Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, March 28, 2021

محنت تیری زیادہ ہے کسی اور جہاں میں (۱)


از/امِّ ہشام/ممبئی /صدائے وقت 
+++++++++++++++++++++++++++++
امتحان کا نام سن کر ہی انسان کے اندر ایک بے چینی جاگ جاتی ہے، اچھّے اچھوں کے سر پر ٹینشن سوار ہوجاتی ہے ۔اور جب معاملہ بچوں کا ہو،تو پھراچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ ؛بچوں کے ساتھ ساتھ والدین اور سرپرستوں کا کیا حال ہوتا ہے
بالخصوص بات جب سالانہ امتحانات  کی ہو، دراصل ہمارے ساتھ معاملہ یہ ہےکہ ہم  ذمہ داریوں کے ادا کرنے میں پورا سال سست روی اور غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ اور پھر امتحان کے آٹھ دس دنوں میں سارا جگ جیت لینا چاہتے ہیں؛ لیکن یہ تو زندگی کا کلیہ ہے کہ “بیج بوئے ببول کے تو آم کہاں سے پائے “ـ
نتیجہ ہم اور ہمارے بچے مطلوب ومقصود کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوپاتے۔
ہم میں سے کچھ لوگ بچوں کے ساتھ محنت تو کرتے ہیں؛لیکن "ویسی" نہیں "جیسی" مطلوب ہوتی ہے۔
زیادہ تر لوگ بس ؛زبانی چیخ پکار،دھمکیوں سے بچّوں کو امتحان کی تیاریوں کیلیے آمادہ کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔جو کسی بھی لحاظ سے مناسب اور فائدہ مند نہیں ؛ آج کے اس مسابقاتی دور میں بھلاکامیاب ہونا کون نہیں چاہتا ؛ظاہرہے سبھی چاہتے ہیں۔ 
لیکن امتیازی اور منفرد کامیابی کی بات ہی کچھ اور ہوتی ہے،یہ وہ "کامیابی" ہے،جو اصولوں کی ڈگر پر چل کر ہی حاصل ہوپاتی ہے۔اور اس کےحصول میں سب سے اہم معاون کردار والدین اور سرپرست ادا کرنے والے ہوتے ہیں ـ
تو آئیے ایک منفرد کامیابی کی جّدو جہد میں اپنا رول ادا کرتے ہیں ـ یہاں بچوں سے پہلے والدین سے میری کچھ گذارشات ہیں:
(۱) سکونِ قلب :
جس کی خاطر آپ کو سب سے پہلے اپنی ساری تمنائیں اور امیدیں اللہ سے لگانی ہیں ـ نماز کی پابندی، مسلسل دعا مانگنے کےساتھ اس کی قبولیت پر یقین بھی رکھنا ہے اور کامل یقین رکھتے ہوئے اپنی بقیہ کوششیں بھی آپ کو جاری رکھنی ہیں، اس طرح آپ کی اپنی شخصيت پر اعتماد ہوگی اور ساتھ ہی اس کے اثرات بچوں پر مرتب ہوں گےـ
امتحان میں بچوں کی اچھی کارکردگی کےلیے سب سے پہلے آپ اپنا بلڈ پریشر نارمل رکھیں؛کیونکہ گر آپ نارمل ہیں،توظاہر ہے آپ کے ماتحت ساری چیزیں نارمل ہوں گی، خودبھی مطمئن رہیں، بچوں کو بھی تسلی دیں ـ
(۲)پریشر اور ٹینشن :
بچوں کے مارکس اور نتیجے سے متعلق اپنی امیدوں کو اعتدال میں رکھیں،سو میں سے سو لانے کے چکر میں خود کو اور بچوں کو ہلکان نہ کریں،نہ ہی ضرورت سے زیادہ دباؤ بنائیں-مثبت اور دوستانہ رویے سے ماحول کو ہلکا ہھلکا رکھیں، امتحان کے اسٹریس سے بچوں کو آزاد رکھیں، ساتھ ہی بچوں کے جذبے اور حوصلے کو بڑھاتے رہیں ـاسٹریس اورٹینشن سو بیماریوں کی تمہید ہوتے ہیں؛ اس لئے ہمیں اپنی اور اپنے بچوں دونوں کی صحت کا خیال رکھنا ہوگا-
(۳) یاد کرنے کے اوقات اور جگہ کا انتخاب :
بہت سے والدین عادت کےمطابق بچوں کو ایک بند کمرے یا الگ تھلگ کونے میں بٹھا دیتے ہیں ،تاکہ بچّے پر باہری ماحول اثر انداز نہ ہو۔اور ان کا بچہ یکسوئی سے اپنی پڑھائی کرسکے- در حقيقت یہ ایک غیر صحت مند عادت ہے، جس سے بچہ شور سے تو بچ جاتا ہے؛ لیکن یہ ضروری نہیں کہ بچہ اس تنہائی سے خاطر خواہ فائدہ اٹھائےـ بہتر نتائج کےلیے بچے کو بند کمرے کی جگہ کھلے اور ہو ادار کمرے، سیڑھیوں، کھڑکی کے کنارے یا چھت وغیرہ پر بٹھایا جاسکتا ہے، تازہ ہوا اور روشنی انسان کی طبیعت پر اچھے اثرات چھوڑتی ہے۔
اس طرح بچوں کی یادداشت خوش گوار انداز میں مضبوط بنے گی ـ
بچوں کو کس وقت پڑھنا ہےاور کیسے پڑھنا ہے؟
 یہ آپ پہلے بچوں کے ساتھ مل کر باہم  سمجھ لیں۔بغیر ان سے سمجھے ان پر اپنی مرضی نہ تھوپیں، انہیں جو بھی وقت مناسب لگے، انہیں اسباق  یاد کرنے یا اعادہ کےلیے اسی وقت پربیٹھنے دیجیے۔
 کیونکہ یاد انہیں کرنا ہے، امتحان ان کا ہے ہمارا نہیں ـ
خاص طور پر امتحانات کے دنوں میں پڑھنے کے ٹائم ٹیبل کو چینج مت کیجیے، جس وقت پرسارا سال بچہ پڑھتا رہا ہو، وہی وقت امتحان کے دوران باقی رہنے دیجیے،ہاں بس دورانیہ بڑھالیجیےـ
(۴)اپنا کردار متعین کرلیں :
اگر آپ یہ سوچتے ہیں کہ سال بھر آرام کرکے آپ امتحان میں بچوں سے ڈبل ڈیوٹی لے سکتے ہیں،تو یہ آپ کی غلط فہمی ہے، آج کی نسل ہم سے کہیں زیادہ اسمارٹ ہے، پھر کہیں ایسا نہ ہوکہ آپ جب بھی بچوں کو پڑھنے کی،یاد کرنے کی تاکید کریں بچے آپ کے سامنے یہ مقولہ دہرادیں: …a single sheet of paper cannot decide my future
لہذاآپ کو کمال ہوشیاری سے بچوں کی پڑھائی میں بےجا دخل اندازی نہ کرتے ہوئے کچھ الگ اور دوسرے طریقوں سے اپنے بچوں کی امتحان کی تیاری میں اپنا رول ادا کرنا ہے، یعنی ان سے ہارڈ ورک کی بجائے اسمارٹ ورک کروانا ہے۔پھر "بچے بھی خوش اور آپ بھی خوش" 
مثلا ہر ایک گھنٹے کی پڑھائی کے بعد بچوں کو پانچ سے سات منٹ کا وقفہ دیں۔ اور اس وقفہ  میں انہیں ہلکا پھلکا؛لیکن مقوی اور غذائیت سے بھرپور ناشتہ ضرور کروائیں ـ عموما لوگ تھکاوٹ  دور کرنے کےلیے چائے یا کافی کی طرف لپکتے ہیں، یہاں آپ کو مشروب دینا ہے۔
تازہ پھلوں کے جوس،ملک شیک یا کسی بھی ذائقہ  کا دودھ آپ کے بچوں کو دوبارہ تروتازہ کرنے میں معاون ہوگا۔
کٹے ہوئے پھلوں کی پلیٹ اور پانی کی بوتل بچوں کے پاس رکھ دیں -اچھی متوازن غذا کے ساتھ اچھی نیند سب سے زیادہ  ضروری ہے۔
اس لئے اپنے ساتھ ان کی نیند کا بھی خیال رکھیں ـ
اکثر یہی دیکھنے میں آیا ہےکہ بچوں پر امتحانات کے دوران خوب پابندی لگوائی جاتی ہے؛لیکن والدین خود اپنے شب وروز کی مصروفیات میں ذرّہ بھر تبدیلی کو تیار نہیں دکھائی پڑتے-
آپ کے لیے سب سے ضروری مشورہ یہ ہےکہ انٹرنیٹ کا استعمال خود بھی محدود کرلیں۔ اور بچوں کو بھی اس ڈسٹریکشن سے محفوظ رکھیں ـ مہمانوں کی آمدورفت کو کچھ دنوں کےلیے آرام دے دیں، تعطیل میں بھرپور ضیافت کیجیےـ 
تقاریب اور سیر سیاحت کو میوٹ پر لگادیں، چھٹیوں میں اس mode کو دوبارہ ایکٹیو کرلیجیے گا -دھیان بانٹنے والی چیزوں سے بچوں کو دور رکھنے کی کوشش کریں ـ
(۵)جادوئی لمس 
بچوں کی پڑھائی کے دوران بچوں کو تروتازہ رکھنے کےلیے ان کے سر پر ہاتھ پھیریے،گاہے بگاہے پوچھتے رہیے کہ انہیں یاد کرنے یا سمجھنے میں کوئی دقت تو پیش نہیں آرہی؟اپنا تھوڑا ساوقت,شفقت، پیار اور توجہ بچوں کو دیں،انہیں سمجھائیں اور اعتماد دلائیں کہ کامیابی کا یہی راستہ ہے،تم اس پر چلنا شروع کرو، ہم اس راہ میں ہر قدم تمھارے ساتھ ہیں -بچوں پر اعتماد کیا بھی جائے اور اس اعتماد کا اظہار بھی کیا جائے ـ
یقینا بچوں کےلیے والدین کے بھروسے سے بڑی کوئی دوسری تحریک نہیں-
پھر دیکھیں ان شاءا للہ وہ آپ کی امیدوں پر کھرا اتریں گےـ آپ کی کوئی ٹرک کام کرے نا کرے،یہ والی ضرور کام کرےگی-
بچوں سے غفلت برت کر،ان کا رزلٹ دیکھ کر اپنابلڈ پریشر بڑھانے کی بجائے یہاں امتحان کی تیاریوں میں ایک جاندار اور شاندار رول ادا کریں، اپنی زائد اور بےکار کی مصروفيات کو ترک کرکے اپنا قیمتی وقت بچوں پر وقف کیجیے،آپ کی اور آپ کے بچوں کی محنت ان شاءاللہ رنگ ضروررنگ لائےگی-