Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, March 7, 2021

اب مدرسوں میں رامائن اور گیتا پڑھائی جائے گی۔۔۔



از/ معصوم مرادآبادی/ صدائے وقت
+++++++++++++++++++++++++++++++++++
سرکارسے امداد یافتہ مدرسوں میں اب ہندو مذہب کی کتابیں پڑھائی جائیں گی اوریہاں پڑھنے والے طلباء کو 100فیصد ’ہندوستانی‘ بنایا جائے گا۔ اس کام کا آغاز وزارت تعلیم نے اپنے ماتحت ادارے این آئی اوایس سے کیا ہے، جو فاصلاتی تعلیم کے ذریعہ پرائمری، سیکنڈری اور سینئر سیکنڈری سطح کے طلبا کو رامائن، گیتا، سنسکرت اور یوگا کی تعلیم سے بھی آراستہ کرے گا۔ ہندو مذہب اور ثقافت کی اس تعلیم کا آغاز فی الحال 100مدرسوں سے کیا جارہا ہے جن میں 50 ہزار طلباء زیرتعلیم ہیں۔ مستقبل میں اس پروگرام کو 500مدرسوں تک توسیع دی جائے گی۔
 جب سے بی جے پی مکمل اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آئی ہے،وہ اس ملک کو ہندتو کے سانچے میں ڈھالنے کے ایجنڈے پربہت تیزی کے ساتھ کاربند ہے۔ یوں تو ملک کے تمام کلیدی شعبوں کو زعفرانی رنگ میں رنگا جارہا ہے، لیکن اس مشن میں تعلیم اور تدریس کے شعبوں کو خاص اہمیت دی جارہی ہے تاکہ طلباء کی ایک خاص نہج پر ذہن سازی کی جاسکے اور انھیں ہندتو میں ضم کیاجاسکے۔ ملک کا سیکولر نظام تعلیم تو پہلے سے ہی ہندتو کے زیراثر ہے، اب دینی تعلیم کے ان مدرسوں کی باری ہے جو اسلامی علوم اور شریعت کی تعلیم کے لیے مخصوص ہیں اور جہاں ان اسلام کی تعلیم دستور کی دفعہ25 کے تحت حاصل حقوق کے تحت دی جاتی ہے۔ دستور کی اس دفعہ میں ہر مذہب کے لوگوں کو اپنے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور ان میں اپنے مذہب کے مطابق تعلیم وتدریس کی آزادی فراہم کی گئی ہے۔لیکن موجودہ حکومت اپنے زعفرانی ایجنڈے کے تحت اقلیتوں کو حاصل دستوری تحفظ کو ہی ختم کرنے پر آمادہ ہے۔این آئی او ایس نے اس نصابی تبدیلی کا بنیادی مقصد طلباء کے اندر قدیم  ہندوستانی ثقافت کو جاگزیں کرنا بتایا ہے۔
انگریزی روزنامہ ’ٹائمز آف انڈیا‘ (3مارچ 2021)میں شائع شدہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مرکزی وزارت تعلیم کے ذیلی شعبے این آئی او ایس(نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوپن اسکولنگ)سے منسلک مدرسوں کے طلباء کے لیے ہندومذہبی کتابوں وید، مہابھارت اور گیتا وغیرہ پر مبنی نصاب تیار کیا جائے گا۔ یہ بنیادی کورس تیسری، پانچویں اور آٹھویں جماعت کے طلباء کے لیے ہوگا۔ واضح رہے کہ فی الحال این آئی او ایس سے ملک بھر میں تقریباً 100دینی مدارس منسلک ہیں جن میں 50ہزار طلباء زیر تعلیم ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس سے مزید500مدرسوں کو منسلک کیا جائے گا۔ اس ’کارخیر‘ کے لیے مغربی یوپی کے مدرسوں میں اپنا اثر ورسوخ رکھنے والی علماء کی ایک جماعت حکومت کی مدد کرنے پر آمادہ ہوگئی ہے۔ مذکورہ جماعت کے جنرل سیکریٹری نے حال ہی میں اس سلسلہ میں جو منصوبہ پیش کیا ہے، اسے گودی میڈیا نے خاص اہمیت دی ہے۔ 
آپ کو یاد ہوگا کہ پچھلے دنوں آسام اسمبلی میں ایک بل پاس ہوا تھا جس کے تحت سرکاری امداد یافتہ مدرسوں کی روایتی تعلیم ختم کرکے ان میں جدید تعلیم کا نصاب نافذ کیا گیا تھا۔ اس تبدیلی کا بنیادی مقصدیہ بیان کیا گیا تھا کہ اب مدرسوں کو دقیانوسی سوچ سے باہر نکال کر’مین اسٹریم‘کا حصہ بنایا جائے گا۔حکمراں جماعت کا خیال ہے کہ مدرسوں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کو بنیادپرستی اور شدت پسندی کی تعلیم دی جاتی ہے، لہٰذا انھیں اس سے نکال کر جدید تعلیم کی طرف لایا جائے تاکہ وہ’باعزت‘زندگی گزار سکیں۔عام طور پر مدرسوں سے فارغ  ہونے والے طلباء روزگار کے معاملے میں پیچھے رہ جاتے ہیں، اس لیے انھیں جدید تعلیم دلاکر بے روزگاری کا مسئلہ بھی دور کیا جاسکتا ہے۔ بظاہر دنیاوی طورپر یہ سوچ بڑی دلکش ہے اور اس میں ایک خاص قسم کی جاذبیت بھی ہے۔لیکن جاننے والے بخوبی جانتے ہیں کہ دینی مدرسے دراصل اسلام کی بقاء اور فروغ میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ جو طاقتیں اس ملک میں اسلام اور مسلمانوں کا نام ونشان مٹانا چاہتی ہیں، ان کی نظر میں مدرسے کانٹوں کی طرح چبھتے ہیں اور وہ پہلی فرصت میں انھیں ختم کرنا چاہتے ہیں۔ ظاہرہے ان مدرسوں کو جنھیں مسلمان خود اپنے صرفہ پر چلاتے ہیں، ختم کرنا آسان کام نہیں ہے۔لہٰذا اس کام کا آغاز سب سے پہلے ان مدرسوں سے کیا گیا ہے جو حکومت سے امداد یافتہ ہیں اور جن کی شکل وصورت تبدیل کرنا نسبتاً آسان ہے۔
این آئی او ایس کے چیئرمین سروج شرما کا کہنا ہے کہ”نئی تعلیمی پالیسی کے تحت ہندوستان کے روایتی علوم اور ہندوستانی ثقافت کو جدید سیاق وسباق کے ساتھ نئی نسل تک پہنچانے کی کوششوں کے تحت اس نصاب کو 100 مدرسوں میں شروع کیا جارہا ہے اور مستقبل میں اسے مزید500 مدرسوں میں توسیع دی جائے گی۔“واضح رہے کہ این آئی او ایس وزارت تعلیم کے ماتحت ایک خودمختار ادارہ ہے اور اس نے ہندوستان کے روایتی علوم کو فروغ دینے کے لیے ’بھارتیہ جننا پرمپرا‘ کے عنوان سے جن پندرہ کورسوں کا آغاز کیا ہے اس میں وید، یوگا، سائنس، سنسکرت، رامائن، بھگوت گیتا وغیرہ کی تعلیم دی جائے گی۔ یہ کورسز درجہ تین، درجہ آٹھ اور درجہ پانچ کے بچوں کو لازمی تعلیم کے طور پر پڑھائے جائیں گے۔ اس کے دائرے میں ان دینی مدرسوں کو بھی شامل کیا گیا ہے، جو این آئی او ایس کے ماتحت ہیں۔
مرکزی وزیر تعلیم رمیش پوکھریال نے این آئی او ایس کے ان نصابی کورسز کا اجراء کرتے ہوئے کہا کہ”این آئی او ایس نے ہندستان کی روایتی تعلیم پر مبنی نصاب تیار کرکے ہندستانی علوم وفلسفہ کو آسان اور عام فہم زبان میں پیش کرنے کی یہ کوشش سوامی وویکانند کے پیغام کو آگے لے جانے کے طور پر دیکھی جاسکتی ہے۔ وویکانند نے کہا تھا کہ ہمیں روایت کو نظر انداز نہ کرتے ہوئے مستقبل کا لائحہ عمل تیار کرنا چاہئے۔“پوکھریال نے مزید کہا کہ”یہ نصاب نئی تعلیمی پالیسی کے مساوات اور رسائی پر مبنی مقصد کو اجاگر کرتاہے۔ اس میں طلباء کے لیے قدیم علوم کے ساتھ وطن پرستی کے جذبات کو فروغ دینے پر زور دیا گیاہے۔“ انھوں نے کہا کہ ہم اس کورس کے فائدوں کو مدرسوں تک بھی پہنچائیں گے اور ہمارا ارادہ دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہندستانی کمیونٹی تک بھی اس کو فروغ دینے کا ہے۔انھوں نے کہا کہ”ہندوستانی ثقافت، ورثے، فلسفہ اور قدیم علوم کو جدید سیاق وسباق کے ساتھ نئی نسل تک پہنچانے کی این آئی اوایس کی یہ کوشش سنگ میل ثابت ہوگی۔“
 واضح رہے کہ این آئی اوایس فاصلاتی تعلیم اور اوپن ایجوکیشن کے توسط سے پرائمری، سیکنڈری اور سینئر سیکنڈری سطح کے کورس چلاتا ہے اور اس کے نصاب کو قومی اور صوبائی سطح کے بورڈبھی تسلیم کرتے ہیں۔اس کے یوگا سیکشن کے نصاب میں پتانجلی، یوگا، سوریہ نمسکاراورمختلف آسن بھی شامل ہیں۔اس سلسلہ کے ووکیشنل اسکل پروگرام میں گایوں کی دیکھ بھال، گایوں کے شیڈوں کو صاف کرنا اور طبی اصولوں کے تحت ان کی دیکھ بھال کرناوغیرہ کو بھی شامل کیا گیاہے۔مرکزی وزیر تعلیم رمیش پوکھریال کا کہنا ہے کہ نئی تعلیمی پالیسی 2020میں اس بات پر خاص زور دیا گیا ہے کہ ہمیں اپنی ہندوستانیت پر فخر ہونا چاہئے۔
مدرسوں میں رامائن پڑھائے جانے سے متعلق خبر کی اشاعت کے بعدحالانکہ وزارت تعلیم نے اس بات کی صفائی پیش کی ہے کہ این آئی او ایس سے منظورشدہ مدرسوں میں جہاں مختلف اختیاری کورس پڑھائے جاتے ہیں، ان پر کوئی دباؤ نہیں ہے کہ وہ فلاں کورس ہی پڑھیں۔ تاہم سینٹر برائے ایجوکیشن اور ریسرچ ٹریننگ(سی ای آر ٹی)نے اس پہل پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ انڈین نالج سسٹم کے تحت یوگا، سنسکرت، رامائن اور بھگوت گیتا کی تعلیم ہندوستانی ادب اور تاریخ کا یک طرفہ تصور ہے اور ہندوستان جیسی کثیر مذہبی اور ثقافتی وحدت کے لیے خطرناک ہے۔سینٹر کے ڈاٹریکٹر فواذ شاہین کا کہنا ہے کہ ”ہندوستانی علوم کو کسی ایک مذہب سے وابستہ کرنادستوری اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔“