Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, March 5, 2021

اپنی صلاحیت اور طاقت کو پہچانیں مسلمان......:اشفاق رحمن : ‏

اپنی صلاحیت اور طاقت کو پہچانیں مسلمان:اشفاق رحمن : دوسروں کی جوتیاں سیدھی کرنے کی بجائے اپنی قطاروں کو درست کریں:جے ڈی آر

پٹنہ..in / صدائے وقت /  پریس ریلیز۔
+++++++++++++++++++++++++++++++++++
جنتا دل راشٹروادی نے مسلمانوں سے اپنی طاقت اور صلاحیت کو پہچاننے کی اپیل کی ہے۔جے ڈی آر نے کہا ہے کہ دوسروں کی جوتیاں سیدھی کرنے کی بجائے اپنی قطاروں کو درست کریں۔اپنی صلاحیت اور طاقت کو پہچانیں۔جنتا دل راشٹروادی کے قومی کنوینر اشفاق رحمن کا کہنا ہے کہ جو قومیں متحد نہیں ہوتیں اس کی جمہوریت میں کوئی گنتی نہیں ہوتی۔آج مسلمانوں کا وہی حال ہے۔ایک بڑی طاقت ہونے کے باوجود قوم سیاسی اور سماجی طور سے بے وقعت ہے۔جے ڈی آر لیڈر کا کہنا ہے کہ ہمیں آدیباسیوں سے سیکھنا چاہئے۔ 23 فیصد کی تعداد میں ہیں مگر سیاسی قوت دکھا کر جھارکھنڈ اسٹیٹ بنوا لیا۔چھتیس گڑھ بن گیا۔وے 50 فیصد بھی نہیں ہیں۔لیکن اپنی سیاسی ،سماجی بقا کو لیکر بیدار ہیں ،متحد ہیں۔انہوں جمہوریت کی طاقت کو سمجھا اور اسٹیت کے مالک ہیں۔ہمیں کوء اسٹیٹ کی ضرورت نہیں ہے۔جہاں ہیں،جیسے ہیں بہتر ہیں۔مگر سیاسی طاقت کے بطور متحد نہیں ہیں۔بہار میں ہم 17 فیصد ووٹر ضرور ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہماری آبادی 22 فیصد کے قریب ہے۔ (چونکہ 18 برس کے اوپر کے لوگ ہی ووٹر ہوتے ہیں )اس کے بعد بھی اپنی جمہوری طاقت کو ہم پہچاننے سے قاصر ہیں۔اپنی خود سری کے چکر میں ایک دوسرے کو ماننے کو آمادہ نہیں ہیں۔ظاہر سی بات ہے دوسروں کی جوتیاں ہی سیدھی کریں گے۔
اشفاق رحمن کا کہنا ہے کہ جو قوم متحد ہوتی ہے وہ نہ صرف اقتدار میں حصہ دار ہوتی ہے بلکہ ہر شرط منواتی ہے۔ تھوڑا نخرہ دکھانے پر وزارت دے دی جاتی ہے۔ اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہارے ہوئے ہیں یا جیتے ہوئے۔ انہیں بلا کر قانون سازیہ کی رکنیت دی جاتی ہے۔جبکہ مسلمانوں کے معاملہ میں ایسا نہیں ہوتا۔اسے سنجیدگی سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ہم اگر متحد ہو جائیں تو نہ صرف اقتدار کے مظبوط حصہ دار ہو سکتے ہیں بلکہ جمہوریت میں جیسے دوسری قوموں کو ترجیح دی جاتی ہے،ویسے ہی مسلمانوں کی بھی اہمیت ہوگی۔مگر ہماری بے حسی کا عالم یہ ہے کہ کوئی بنے،نہ بنے کوئی فرق نہیں پڑتا۔جس کی وجہ کر آج ہم نظر انداز کئے جا رہے ہیں۔اشفاق رحمن کہتے ہیں کہ ہمارے لوگ صرف بکنے کو تیار ہیں۔وہ بھی ماشاء اللہ بغیر قیمت کے۔پیٹھ پر ہاتھ رکھ دیا تو بک گئے،ایک تصویر کھینچوا لی تو بک گئے،دو دن اپنے گھربلوا لیا تو بک گئے اور اسی خوش فہمی میں اپنا وقت گزار دیتے ہیں 74 سال کی آزادی کے ہم کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔اس کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔جس طرح بغیر سر کے دھڑ کی کوئی اہمیت نہیں اسی طرح بغیر امام کے قوم کی کوئی اہمیت نہیں۔جب تک ہم امامت کبریٰ کو مضبوط نہیں کریں گے ہماری سیاسی عروج ممکن نہیں ہے۔اوکھلی میں سر ڈالنے کے بعد ہی پتہ چلے گا کی اوکھلی میں صلاحیت ہے یا سر میں۔ہارے یا جیتے قوم کو اس آزمائش سے گزرنا ہوگا۔