Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, April 30, 2021

آج وہ گئے ، محسوس ہوتا ہے کل ہماری باری ہے. ‏. ‏. ‏. ‏. ‏

از /ڈاکٹر سکندر علی اصلاحی. /صدائے وقت 
+++++++++++++++++++++++++++++
ان اللہ علی کل شیء قدیر
بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہر شیء پر قدرت و اختیار رکھنے والا ہے ۔
کل نفس ذائقۃ الموت
ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے یعنی موت کے مرحلے سے گزرنا ہے
ولا تقنطوا من رحمۃاللہ
اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہونا 
ان اللہ حکیم علیم
یقیناً اللہ تعالیٰ حکمت والا اور علم والا ہے یعنی اس کا ہر فیصلہ علم اور حکمت پر مبنی ہوتا ہے ۔جو ہم نہیں جانتے
مسلسل موت کی خبروں نے پوری فضا کو سوگوار کردیا ہے ۔ ہر چہرہ اداس اور ہر آنکھ اشکبار یا نمدیدہ ہے ۔کون کس کی اور کس سے تعزیت کرے ۔ ہر شخص تعزیت کا مستحق ہے اور کب کس کی تعزیت کرنی پڑے ، کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔
آج وہ گئے ، محسوس ہوتا ہے کل ہماری باری ہے ۔
یہ تو یقین کامل ہے کہ موت بہر حال اپنے متعین وقت پر آۓگی اور کس حالت میں آۓ گی یہ بھی لکھا ہوا ہے ۔
ابھی کل مؤرخہ 29 اپریل کو صبح پروفیسر عبید اللہ فراہی کی رحلت کا غم برداشت کیا ۔ بعد نماز ظہر تین تدفین سے فارغ ہوۓ تھے کہ قبرستان ہی میں اطلاع ملی کہ جماعت اسلامی ہند لکھنؤ کے قدیم کارکن اور مجھ سے بڑی محبت کرنے والے جناب عبدالرؤف قریشی صاحب سابق مینیجر یونین بینک کپور تھلہ برانچ لکھنؤ سیریئس ہیں اور وینٹیلیٹر پر رکھنے کی تیاری ہورہی ہے ۔ کسی طرح رات گزری کہ صبح گیارہ بجے اطلاع ملی کہ ہم سب کی محبوب اور ہر دلعزیز شخصیت پروفیسر ڈاکٹر غفران احمد فلاحی صاحب بھی رخصت ہوگیے ۔ انا للہ وانا الیہ رجعون ۔
اس طرح ڈاکٹر کوثرعثمان صاحب پروفیسر میڈیسن ڈپارٹمنٹ کے جی ایم یو لکھنؤ کو دوہرا غم برداشت کرنا پڑا ۔ ابھی دس روز قبل ان کی والدہ محترمہ کا انتقال ہوا تھا اور اب ڈاکٹر غفران احمد فلاحی کی وفات کا جو آپ کے بہنوئی تھے ۔اللہ تعالیٰ تمام مراحل کو آسان کرے ۔ہمت و حوصلہ دے کہ آئندہ بہت سارے فرائض کو انجام دینے کی ذمہ داریاں سر پر آگئی ہیں ۔ ہر حال میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ ، توکل اور اس سے مضبوط تعلق ہی ہماری متاع حیات ہے ۔ وہ مسبب الاسباب اور بگڑی بنانے والا ہے ۔
میں 1990  میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پہنچا تھا ۔ ابتدا میں چند ماہ میرا قیام حکیم محمد عارف اصلاحی صاحب کے روم نمبر 99 سرسید ہال ساؤتھ میں رہا  جو ان دنوں طبیہ کالج مسلم یونیورسٹی سے بی یو ایم ایس کررہے تھے اور کالج میگزین و ہال میگزین کے ایڈیٹر بھی تھے ۔ نہایت شریف ، منکسر المزاج ، خلیق اور نفیس طبیعت شخصیت کے مالک ہیں ۔میرا بہت خیال رکھتے اور ہمیشہ میری ضرورت پوری کرتے ۔
وہاں بہت سارے لوگوں کا آنا ہوتا اور ہر وقت رونق سی رہتی ۔یہ جناب طارق احسن فلاحی ، جلیس احمد ، شمیم الرحمن فلاحی ،محمد ہارون زہری ، جناب ابو نصر ، جناب اطہر احسن مستقیمی ، جناب محی الدین آزاد ، برکت اللہ ندوی ،محمد عثمان قاسمی اور بے شمار احباب و رفیق جو عارف بھائی کے کچھ سینئیر ،کچھ جونئیر اور بیشتر  کلاس فیلوز اور دوست ہوتے ۔
انہیں میں ایک روشن جبیں اور خوبصورت شخصیت جناب غفران احمد فلاحی کی تھی جو اکثر عارف بھائی کے ساتھ رہتے ۔ آتے جاتے ملتے جلتے میں بہت جلد ان سے مانوس ہوگیا ۔ شمشاد مارکیٹ میں اسٹوڈینٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا کا آفس تھا ۔ تقریباً ایک سال تک میری ذمہ داری تھی ، میں شام کو لائیبریری کھولتا ، صاف صفائی کرتا ،کتابوں کو الماری سے نکالتا اور قرینے سے لگاتا ۔ وہاں اکثر پابندی سے آنے والوں میں دیگر دوست ، احباب ،کرم فرما ؤں میں غفران بھائی بھی ہوتے ۔ ذمہ دار ،سنجیدہ ، متحرک ،فعال ، نماز کے پابند ، بڑی محبت اور اپنائیت سے ملتے ۔ خیر خیریت معلوم کرتے ، کبھی کبھی شمشاد مارکیٹ میں ڈھابے پر ساتھ چاۓ پیتے ۔ کیا خوشگوار دن تھے ۔میں بھی بالخصوص عارف بھائی اور غفران بھائی کے ساتھ تصویر محل ڈھابے پر کھانا کھانے اور ریلوے اسٹیشن پر منگل داس کی چاۓ پینے شوق سے بلا تکلف جاتا ۔ بلاتکلف اس لیے کہ معلوم تھا کہ مجھے کچھ بھی پیمنٹ نہیں کرنا ہے ۔ یہ سینئر تھے اور خوشحال بھی ۔
غفران بھائی سے آہستہ آہستہ بڑا گہرا تعلق ہوگیا ۔ تنظیم کی طرف سے مجھے ذمہ داری دی گئی کہ روزآنہ کسی نہ کسی ہال میں فجر کی نماز ادا کروں اور اس سے پہلے متعلق تحریکی احباب  کو بیدار کروں ۔ نماز کے بعد مختصر درس یا تذکیر کرنا بھی میرے ذمہ تھی ۔غالبا یہ ذمہ داری میری تربیت کے نقطۂ نظر سے دی گئی تھی ،چنانچہ آج تک میری عادت بلکہ فجر سے کافی پہلے اٹھنا ، ٹہلنا اور نماز ادا کرکے چاۓ ناشتہ کرنا معمول بن گیا ۔ بھلے ہی دوسرے اوقات میں سستی ہوجائے مگر فجر میں تو بڑا لطف آتا ہے ۔یہ تحریک اسلامی کا فیض ہے ۔ اس دور میں غفران بھائی نے کہا کہ جب آپ وقار الملک  وی ایم ہال آئیں تو مجھے بھی جگادیا کریں ۔ چنانچہ میں سالم بھائی ، نثار فلاحی صاحب ، خالد صاحب ،عبداللہ دانش بھائی، ارقم بھائی ، مونس بھائی اور غفران بھائی کو جگاتا ۔ کچھ لوگ پہنچتے اور کچھ لوگ دیر میں پہنچتے ۔مگر غفران بھائی پابندی سے پہنچتے،درس میں شریک رہتے اور مجھے اصرار کرکے اپنے روم پر لے جاتے ، خود چاۓ بناتے ،پیتے اور پلاتے ۔ چار پانچ روز پہلے خبر ملی کہ غفران بھائی کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہے اور علی گڑھ سے لکھنؤ میدیکل یونیورسٹی میں شفٹ کیے جارہے ہیں جہاں ان کے قریب ترین عزیز ڈاکٹر کوثرعثمان صاحب ہر دلعزیز شخصیت کے مالک ،مقبول معالج ہیں ۔
بالآخر آج ان کا جنازہ دیکھ کر تیس سال پرانی فلم کی اسکرین چلنے لگی ، ان کا انداز ، ان کا صاف ستھرا لباس ، ان کی دلپزیر گفتگو ،ان کے قہقہے ، سائیکل اور بعد میں اسکوٹر پر دوڑنا بھاگنا سب یاد آرہا ہے ۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم سب لوگ جدا ہوگیے ۔ کوئی کہیں اور کوئی کہیں اپنے اپنے میدان کار میں مصروف ہوگیے ۔کبھی کبھی ، کہیں کہیں کچھ بچھڑے لوگوں سے ملاقات ہوجاتی ہے ۔غفران بھائی سے بھی ہوتی تھی ، بڑی اپنائیت سے ملتے اور کبھی یہ محسوس نہ ہوا کہ وہ اب کسی اعلی عہدے پر فائز ہیں ۔ ہمارے لیے تو وہی نوے کی دہائی والے غفران بھائی تھے ۔ آج وہ وہاں چلے گئے جہاں سب کو جانا ہے ۔اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے ،ان کے درجات بلند کرے اور أہل خانہ بیوی بچوں اور متعلقین کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین ۔
غم گسار  ڈاکٹر سکندر علی اصلاحی لکھنؤ  9839538225