Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, March 11, 2021

ملک کا مسلمان حالات سے دوچار ،مستقبل کے لیے فکرمند* ‏

از / جاوید جمال الدین / صدائے وقت۔
+++++++++++++++++++++++++++++++++++
"ملک کے بیشتر علاقوں میں بھائی جان  جوحالات پیدا کیے جاچکے ہیں ،اُس کی وجہ سے ہم بچوں کے مستقبل کولیکر کافی فکر مند ہیں اور یہ سوچ رہے ہیں کہ وقت رہتے ہی نقل مکانی کرلیں ،کیونکہ ہماری زندگی  تو گزرچکی ہے ،لیکن بال بچوں کے محفوظ مستقبل کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم۔محفوظ مقام کی تلاش کریں۔ کیونکہ گنگا جمنی تہذیب اور بھائی چارہ کی باتیں کرنے والے اور دکھ سکھ میں شریک ہونے والے آہستہ آہستہ کم ہورہے ہیں اور ایک ایسا طبقہ پیدا ہوچکا ہے جوکہ پُر تشدد ذہنیت رکھتا ہے اورنئی نسل کے دل ودماغ میں منافرت اور تعصب کا بیچ بو دیا گیا ہے،اس لیے سوچ رہے ہیں ،کسی بڑے شہر یا محفوظ مقام کی طرف کوچ کرجائیں۔"
مذکورہ پیرا1947ء یا ممبئی اور احمدآباد فسادات کے دوران پیش آنے والے حالات پر لکھے جانے والے کسی افسانہ یا ناول کی سطریں نہیں ہیں بلکہ یہ سطریں آج کے حالات کی ترجمانی کررہی ہیں۔دراصل گزشتہ مارچ ،2020 کے وسط میں ،میں نے شمالی ہند کا آخری سفر کیا تھا،پھرکورونا کی وباء پھیلنے کے نتیجے میں صورت حال یکسر بدل گئی ،خود میرے خاندان میں عام بیماری سے کئی خاص لوگ انتقال کرگئے۔خیراُس کے بعدجب حالات معمول کے مطابق ہونے لگے تب پہلے دسمبر میں دو تین روز کے لیے اور پھرابھی گزشتہ ہفتے ہی دس روز کے لیے شمالی ہند اور خصوصی طور پرمغربی  اترپردیش کے کئی شہروں اور دیہی علاقوں کا دورہ کرکے واپس لوٹ آیا ہوں۔اس دورہ میں رشتہ داروں کی شادی وبیاہ میں شرکت بھی شامل رہی۔مندرجہ بالا جملہ میرے دماغ کی اپچ نہیں ہے ،بلکہ چھوٹے شہروں اور قصبوں میں رہائش پذیر مسلمانوں کے جذبات ہیں۔جس کی جانب کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے۔ماحول اور حالات تیزی سے بدل رہے ہیں اور تشویش بڑھتی جارہی ہے۔

ہم سبھی کے  سفر کے دوران اکثر ہمیں کئی تجربات سے گزرنا پڑتا ہے، اترپردیش اور راجستھان میں ایسی ایسی جلی کٹی باتیں سننے ملتی ہیں کہ خود کو بیگانہ محسوس کیا جاتا ہے،دراصل یہ سب کچھ ایک منصوبہ بند طریقہ سے عملی جامہ پہنایا جارہا ہے،ڈروخوف کے ماحول میں ہرروز اضافہ کیے جانے کا حربہ استعمال کیاجارہا ہے۔حال میں مغربی بنگال میں اسمبلی انتخابات سے قبل جس طرح کی فرقہ پرستی کو ہوادی گئی اور جس انداز میں قدآور لیڈروں نے منافرت کا کارڈ کھیلا ہے ،وہ اظہر من الشمس ہے۔ اس کے بعد کبھی کبھی  یہی محسوس ہوتا ہے کہ آئندہ عام انتخابات تک جمہوریت اور سیکولرازم کی طرف سے عام ہندوستانی کو نالاں کردیا جائے گا اورانہیں موجودہ جمہوری نظام سے منحرف بھی کردیا جائے۔

 ملک کا جائزہ لیاجائے تو نظر آرہا ہے کہ ذرائع ابلاغ کے ایک بڑے طبقے نے بس طے کررکھا ہے کہ  ملک میں قومی ہم آہنگی اور بھائی چارہ کو نیست ونابود کردیا جائے ،یہ ملک کا  المیہ ہے کہ جن لوگوں کو جمہوری نظام کو بچانے کے لیے اہم اقدامات کرنا چاہئیے تھا ،وہ اُس نظام حکومت کی دھجیاں اُڑارہے ہیں اور ایسے نظام کی وکالت کررہے ہیں جو ڈکٹیٹر شپ یا بھید بھاؤ کی بنیادوں پر قائم کیا جائے۔

جمہوریت کے بارے میں بقول علامہ اقبال ایک ایسا طرز حکومت ہے ،جہاں سروں کی گنتی ہوتی ہے۔لیکن انسانیت اور بھائی چارگی کی قدر تو رہتی ہے مگر ایک ایسی منصوبہ بندی کی گئی ہے کہ جمہوری ستون کہے جانے والے اہم ترین ادارے جن میں عدلیہ اور ذرائع ابلاغ بھی شامل ہیں ، آہستہ آہستہ ہتھیار ڈال رہے ہیں ،اور نہیں تو دباؤ کا شکار ہورہے ہیں۔برسراقتدار جماعت اور ان کے اعلیٰ رہنماؤں کے خلاف لب کشائی کرنا ،اوبال جان بن سکتا ہے اور کب غداری کا مقدمہ دائر کردیاجائے،اور سلاخوں کے پیچھے ڈال دیاجائے اُس کا پتہ بھی نہیں چلتاہے۔اُن کے ایجنڈے میں وہ کسی کو بھی حائل ہونے نہیں دینا چاہتے ہیں اور بس جمہوری نظام کے ڈھانچہ  میں تبدیلی کے حق میں ایسا نظام حکومت کو ترجیح دینے کے حق میں ہیں،جہاں اقلیتیں خصوصاً مسلمان اپنے پرسنل لاء  کو ترک کردیں یکساں سول کوڈ کوتسلیم کرلیاجائے۔حالانکہ ہمارے دستور کی بنیاد ہی کثرت میں وحدت پر رکھی گئی ہے ، آرایس ایس نے جو ایجنڈہ تیار کیا ہے اس پرنظر دوڑائی جائے تو تصویر نمایاں نظر آرہی ہے کہ مسلمانوں کو شک وشبہ کے دائرے میں کھڑا کیاجاچکا ہے اور نئے نئے قوانین کے استعمال کرکے بلکہ اُن پر آزما کر اُن کی اجتماعی طاقت کا جائزہ لیا جارہا ہے،اکثریت کو بدگمان کردیاگیا ہے اور فی الحال تو اُن کا پرسان حال کوئی نظر نہیں آرہاہے۔وقت کی پکار یہی ہے کہ اُس کے لئے سیکولر سیاسی پارٹیوں کا ساتھ کیا جائے بلکہ اُس  سے کہیں زیادہ اور عوام کو مضبوط قوت ارادی کے ساتھ کام کر نا چاہئیے۔اور یہ وقت کی ضرورت بھی ہے ۔ کیونکہ ملک سنگین ترین حالات سے دوچار ہے اور اُسے اس بھنور سے نکالنا ہے۔مایوسی اور عدم تحفظ کا شکار مسلمان کہیں کہیں ڈٹے ہوئے ضرور ہیں ،لیکن مایوسی کاشکار ہیں۔جوبزرگ تقسیم کے حالات کو دیکھ چکے ہیں اور وہ جواپنے بڑوں سے ان حالات کوسن چکے ہیں ،انہیں اپنی نئی نسل کے مستقبل کے لیے فکر لاحق ہے۔لیکن میں نے ان تشویشناک حالات میں یہ بھی پایا ہے کہ گزشتہ چند سال میں مسلمانوں نے حالات سے کوئی سبق نہیں سیکھاہے،مسائل کی اور دست وگریباں رہنے کی طویل فہرست ہے ،دراصل جس سفر کا میں نے ابتداء میں ذکر کیا ہے،اُس کے دوران میں نے  ایک شادی کی تقریب میں نکاح کے موقعہ پر کچھ تکرار دیکھی دریافت کرنے پر پتہ چلاکہ دلہن کے گھر والوں نے نکاح کے لیے جن قاضی صاحب کو مدعو کیا تھا ،دولہا والوں نے اُس سے نکاح پڑھوانے سے انکار کردیااور پھر دوسرے مسلک کے قاضی صاحب کو بلایا گیا،تب جاکر نکاح کی سنت پوری ہوئی۔ایسے واقعات تشویشناک ہیں اور ہمیں پتہ ہونا چاہیئے کہ یہ سب کچھ سنگھ کے ایجنڈے کا بھی حصہ ہے۔ مرکزی وزیر سبرامنیم سوامی برسوں قبل اس کا اظہار کرچکے ہیں کہ مسلمانوں کو مسلکوں جے خانے میں بانٹ دیا جائے اور وہ اس طرح اپنے انجام کو پہنچ جائیں ۔سو ان حالات سے نمٹنے کے لیے ہمیں اپنی صفوں کے انتثار کو بھیختم کرنا ہوگا۔تب ہی مستقبل کی فکرمندی کو دورکیاجاسکے گا۔ورنہ حالات ٹھیک نہیں ہیں اور موسم کروٹ بدل چکاہے۔
 جاوید جمال الدین

.