Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, March 14, 2021

ٹکراؤ ‏سے ‏بچئے۔۔۔۔۔۔

                           صدائے وقت۔
تحریر / *مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ*
--------------------------------------------------------------------
دنیاوی زندگی کا جو نظام ہمیں اللہ رب العزت نے دیا ہے یہ روڈ وے (Roadway) کی طرح ہے ، رن وے (Runway)اور ریلوے (Railway)کی طرح نہیں، دونوں میں فرق یہ ہے کہ رن وے یعنی ہوائی پٹی اور ریلوے پٹری پر عموماکوئی چیز سامنے سے نہیں آتی، رن وے پر تو پرندے بھی پر نہیں مارتے، ریلوے پر کبھی کوئی جانور پٹری کراس کرتا ہوا آجاتا ہے، لیکن اس کی نوبت بھی کبھی کبھی آتی ہے، اس لیے رن وے اور ریلوے محفوظ زمرے کے راستے سمجھے جاتے ہیں، رن وے زیادہ اور ریلوے نسبتاً کم ، اس کے بر عکس روڈ وے یعنی سڑک پر ہر چہار طرف سے آمد ورفت رہتی ہے اور اگر ہوشیار ی نہ برتی جائے تو ہر پل حادثات منہہ کھولے کھڑے رہتے ہیں، اسی لیے ڈرائیور کو نصیحت کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ آپ بہت اچھے ڈرائیور ہیں، لیکن ضروری نہیں کہ آپ کے آگے پیچھے ، دائیں بائیں سے آنے والی گاڑیوں کا ڈرائیور بھی آپ ہی کی طرح اچھا ہو، اس لیے ہر طرف سے آنے والی گاڑی سے خود کو بچانا بھی آپ کی ذمہ داری ہے ، بچاؤ کا یہ عمل در اصل سائڈ مارنا ہے اور ممکنہ حد تک ٹکراؤ سے بچنا ہے ۔ 
ہماری زندگی کی شاہ راہ بھی انہیں اصولوں کی پابند ہے ، ہمہ وقت ہمارے سامنے مختلف حالات آتے رہتے ہیں، گھر سے لے کر باہر تک ایسے واقعات کا ہمیں سامنا کرنا پڑتا ہے، جو ہمارے دل ودماغ میں اشتعال کا سبب بنتے ہیں، ہمیں غصہ آتا ہے، اور ہم اس پر ری ایکٹ (React)کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں، اب اگر ہم سب سے ٹکراتے رہیں اور لڑنے بھڑنے کو اپنا مشغلہ بنالیں تو ہم کوئی تعمیری کام نہیں کر سکتے ، ہماری سوچ اور کار کردگی پر اس کا منفی اثر پڑے گا اور ہم اپنے دشمنوں کی تعداد میں غیر ضروری اضافہ کرتے رہیں گے ، جس سے ہمارا چین وسکون چھن جائے گا اور ہم خوش گوار زندگی گذارنے سے محروم رہ جائیں گے ، ایسے حالات میں کرنے کا کام یہ ہے کہ خوش اسلوبی سے اسے ٹال دیا جائے، ٹالنے کا عمل بزدلی نہیں، حکم الٰہی کی تعمیل ہے، اِدفَع بِالَّتی ھِیَ اَحْسَن اور وَاھْجُرھُم ھَجْراً جَمِیلا کا یہی مفہوم ہے، بلکہ قرآن میں اللہ رب العزت نے نا دانوں سے اعراض کا حکم دیا ہے ، وَاَعْرِضْ عِنِ الْجَاہِلِیْن۔
 اس کو مثالوں سے سمجھنا چاہیں تو بات آسان ہو جائے گی ، ایک بڑے عالم ربانی سے کسی بد تمیز نے کہہ دیاکہ آپ (نعوذ باللہ) حرامی ہیں، یہ بہت بڑی گالی تھی اور اس پر چراغ پا ہونا بھی فطری تھا ، لیکن اس بزرگ نے انتہائی تحمل سے جواب دیا کہ آپ کو کسی نے غلط خبر دی ہے، میرے والد کے نکاح کے گواہ تو اب بھی موجود ہیں، آپ کہیں تو میں ان سے آپ کو ملا سکتا ہوں، ایک بزرگ سے کسی نے کہا کہ آپ ٹخنے سے نیچے پائجامہ پہنتے ہیں، انہوں نے اس کے اس جملے پر کوئی نکیر نہیں کی، چپ چاپ کھڑے ہو گیے اور فرمایا کہ دیکھ لیجئے پائجامہ ٹخنوں سے نیچے نہیں ہے ، ایک بار مولانا ابو الکلام آزاد کی گاڑی سے دوسری گاڑی کی ہلکی ٹکر ہو گئی ، ڈرائیور مولانا کو پہچانتا نہیں تھا ، اس نے اتر کر گرجتے ہوئے کہا یو ایڈیٹ (You Ediat)مولانا بھی گاڑی سے اتر گئے ، فرمایا : اوہ !آپ نے پہچانا نہیں، میں ایڈیٹ نہیں ابو الکلام ہوں، یہ چند مثالیں ہیں جس سے سمجھا جا سکتا ہے کہ ’’ہجر جمیل‘‘ اور دفاع حسن اور احسن کس طرح کیا جا سکتا ہے، غالب کا مشہور لطیفہ ہے کہ گدہا آم کو سونگھ کر چھوڑے دے رہا تھا ، کسی نے کہا کہ دیکھا آپ نے گدھا بھی آم نہیں کھاتا، غالب کو آم بہت پسند تھا ، کہنے لگے : جی ہاں گدھا ہی آم نہیں کھاتا ، اکبربربل کے واقعات میں لکھا ہے کہ ایک بار سیر وتفریح کے درمیان جب دھوپ تیز ہوئی تو گرم کپڑے اتار کر اکبر اور ایک دوسرے آدمی نے بربل کے کاندھے پر ڈال دیا اورچلتے ہوئے اکبر نے کہا کہ بربل تمہارے اوپر ایک گدہے کا بوجھ ہو گیا ہے ، بربل نے ہنستے ہوئے کہا؛ جی نہیں حضور دو گدہوں کا بوجھ ، یہ ہے ہنستے ہوئے باتوں کو اچھے سے ٹالدینا ، ٹالنے کا یہ عمل کبھی تو حاضر دماغی سے ہوتا ہے اور کبھی علمی استحضار کی وجہ سے ، ہر آدمی اگر اپنی زندگی میں ٹالنے کے اس عمل کو اپنا شیوہ بنا لے تو گھر سے لے کر باہر تک کی زندگی پر سکون ہوجائے گی ،ٹالنے کے اس عمل کا پتہ اس روایت سے بھی چلتا ہے جب آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کرنے والے نے آپ کے لئے مذمم کا لفظ استعمال کیا ، صحابہ کرام کو سخت غصہ آیا ، آپ نے فرمایا کہ وہ مذمم کی ہجو کر رہے ہیں اور میں تو محمد ہوں۔ ایسے موقع سے کبھی دل کے ہیجان کوکم کرنے کے لیے ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف منتقل ہونا بھی مفید ہوتا ہے ، اس کی دلیل اسناد سے قطع نظر اس روایت میں ہے جس میں کہا گیا ہے کہ غصہ آئے تو کھڑا ہوا آدمی بیٹھ جائے، بیٹھا ہوا آدمی لیٹ جائے اور ٹھنڈا پانی پی لے، آپ کو ان میں سے جو طریقہ بھائے، اپنا لیجئے ، لیکن ہر حال میں ٹکراؤ سے بچئے۔(بشکریہ نقیب)