے اس سے پوچھتے تھے کہ نبوت سے بتا تجھے کس نے مارا؟ اور انھوں نے طعنہ سے اور بھی بہت سی باتیں اس کے خلاف کہیں‘‘۔(انجیل لوقا، ب۲۲، آیت ٦٣-٦٥، ص۲۲۷)
اور انجیل لوقاہی میں ہیرودیس کا پیلاطُس کے پاس واپس بھیجنا ان الفاظ سے منقول ہے:
’’پھر ہیرودیس نے اپنے سپاہیوں سمیت اُسے ذلیل کیا اور ٹھٹھوں میں اڑایا اور چمک دار پوشاک پہناکر اس کو پیلاطس کے پاس واپس بھیجا‘‘۔ (انجیل لوقا، ب۲۳، آیت۱۱، ص۲۲۸)
لاروس کا کہنا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو ایک عدالت سے دوسری عدالت میں بھیجنے کا مقصد بھی ان کے ساتھ مذاق کرنا اور انھیں تکلیف پہنچا تھا؛ چونکہ یہ واقعہ یکم اپریل کو پیش آیا تھا، اس لیے اپریل فول کی رسم درحقیقت اسی شرمناک واقعے کی یادگار ہے۔ (ذکروفکر ص٤٧-٤٨)۔

اگر یہ بات درست ہے تو غالب گمان یہی ہے کہ یہ رسم یہودیوں نے جاری کی ہوگی اور اس کا منشاء حضرت عیسیٰ علیٰ نبیّنا وعلیہ الصلاة والسلام کی تضحیک ہوگی؛ لیکن یہ بات حیرت ناک ہے کہ جو رسم یہودیوں نے (معاذ اللہ) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ہنسی اڑانے کے لیے جاری کی اس کو عیسائیوں نے کس طرح قبول کرلیا؛ بلکہ خود اس کے رواج دینے میں شریک ہوگئے؛ جبکہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نہ صرف رسول؛ بلکہ ابن اللہ کا درجہ دیتے ہیں۔ قرینِ قیاس یہ ہے کہ یہ ان کی دینی بدذوقی یا بے ذوقی کی تصویر ہے۔ جس طرح صلیب، کہ ان کے عقیدہ کے مطابق اس پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سولی دی گئی ہے، تو ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس کی شکل سے بھی ان کو نفرت ہوتی؛ لیکن ان پر خدا کی مار یہ ہے کہ اس پر انھوں نے اس طرح تقدس کا غازہ چڑھایا کہ وہ ان کے نزدیک مقدس شے بن کر ان کے مقدس مقامات کی زینت بن گئی۔ بس اسی طرح اپریل فول کے سلسلہ میں بھی انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دشمنوں کی نقّالی شروع کردی۔ اللّٰهم احفظنا منه․ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عیسائی اس رسم کی اصلیت سے ہی واقف نہ ہوں اور انھوں نے بے سوچے سمجھے اس پر عمل شروع کردیا ہو۔ واللہ اعلم۔

مندرجہ بالا بيانات سے معلوم ہوا كہ اس رسم بد كى ابتدا  كا مقصد تضحيک اورايک دوسرے كو بيوقوف بنانا ہے۔ ليكن افسوس ہوتا ہے كہ آج ہماری نئی نسل خاص طور پر تعلیم یافتہ طبقہ اسے گرمجوشی سے مناتا ہے اور اسی کو عین روشن خیالی تصور کرتا ہے۔ یہ اخلاقی وباء یکم اپریل کو منایا جاتا ہے۔ اس دن لوگ ایک دوسرے سے مذاق اور استہزاء کرتے اور ایک دوسرے کو بے وقوف بناتے ہیں۔ اس سلسلے میں عوام تو کجا حد یہ ہے کہ اب طلباء بھی اپنے محترم اساتذہ کے ساتھ یہ خلاف مروت اور حماقت پر مبنی رسم کلاس روم میں انجام دیتے ہیں۔ اس دن عوام کو بے وقوف بنانے کے لئے اخبارات کی سرخیوں میں سنسنی خیز خبریں شائع کی جاتی ہیں جسے پڑھ کر لوگ تھوڑی دیر تک حیرت میں پڑھ جاتے ہیں، بعد میں پتہ چلتا ہے کہ آج یکم اپریل "اپریل فول" کا دن ہے تو حقیقت واضح ہوجاتی ہے۔
مسلمانوں کا اپریل فول منانا جائز نہیں، کیونکہ اس میں کئی مفاسد ہیں جو ناجائز اور حرام ہیں، اس لیے کہ اس میں جن امور کا ارتکاب کیا جاتا ہے وہ اسلامی تعلیمات کے مطابق حرام ہیں۔

 *اپریل فول کی شرعی حیثیت*:
مندرجہ بالا تفصیل سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ تاریخی اعتبار سے یہ رسم بد قطعاً اس قابل نہیں کہ اس کو اپنایا جائے؛ کیونکہ اس کا رشتہ یا تو کسی توہم پرستی سے جڑا ہوا ہے، جیساکہ پہلی صورت میں، یا کسی گستاخانہ نظریے اور واقعے سے جڑا ہوا ہے؛ جیساکہ دوسری اور تیسری صورت میں۔ اس کے علاوہ یہ رسم اس لیے بھی قابلِ ترک ہے کہ یہ مندرجہ ذیل کئی گناہوں کا مجموعہ ہے:
(۱) مشابہت کفار ویہود ونصاریٰ
(۲)جھوٹا اور ناحق مذاق
(۳)جھوٹ بولنا
(٤)دھوکہ دینا
(۵)دوسرے کواذیت پہنچانا
ان میں سے ہر ایک  عنوان پر الگ الگ بحث كى جائے تو مضمون طويل ہوجائے گا۔

اس میں غیرقوموں سے مشابہت پائی جاتی ہے اور حدیث شریف میں ہے: ابوداود شریف كى روايت ہے: 
عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: «مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ» سنن أبي داود (4031).کہ جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے۔ 
ایک قباحت اس میں یہ بھی ہے کہ جھوٹ بول کر دوسروں کو پریشان کیا جاتا ہے اور جھوٹ بولنا شریعت اسلامی میں ناجائز اور حرام ہے۔  حضرت عبد الله بن مسعود كى حديث ميں ہے: عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «إِنَّ الصِّدْقَ بِرٌّ، وَإِنَّ الْبِرَّ يَهْدِي إِلَى الْجَنَّةِ، وَإِنَّ الْعَبْدَ لَيَتَحَرَّى الصِّدْقَ، حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ اللهِ صِدِّيقًا، وَإِنَّ الْكَذِبَ فُجُورٌ، وَإِنَّ الْفُجُورَ يَهْدِي إِلَى النَّارِ، وَإِنَّ الْعَبْدَ لَيَتَحَرَّى الْكَذِبَ، حَتَّى يُكْتَبَ كَذَّابًا» صحيح مسلم (2607)
ترجمہ: سچ بولنا نیکی ہے اور نیکی جنت لے جاتی ہے اور بنده برابر سچ بولنے كى كوشش كرتا رہتا ہے يہاں تک الله تعالى كے يہاں صديقين ميں اس كا نام لكھ ديا جاتا ہے، اور جھوٹ بولنا گناہ ہے اور گناہ [جہنم کی] آگ کی طرف لے جاتا ہے، بنده برابر جھوٹ بولتا رهتا ہے يہاں تک كہ الله تعالى كے يہاں اس كا نام جھوٹوں ميں لكھ ديا جاتا ہے۔بلکہ ایک حدیث مبارک میں تو جھوٹ بولنے کو منافق کی علامت قرار دیا گیا ہے:
آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ (صحیح البخاري، رقم الحدیث: ٣٣).
ترجمہ: منافق کی تین نشانیاں ہیں۔ جب بات کرتاہے تو جھوٹ بولتا ہے، وعدہ کرتا ہے تو خلاف ورزی کرتا ہے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرتا ہے۔
اس دن جھوٹ کی بنیاد پر بسا اوقات دوسروں کے بارے میں غلط سلط باتیں پھیلا دی جاتی ہیں، جس کی وجہ سے ان کی عزت خاک میں مل جاتی ہے ، اس دن مذاق میں دوسروں کو ڈرایا دھمکایا بھی جاتا ہے جو بسا اوقات جان لیوا بھی ثابت ہوتا ہے۔ اس کا اندازہ اگلے روز کے اخبارات سے لگایا جا سکتا ہے۔غرض اس فعل میں کئی مفاسد پائے جاتے ہیں۔ لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ اس قبیح فعل سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں، الله تعالى ہميں دين كى صحيح سمجھ نصيب فرمائے ۔