Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, March 18, 2021

نوجوانوں ‏میں ‏قومی ‏شناخت ‏کا ‏مسلہ۔

                              تحریر
محمد خالد اعظمی ، شعبۂ معاشیات شبلی نیشنل کالج، اعظم گڈھ 
                              صدائے وقت۔
___________________________________________
وطن عزیز کے اندر موجود  تمام ذات برادری اور مذہبی اکائیاں، آزادی کے بعد سے ہی لگا تار ملک کے اندر اپنی علیحدہ  قومی شناخت ، دوسری  ذاتوں کے ساتھ یکجہتی و یگانگت ، اپنے سے الگ مذہبی اکائیوں کے ساتھ معاشرتی شمولیت اور اپنی مخصوص مذہبی شناخت پر اسرار کے سلسلے میں افراط و تفریط کے ساتھ ہی افتراق و انتشار کا بھی شکار رہی  ہیں ۔ یہ ہمارے ملک کی  ایک المناک حقیقت اور قابل افسوس روایت ہے کہ انفرادی اور اجتماعی ہر سطح پر  اپنی مخصوص قومی اور دستوری پہچان کو اجاگر کرنے اور اسے ملکی پیمانے پرمستحکم کرنے کے بجائے ، ہر  فرقہ اور  ذات  اپنی برادری، مذہب، علاقہ اور اعلی و ادنی ذات کی بنیاد پر ہی  اپنی تعارفی شناخت کو اجاگر کرنے اور صرف اسی بنیاد پر ملک کے سیاسی و معاشی  معاملات میں اپنی شمولیت کو یقینی بنانے پر سارا زور صرف کرتا رہا ہے ۔ ملک میں مستحکم ہوتی ہوئی ہندو احیا ء پرستی کے ساتھ سیاسی و مذہبی انتہا پسندی اور ملک کے موجودہ سیاسی منظر نامہ  میں ہر سطح پر بڑھتی ہوئی مسلم دشمنی کی جذباتی لہر پر سوار ہو کر مرکز میں موجودہ حکومت کی تشکیل اس حقیقت کی غماز ہے کہ  ملک کی اکثریتی آبادی کا ایک بڑا اور مخصوص  طبقہ اپنی جنونی مذہبی انتہا پسندی کی آڑ میں مسلمانوں سے بڑھتی ہوئی نفرت کو بر انگیختہ کرنے اور مسلم مخالف جذبات کو ہوا دینے میں مہارت حاصل کر چکا ہے ۔ وہی انتہا پسند طبقہ حکومت پر قابض ہو کر جہاں دستور ، مقننہ اور عدلیہ پر لگا تار دست درازی کرنے سے باز نہیں آرہا وہیں اس نظریہ کے متبعین بھارت میں مسلمانوں  و  دیگر کمزور طبقات کی علیحدہ شناخت کو بھی ختم کرنے کے  درپے ہے ۔ اس مقصد کے حصول کے لئے حکومتی عناصر ، افسر شاہی اور میڈیا کے ساتھ مل کر عدلیہ بھی  بھر پور شراکت داری اور اپنا ممکنہ تعاون لگا تار پیش کر رہا ہے ۔
دستور میں دیگر تمام مذہبی اکائیوں کے ساتھ مسلمانوں کو بھی تمام سیاسی و مذہبی آزادی کے ساتھ انہیں اپنی مخصوص شناخت کو قائم رکھتے ہوئے ، دیگر باشندگان ملک کے مساوی حقوق اور ان پر عمل درآمد  کی  دستوری ضمانت بھی حاصل ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ ،جمہوریت میں اکثریت کی آمریت ،کے اصول کے تحت اس ملک میں مسلمانوں کے لئے اپنے وطن کی زمین تنگ کردینے کا سلسلہ بھی آزادی کے بعد سے ہی لگاتار جاری ہے ۔ المیہ یہ ہے کہ تمام تر     دستوری حقوق ، مساوی مواقع ، سیاسی، معاشی و مذہبی تحفظ کی یقین دہانی ، تعلیم اور مذہبی آزادی کی ضمانت کے ساتھ  یہ  تلخ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ مسلمان اس ملک میں  دیگر برادران وطن کے مقابلے میں لگاتار ہر سطح پر پچھڑتے جارہے ہیں ۔  اعلی اور پیشہ ورانہ تعلیم کے مواقع، اعلی سرکاری اداروں کی رکنیت ، سرکاری ملازمت کے حصول میں پیچیدگی کے  ساتھ  ہی پولیس اور فوج میں بھی مسلمانوں کا تناسب لگا تار گھٹتا جارہا ہے ۔ مسلمانوں کی اس منصوبہ بند تنزلی کیلئے  حکومت اور  اسکے معاونین کی فرقہ وارانہ ذہنیت ، مذہبی انتہا پسندی اور  منصوبہ بند مسلم دشمنی ذمہ دار ہے ۔ حکومتی اداروں میں موجود نوکر شاہی و دیگر اعلی افسران ہی ملکی ترقی کی منصوبہ بندی اور اسکے نفاذ کے لائحہ عمل طے کرنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں ، اگر تمام ترقیاتی منصوبوں کا بلا امتیاز مذہب و ذات منصفانہ نفاذ  یقینی بنایا جائے تو کسی بھی ذات یا مذہبی اکائی کی قومی ترقی میں شمولیت اور اسکے نمو و ارتقاء میں کوئی دشواری یا امتیاز کرنا نا ممکن ہے۔ مسلمانوں کی معاشی و تعلیمی بد حالی کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ انہیں ملک کی  تعلیم ترقی میں اپنی شمولیت یقینی بنانے اور اپنی خدمات پیش کرنے کے لئے مناسب مواقع دستیاب ہونے میں لگاتار دشواریاں پیش آرہی ہیں ، بلکہ جان بوجھ کر ایک منصوبہ بند طریقے سے پیدا کی جارہی ہیں ۔ 

دوسری طرف خود مسلمان بھی من حیث القوم اپنی اس زوال پذیر سیاسی و معاشی حالت کے لئے  کم ذمہ دار نہیں ہیں- یہ حقیقت ہے کہ آزادی کے بعد سے  آج تک ، ستر سال سے زیادہ کے عرصے میں ،مسلمانوں کو لگاتار کمزور کرکے انہیں دوسرے درجہ کا شہری بنانے کی سرکاری اداروں منصوبہ بندی اور ہندو اکثریت کی بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی سے لڑنے کے لئے خود مسلمانوں نے  ترجیحی بنیادوں پر کوئی بھی منصوبہ بند لائحہ عمل اور دیر پا حکمت عملی اب تک تیار نہیں کی ۔ مسلمان بھی اس ملک میں دوسرے برادران وطن کی مانند ذات ،برادری ، مسلک اور علاقائیت کی بنیاد پر تقسیم در تقسیم کا شکار ہیں اور کسی مضبوط اور متحدہ شناخت کی تشکیل سے یکسر غافل اور نابلد بھی ہیں۔ حکومت اور اسکی ذیلی تنظیمیں اس ملک کے اندر مسلمانوں کا انجانا اور غیر حقیقی خوف دکھا کر ہندؤں کی تمام ذات، برادری اور فرقوں کو ہندتوا کے نام پر متحد کر چکی ہیں اور مسلمانوں کو دیوار سے لگا دینے کے لئے ماحول  بالکل تیا ر ہو چکا ہے لیکن مسلم قوم اور بالخصوص نوجوانوں کو مستقبل کے حالات کا کچھ اندازہ ہی نہیں اور وہ نوشتۂ دیوار پڑھنے سے قاصر اور گریزاں ہے۔ تعلیم، سیاست ، معاشرت ، معیشت غرضیکہ کسی بھی شعبہ حیات میں مسلمان بحیثیت مجموعی اپنی تعلیمی ، معاشی یا سیاسی ترجیحات طے کرنے ، اس کے لئے کوئی ٹھوس اور دیرپا  حکمت عملی تیار کرنے اور اس پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لئے ایک مربوط قابل عمل نظام وضع کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں ۔ اس پر طرفہ تماشہ یہ کہ اپنے زوال اور پس ماندگی کی تمام تر ذمہ داری حکومتی عناصر پر ڈال کر خود کو بری الذمہ سمجھ لینے کا مزاج مسلمانوں میں عام ہے۔ انفرادی طور پر کی جانے والی کچھ کوششیں اس سے الگ ہو سکتی ہیں لیکن بحیثیت مجموعی پوری قوم کے لئے تعلیمی و معاشی  خود کفالت اور امداد باہمی کے اصول پر اپنے مسائل حل کرنے کی تگ و دو بالکل نہ ہونے کے برابر ہے۔ پوری مسلم قوم اسوقت اپنے مسلک اور فرقے کی برتری ثابت کرنے ، اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر اور سب سے پہلے جنت میں داخلے کا پروانہ حاصل کر لینے اور باقی تمام اقوام عالم کے لئے  جہنم کے دروازے وا کرنے میں ہی اپنی ساری قوت و توانائی صرف کرنے میں لگی ہوئی ہے ۔ دنیاوی ترقی کے لئے دیرپا منصوبہ بندی، ہمہ گیر  و مستحکم تعلیمی نظام، عام انسانوں کی خدمت اور محروم عوام کو سہولت بہم پہچانے کے لئے ممکنہ اقدامات ، امداد باہمی کی بنیاد پر آپس میں ایک دوسرے کے مسائل کے حل کی حکمت عملی یا اس جیسے دوسرے اقدام و اعمال جو مسلمانوں کو دوسری اقوام سے ممتاز کر سکنے میں معاون ہو سکتے ہیں، مسلمانوں کی عملی زندگی سے بالکل غائب ہیں 

جو قومیں اپنی ترجیحات کے تعین کے لئے مستقبل کے  پیش آمدہ حالات کا اندازہ لگانے کے بجائے  ماضی کی حصولیابیوں اور بزرگوں کے کارناموں پر فخر کرنے کو ہی زندگی کا حاصل سمجھنے لگتی ہیں وہ اکثر اپنے مستقبل کے تئیں بے یقینی کی کیفیت کے ساتھ ہی اجتماعی حکمت عملی طے کرنے میں بھی افراط و تفریط کا شکار رہتی ہیں ، وقت اور ضرورت کے مطابق اپنے یا آنے والی نسلوں کے لئے کسی دور رس منصوبہ بندی اور لائحہ عمل کا تعین  نہیں کرپا تیں ،نیز  اپنی اخلاقی اقدار ، تہذیبی روایات اور مذہبی تشخص کی شناخت و پرداخت اور حفاظت کے بجائے کھیل کود ، لہو لعب ، ہنسی مذاق اور ٹھٹھول کو اپنی آزادی کا حاصل سمجھنے میں لگ جاتی ہیں ،ان سے حکومت و حکمرانی تو بہت دور  بلکہ زندہ رہنے کا حق بھی چھین لیا جاتا ہے۔ ہماری بدقسمتی اور نا اہلی ہے کہ ہماری موجودہ نوجوان نسل کا غالب حصہ اپنی ان تمام ترجیحات اور مستقبل کے لئے مربوط لائحہ عمل کی اس دیرپا منصوبہ بندی سے یکسرغافل ہے جو اسے ایک زندہ قوم بنانے اور معاشرے کے لئے کار آمد اور اسکا مفید ترین عنصر بنانے کے لئے درکار ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت کو معاشرتی  ترجیحات اور اجتماعی منصوبہ بندی کا پتہ ہی نہیں ہے ، ایسے میں ہم ملک کے اندر ان غالب قوتوں کا سامنا کیسے کر سکتے ہیں جو مسلمانوں کے وجود اور انکی قومی شناخت کو مٹانے کے لئے بھر پور اور منظم منصوبہ بندی کے ساتھ ہر طرح کی تیار ی سے لیس بیٹھے ہیں ۔ایسے ماحول میں یہ سوال اہمیت کا حامل ہے کہ مسلم قوم اور بالخصوص اسکے نوجوان قومی یا علاقائی سطح پر اپنی اجتماعی زندگی کی ترجیحات کو کسی طور پر بھی ایک منصوبہ بند طریقے سے طے کرنے اور اسے نافذ کرنے میں ناکام کیوں ہیں ؟   زندہ اور ترقی یافتہ قوموں کی معروف شناخت جیسے اجتماعی معاملات میں ایمانداری، ایفاء عہد، وقت کی پابندی ، قانون کا احترام ، امداد باہمی جیسی کچھ نشانی یا شناخت ہمارے نوجوانوں میں اب تک واپس کیوں نہیں آ سکی  ہیں ؟ پتنگ بازی، کھیلوں کے علاقائی مقابلے ، کرکٹ، والی بال کے ڈے ۔ نائٹ میچز مشاعرے اور بریانی و کباب ہی ہماری قومی شناخت کے طور پر ملک  بھر میں کیوں اور کب تک رائج رہینگے؟ اگر ان سب کا کوئی مثبت اور تعمیری جواب نہیں  ہے تو پھر اس تعلیمی پسماندگی ، معاشی پچھڑے پن، معاشرتی تغافل، اور اجتماعی تنزلی کا ٹھیکرا صرف سرکار اور ہندو توا تنظیموں کے سر پھوڑ کر ہم اپنی انفرادی و اجتماعی ذمہ داری سے لا تعلق نہیں رہ سکتے ۔ ذمہ داریوں کا  تعین اور حقائق کا ادراک ہی مستقبل کے لئے ترکیبی لائحہ عمل طے کرنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ بیشک انفرادی سطح پر تعلیم و معیشت کے میدان میں مسلم نوجوان آگے بڑھ رہے ہیں نیز قومی و  علاقائی سطح پر خدمت خلق کے شعبے میں بھی ایک نئی شناخت بنا نے کی کوشش کررہے ہیں، لیکن ابھی بھی یہ اتنا مکمل اور  منصوبہ بند نہیں ہے  کہ مسلم قوم اسے اپنی پہچان بنا سکے۔ بقول علامہ اقبال 
کبھی اے نوجوان مسلم تدبر بھی کیا تو نے  
وہ کیا گردوں تھا توں جسکا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا

قوم کی اجتماعی ترقی اور میدان عمل میں مسابقت کے لئے اداروں کا قیام اور ان کی منصوبہ بند ترقی نہایت ضروری ہے ۔ ہماری بدقسمتی کہیے یا حالات کی ستم ظریفی ، کہ ہمارے تمام ادارے اندرونی سیاست ، آپسی چپقلش اور گروہی مفادات کے داؤ پینچ کا شکار ہو کر اپنی ترقی کی تمام راہوں کو خود مسدود کئے ہوئے ہیں ۔ مسلمانوں کے چھوٹے بڑے اسکول ،کالج ، مدرسے اور جامعات اس گروہی اور ذاتی مفاد کی سیاست میں الجھ کر دام توڑ رہے ہیں لیکن کوئی پروان حال نظر نہیں آرہا ہے۔ معاشرتی زندگی کے  ساتھ ہر شعبہ عمل اور بطور خاص اپنے میدان کار کا عملی تصور ، اپنی ترقی کے لئے خاص  لائحہ عمل اور حقیقت پر مبنی تخیل ہر مسلمان نوجوان کے ذہن میں واضح رہنا چاہئے ، اور اسی بنیاد پر ہم اپنی قومی یا انفرادی ترجیحات کا تعین بھی کر سکتے ہیں۔ روٹی، کپڑا ، مکان ؛ تعلیم ، صحت ، اور ذرائع نقل و حمل اور مواصلات ہر انسان کی بنیادی ضرورتوں میں شمار کئے جاتے ہیں اور انکا حصول ہر انسان کے لئے ہر حال میں ضروری ہے لیکن ذرائع اور وسائل نا کافی ہونے کی وجہ سے انکا حصول اپنی ذاتی ضرورت اور خواہش کے مطابق صرف  تر جیہی بنیاد وں پر  ہی ممکن ہے ، اسی طرح سے ہر قوم اور قبیلے کی بنیادی ضرورتوں کے مطابق ان کی حصولیابی کے لئے ترجیحات کا تعین اور اسکے لئے دیرپا منصوبہ بندی کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ نہایت تکلیف دہ حقیقت ہے کہ اس ملک میں اپنی قومی شناخت اور عملی حیثیت کے استحکام کے لئے ترجیحات کے تعین میں مسلمان نہایت بد عملی کا شکار ہیں ۔مسلمانوں کی ملکیت کے عام تعلیمی اداروں کی بات ہو یا گلی محلوں میں مسلم عوام کی ذاتی مصروفیات کا مشاہدہ ہو، ہر جگہ مایوسی اور غیر یقینی کے ساتھ اپنے مسائل کے لئے دوسروں کو ذمہ دار گرداننے کا مزاج عام ہے ۔ جس طرح سے ہر  بڑے ادارے اور تنظیم کے دفتر کے باہر جلی حروف میں اسکا مشن اور ویژن لکھا ہوتا ہے ، اسی طرح سے ہمارے ہر نوجوان کا مقصد حیات اور نظریہ حیات بھی ہر وقت اسکے  ذہن میں تازہ اور واضح رہنا چاہئے ۔ اس وقت ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہماری  نو جوان نسل کو اس ملک میں اپنے شاندار ماضی اور اپنے اسلاف کی ان تابندہ خدمات اور قربانیوں کا بھی علم نہیں ہے  جنہوں نے اس سر زمین کو سونے کی چڑیا بنا دیا تھا اور جس کی طرف یوروپین اقوام للچائی نظروں سے دیکھ رہی تھیں ۔یہ ملک اور یہ سرزمین ہماری بھی ویسی ہی ہے جتنی اور جیسی دوسرے برادران وطن کی ہے ، اس حقیقت کو بار بار یاد کرنے اور  زندہ رکھنے کے لئے بھی یہ ضروری ہے کہ اس ملک کی سلامتی کے لئے  ہمارے اسلاف کی قربانیاں ، اسکی ہمہ جہت ترقی میں ہماری حصہ داری اور قومی اجتماعی خدمات کی پوری تاریخ ہمارے ذہنوں میں بالکل واضح رہنی چاہئے ، تاکہ اس ملک کی ہمہ جہت ترقی اور معاشی وسعت میں ہم اپنی حصہ داری سے غافل نہ ہوں اور دوسروں کو  ہماری شراکت داری پر سوال اٹھانے کا بھی موقع بھی نہ مل سکے  ۔لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ اس وقت اتحاد و اتفاق سے کوسوں  دور ، مسلکی ، مذہبی و ذات برادری کی بنیاد پر منقسم اور فروعی اختلافات میں گلے گلے ڈوبی مسلم  قوم  ابھی بھی اپنے مستقبل کے تئیں لا پروا اور کسی بھی طرح کی پائدار منصوبہ بندی سے یکسر محروم ہے ۔ کسی بھی قوم کی اجتماعی ترقی کے لئے انکے اندر اتحاد، یگانگت اور یکجہتی نہایت ضروری  اور قومی ترقی کی بنیادی شرط ہے ، ان صفات  کو قومی سطح پر بیدار کرنے اور اسے پروان چڑھانے کے لئے  ذاتی خواہشات کی قربانی اور انا نیت سے گریز کرتے ہوئے اجتماعی مفاد کو مقدم رکھنے کا جذبہ بنیادی شرط ہے ۔  اسی کے ساتھ ملک کے موجودہ سیاسی حالات ، مسلمانوں کی زوال پذیر اور کمزور تر ہوتی سیاسی ساکھ ، نیز ہندؤں کا بڑھتا ہو جارحانہ رد عمل  اس بات کا متقاضی ہے کہ مسلمانوں کو اس جمہوری ملک کی سیاست میں شمولیت اور حصہ داری کے لئے بھی اب ایک نئی حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے مسلم نوجوان نسل کو اس ملک کی سیاسی بازیگری میں اپنا مستقبل تلاش کرنے کے بجائے  تعلیم و ہنرمندی ، اپنے میدان کار کی عمدہ ترین صلاحیت اور خدمت خلق کے شعبے کو اپنا میدان  عمل بنانا  چاہئے ۔ اور یہی چیز  اس ملک میں ہمیں اپنا کھویا ہوا مقام واپس دلانے میں معاون ہو سکتی ہے ۔ بقول اقبال 
ملا کو جو ہے ہند میں سجدے کے اجازت 
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد 
اور اب ملکی حالات کو دیکھ کر تو لگتا ہے کہ سجدے کی اجازت بھی داو پر لگ سکتی ہے -
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
drkhalid2013@gmail.com