Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, March 24, 2021

رمضان کی پلاننگ. ‏. ‏. ‏. ‏. ‏. ‏

                  تحریر 
ذکی الرحمٰن غازی مدنی
جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ
                   صدائے وقت 
++++++++++++++++++++++++++++ 
 ماہِ رمضان کا قریب آجانا اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت اور انعام کا مظہر ہے۔ رمضان المبارک کی آمد ودید وہ عظیم الشان تمنا اور آرزو ہے جس کو سرورِ عالم حضرت محمدﷺ اپنے رب سے مانگا کرتے تھے۔ آپﷺ کی دعائوں میں ایک دعا یہ بھی ملتی ہے کہ اے اللہ ہمارے لیے ماہِ رجب اور ماہِ شعبان میں برکت عطا فرما اور ہمیں رمضان المبارک تک پہنچنے کی توفیق عنایت کردے۔ ‘‘ [اللھم بارک لنا في رجب وشعبان، وبلغنا رمضان ] (مسند احمدؒ:۱/۲۵۹۔ مجمع الزوائد، ہیثمیؒ:۴۷۷۴) 
 اللہ کے رسولﷺ کا معمول تھا کہ اپنے اصحابؓ ورفقاء کو رمضان المبارک کی آمد سے پہلےخوش خبری سناتے تھے اور کہتے تھے کہ ’’تمہارے اوپر ایک مبارک مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے تم پر روزے فرض کیے ہیں، اس مہینے کی شان یہ ہے کہ اس میں جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں اور شیاطین کو پابجولاں کردیا جاتا ہے، اسی ماہ میں وہ ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، یقینا جو اس رات کے خیر سے محروم رہا وہ سب سے بڑا محروم ہے۔ ‘‘ [قد جاء کم شھر مبارک کتب اللہ علیکم صیاماً، فیہ تفتح أبواب الجنان وتغلق أبواب الجحیم وتغل فیہ الشیاطین، فیہ لیلۃ خیرٌ من ألف شھر من حرم خیرھا فقد حرم] (مسند احمدؒ:۲/۲۳۰۔ مصنف ابن ابی شیبہؒ:۳/۱۔ صحیح لغیرہ عند البانیؒ، تمام المنۃ:ص۳۹۵) 

 اسلافِ صالحین کا طرزِ عمل بھی یہ تھا کہ سال کے چھ ماہ تک دعا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ انہیں رمضان المبارک تک پہنچنے کی توفیق مرحمت فرمادے، اور سال کے بقیہ چھ ماہ اس دعا میں گزارتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے رمضان میں انھیں جن نیک اعمال وفرائض کی توفیق مرحمت فرمائی تھی، وہ اپنی بارگاہ میں قبول فرمالے۔

 رمضان المبارک خدائی برکتوں اور انعامات کا مہینہ ہے، یہ ایک ملاقاتی یا مہمان ہے جس کا اعزاز و اکرام اس کے شایانِ شان ہونا چاہیے۔ اس ماہ کو مہینوں کا سردار بھی کہا گیا ہے۔ نہ جانے کتنے اللہ کے نیک بندے ایسے تھے جنہیں امسال ماہِ رمضان المبارک کی آمد کا شدید انتظار واشتیاق تھا لیکن تقدیرِ الٰہی نے انہیں مہلت نہ دی اور وہ حسرت لیے لیے دنیا سے رخصت ہوگئے۔ 

ماہِ رمضان کا پالینا ایسی نعمت ہے جو شکر ِ الٰہی اور یادِ الٰہی دونوں کی مستوجب ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ ہم سب کو رمضان المبارک کا استقبال اپنے جملہ گناہوں اور کوتاہیوں سے توبہ کرتے ہوئے کرنا چاہیے۔ اس میں کثرت کے ساتھ قرآن کی تلاوت وتدبر، ذکر ِ الٰہی، دعا واستغفار، صدقہ واحسان اور نیکی ونفل عبادات کی انجام دہی پر زور دینا چاہیے۔ 

اوپر بتایا جاچکا ہے کہ جو اس مہینہ کی خیر وبرکت سے محروم رہا اس سے بڑا بدنصیب کوئی اور نہیں ہے۔اس ماہ میں کرنے کے چند  اہم کام ذیل میں اختصار کے ساتھ درج کئے جارہے ہیں:

  (۱) تمام عبادات و اعمال میں اخلاصِ نیت کا استحضاراور اس بات کی شعوری کوشش کہ روزے سے متعلق تمام فرائض اور سنتیں آنحضرتﷺ کی کامل اتباع میں انجام دی جائیں گی۔ 

  (۲) رمضان المبارک کے روزے اور عبادتیں ان کے جملہ ارکان وواجبات اورسنن وآداب کے ساتھ ادا کرنے کا اہتمام کرنا ہے۔ ساتھ ہی روزے کو باطل یا اس کے اجرو ثواب کوکم کر دینے والے کاموں سے مثلاً کذب بیانی، جھوٹی گواہی، غیبت اور لا یعنی تضییعِ اوقات وغیرہ سے مکمل پرہیز کرنا ہے۔ اس کا عزمِ مصمم ہونا چاہیے۔ 

  (۳) فقراء، مساکین اور ضرورت مند رشتہ داروں پر خوب خوب خیرات و صدقات کرنا ہے، اس میں دن رات، کھلے چھپے اور بتا کر دینے کی قیدنہیں ہے۔ ربِ کریم فرماتا ہے: {الَّذِیْنَ یُنفِقُونَ أَمْوَالَہُم بِاللَّیْْلِ وَالنَّہَارِ سِرّاً وَعَلاَنِیَۃً فَلَہُمْ أَجْرُہُمْ عِندَ رَبِّہِمْ وَلاَ خَوْفٌ عَلَیْْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُونَ} (البقرۃ:۲۷۴) ’’جو لوگ اپنے مال شب و روز کھلے اور چھپے خرچ کرتے ہیں، ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا مقام نہیں۔‘‘ 

  (۴) کثرت کے ساتھ قرآن کی تلاوت اور تدبر وتفکر کااہتمام کرنا ہے کہ یہی حاصلِ زندگی ہے۔ اسلافِ صالحین کی عادت تھی کہ رمضان المبارک کی آمد پر درس وتدریس سے فارغ ہوکر قرآن کی تلاوت وتدبر میں پوری طرح منہمک ہو جاتے تھے۔ 

  (۵) توبہ واستغفاراور مسنون اوراد واذکارکا بکثرت اہتمام کرنا ہے۔ 

  (۶) حتی الوسع روزے داروں کو افطار کرانا ہے۔ اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد ہے:جو کسی روزہ دار کو افطار کرائے تو اس کے لیے روزے دار کے برابراجر ہے، لیکن روزہ دار کے اجر میں اس سے کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ ‘‘ [من فطّر صائماً کان لہ مثل اجرہ غیر أنّہ لا ینقص من أجرالصائم شیئاً] (مسند احمدؒ:۴/ ۱۱۶۔ سنن ترمذیؒ:۸۰۴۔ سنن ابنِ ماجہؒ:۱۷۶۴) 

  (۷) قرآن کی تلاوت وتدبر اور اذکار و تسبیحات کی خاطر زیادہ سے زیادہ وقت مسجدوں میں گزارنا چاہیے۔ نبیﷺ کا معمول تھا کہ نمازِ فجر کے بعد سے طلوعِ آفتاب تک اپنی جگہ بیٹھے رہا کرتے۔ [کان اذا صلّی الغداۃ جلس فی مصلّاہ حتیٰ تطلع الشّمس] (صحیح مسلمؒ:۲۸۶) نیز حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا:جو شخص فجر کی نماز با جماعت ادا کرے اور طلوعِ آفتاب تک اللہ کا ذکر کرتا رہے پھر دو رکعت (چاشت) پڑھے تو اس کے لیے مکمل حج اور عمرے جیساثواب ہے۔ آپﷺ نے تین بار "مکمل مکمل مکمل" کہا تھا۔ [من صلّی الفجر فی جماعۃ ثمّ قعد یذکر اللہ حتی تطلع الشّمس، ثمّ صلّیٰ رکعتین کانت لہ کأجر حجۃ وعمرۃتامّۃ تامّۃ تامّۃ] (سنن ترمذیؒ:۵۸۳ مع تحسینِ البانیؒ) 

  (۸) دعا اور مناجات کا خصوصی اہتمام کرنا ہے۔ معلوم رہنا چاہیےکہ روزے دار کی دعا رد نہیں ہوتی۔ اس لیے ہر ایک کو چاہئے کہ اپنے لیے، اپنے والدین اور اہلِ خانہ کے لیے اور تمام امت ِ مسلمہ کے لیے کثرت سے دعائیں کرے۔ 

   (۹) ممکن ہو تو ضرور عمرہ ادا کرنا چاہیے کیونکہ اس ماہ میں ایک عمرے کاثواب حج کے برابر بتایا گیاہے، حدیث شریف میں آتا ہے کہ:رمضان المبارک کا عمرہ حج کے برابر ہے۔ [عمرۃ فی رمضان تعدل حجۃ] (صحیح بخاریؒ:۱۷۸۲) ۔ دوسری روایت میں اس حج کے مانند بتایا گیا ہے جو خود آنحضرت ﷺکی رفاقت میں ادا کیا گیا ہو۔ [تعدل حجۃ معی] (سنن ابی داؤدؒ:۱۹۹۰) 

  (۱۰) اعتکاف کا اہتمام کرنا چاہیے۔ اعتکاف کا مطلب ہے اللہ کی عبادت اور اطاعت کے لیے یکسو ہو کر کسی مسجد میں گوشہ نشیں ہو جانا۔ حضرت ابو ہریرہؓ بتاتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ ہر رمضان المبارک میں دس دن اعتکاف فرماتے تھے، لیکن جس سال آپﷺکی وفات ہوئی آپﷺ نے بیس دن اعتکاف فرمایا تھا۔ [کان النبیّﷺ یعتکف فی کلّ رمضان المبارک عشرۃ أیّام، فلمّا کا ن العام الّذی قبض فیہ اعتکف عشرین یوماً] (صحیح بخاریؒ:۲۰۴۴)

اللہ تعالیٰ جملہ اہلِ ایمان کو آنے والے اس بابرکت مہینے سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین۔ 

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔