Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, April 1, 2021

’’مرض بڑھتا گیا، جوں جوں دوا کی‘‘

از/ڈاکٹر فیاض احمد (علیگ)
dr.faiyaz.alig@gmail.com
(قسط 2)
                    صدائے وقت 
=============================
اس وقت پورے ہندوستان میں دو طرح کے پڑھے لکھے مستند ڈاکٹر موجود ہیں ۔ایک تو وہ جوگائوں،دیہات،قصبات یا پھر شہر کی جھوپڑ پٹیوں میں محض کلینک تک محدود ہیں دوسرے وہ جو بڑے ہاسپٹل اور نرسنگ ہوم چلاتے ہیں ۔دونوں کی اپنی الگ الگ ضروریات اور مجبوریاں ہیں، جن کے تحت دونوں ہی مریضوں کے ساتھ زیادتی کے مرتکب ہوتے ہیں۔
دیہی علاقوں میں لوگ ہر طرح کی خدمات پرہنسی خوشی فیس دیتے ہیں لیکن کوئی ڈاکٹر اگر فیس لیتا ہے تو اس سے برا کوئی نہیں ہو سکتا،حتی کہ پڑھے لکھے افراد بھی گائوں دیہات میں ڈاکٹر کو فیس نہیںدینا چاہتے۔اس کا نتیجہ یہ ہو تا ہے کہ ڈاکٹر بھی مریض کے تئیں ایماندار نہیں رہ پاتا ۔ایسی صورت میں کچھ مستند ڈاکٹر بھی پیشہ ورانہ بد دیانتی کے مرتکب ہو تے ہیں۔ البتہ ان میں جو ایماندار ہوتا ہے ،وہ ایسی کوئی دوا نہیں دیتا جس سے مریض کو کسی قسم کا نقصان ہو سکے ۔ لیکن وہیںدو سری طرف کچھ مستند ڈاکٹر ایسے بھی ہیں جو جانے انجانے میں محض پیسوں کے لالچ میں مریض کو ایسے انجکشن اور دوائیں دیتے ہیں ،جو مریض کی صحت کے لیے نقصان دہ تو ہو،لیکن فوری طور پر محسوس نہ ہواور وہ ان کی دوائوں کا ایساعادی ہو جائے کہ بار بار انہیں کے پاس آنے پر مجبور ہو، اور کسی دوسرے ڈاکٹر کی دوا اسے فائدہ ہی نہ کرے ۔ اس مقصد کے لئے یہ لوگ غیر ضروری طور پر Steroids ، Anabolic Steroids اوردو دو تین تین اینٹی بایوٹکس کے ساتھ ہی دیگر دواؤں کا بھی(زیادہ ڈوز)Overdoseاستعمال کرتے ہیں۔ ایسے ڈاکٹروں کو
            ڈاکٹر فیض احمد (علیگ)
نہ تو معاہدہ بقراطیہ کا پاس ہوتا ہے، نہ ہی قرآن وحدیث کی تعلیمات کا لحاظ ہو تا ہے ۔بڑی حیرت اس وقت ہوتی ہے جب کچھ مسلم ڈاکٹر (سب نہیں)جو نماز روزہ کرتے ہوئے ،باقاعدہ اسلامی وضع قطع میں بیٹھ کر اس طرح کی گھٹیا پریکٹس کرتے ہیں۔کرسی پر بیٹھ کر دن بھر دھوکہ اور فراڈ کرتے ہیں ۔ اگر ان کو دولت کمانے کے لیے دن بھر دھوکہ اور فراڈ ہی کرنا ہے تو مذہب کا چولا پہن کرنماز روزہ کا دکھاواکیوں کرتے ہیں ؟ نماز تو برائیوں سے روکتی ہے ’’ان الصلوۃ تنہیٰ عن الفحشاء و المنکر۔‘‘ لیکن جب نفس لوامہ مر چکا ہو اور نفس امارہ حاوی ہو تو نماز روزہ کے باوجود مردہ ضمیر بیدار نہیں ہوتا ۔کسی غلط کام پر ان کا ضمیر انہیں جھنجھوڑتا نہیں ،بلکہ اس غلط کام کی تائیداور جواز فراہم کرتاہے۔یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگوں کو اپنے اصل رازق یعنی خدا کی ذات پر بھروسہ نہیںہوتا وہ خدا کی ذات پر یقین کے بجائے اپنی تدابیراور چالبازیوں پر یقین رکھتے ہیں ۔
دوسری طرف بڑے ہاسپٹل بالخصوص بڑے شہروں کے کارپوریٹ ہاسپٹل ہیں، جن کا باوا آدم ہی نرالا ہے ۔وہاں جس طرح کی لوٹ کھسوٹ ہوتی ہے، اس سے ہر شخص واقف ہے ۔ان کارپوریٹ ہاسپٹلز میں غریب مریض تودور کی بات ، مڈل کلاس بھی اپنا علاج نہیں کروا سکتا اور اگر کبھی مجبوری میں جانا پڑ گیا تو گھر بار بکنا لازمی ہے۔آج کل کورونا کی جانچ اور علاج کے نام پر جو گورکھ دھندہ چل رہا ہے، اس سے بھی ہر شخص واقف ہے ۔خوف اور دہشت کا یہ عالم ہے کہ سنگین اور پیچیدہ امراض میں بھی لوگ بڑے ہاسپٹل میں جانے سے صرف اس لئے گھبراتے ہیں کہ کہیں کورونا پازیٹیو نہ کر دیے جائیں اور پھر ان کے اوپر تجربات شروع ہوجائیں ۔اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ کورونا کے نام پر ہونے والی بیشتر اموات کورونا سے نہیں، بلکہ دیگر مختلف امراض کے باعث یا پھر مختلف ادویات کے تجربہ کے نتیجہ میں ہو رہی ہیں ،جن کی تفصیل میں جانے کا یہ موقع نہیں ہے۔ مزید برآں ! کورونا کے علاج کے نام پر بڑے ہاسپٹلز کے لاکھوں کے بل کی ادائیگی بھی ،غریب اور مڈل کلاس آدمی کے بس میں نہیں ہے۔ ان حالات میں مسلم مریض جائے تو جائے کہاں ؟ 
اس وقت صحت کے لئے سب سے بڑا خطرہ اینٹی بایوٹکس (Antibiotics)کا بے جا استعمال ہے اور روز بروز اس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔جی ہاں !وہی اینٹی بایوٹکس جو میڈیکل سائنس کی شان اور شناخت ہے اور جس کے وجود میں آنے کے بعد بیشتر متعدی امراض کا علاج آسان ہو گیا ہے۔ وہی اینٹی بایوٹکس اب انسانوں کے لیے بے اثر ثابت ہو رہی ہیں ۔اس کی سب سے بڑی وجہ ان اینٹی بایو ٹکس کا بے دریغ، غلط اور بے جا استعمال ہے ۔کوئی بھی اینٹی بایوٹک کسی بھی تعدیہ میں اسی وقت تک کارگر ثابت ہوتی ہے، جب اسے مخصوص مرض میں ،متعینہ مقدار میں اورمعینہ مدت تک دیاجائے ۔اگر اسے متعینہ مقدار سے کم یا زیادہ دیا جائے یا معینہ مدت سے کم استعمال کیا جائے تو اس اینٹی بایوٹک کے خلاف جراثیم کے اندر قوت مزاحمت (Résistance) پیدا ہو جاتی ہے ۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس جرثومہ کے خلاف اس اینٹی بایوٹک کا اثر یا تو کم ہو جاتا ہے یا پھروہ بالکل بے اثر ہو جاتی ہیں۔ اس کے بعد دوبارہ تعدیہ ہونے کی صورت میں یا تو اس کی مقدار خوراک بڑھائی جائے یا پھر اس کے ساتھ ہی دوسری اینٹی بایوٹک کا اضافہ کیا جائے یا پھر ایف ڈی سی (Fixed Dose Combination)(ایسی دوا جو کئی دوائوں کا مرکب ہو) زمرے کی اینٹی بایوٹک کا استعمال کیا جائے۔ اس قسم کی دوائوں کا استعمال وقتی طور پر مفید ضرور ہوتا ہے، لیکن وہیں اس کے ضمنی اثرات بھی دوگنا ہو جاتے ہیں او ر قوت مزاحمت پیدا ہو جانے کی صورت میں ایک وقت ایسا آتا ہے کہ یہ دو ائیں بھی بے اثر ہو جاتی ہیں اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘ ۔یہی وجہ ہے کہ ہر سال ہزاروں افراد صرف اینٹی بایوٹکس کی قوت مزاحمت کی وجہ سے تمام وسائل کے باوجود ہلاک ہو جاتے ہیں ۔اس قوت مزاحمت کا سب سے زیادہ بچے اور بوڑھے شکار ہورہےہیں اس لیے کہ ان کی قوت مدافعت (Defence Power )اور قوت مناعت (Immunity) پہلے ہی سے کمزور ہوتی ہے اور اینٹی بایوٹکس کی قوت مزاحمت کے باعث کوئی بھی انفیکشن کنٹرول نہیں ہوپاتا اور نتیجتاً وہ ہلاک ہو جاتے ہیں۔چنانچہ ہر سال صرف ہندوستان میں تقریباً ۵۸۰۰۰ بچے مختلف قسم کے انفیکشن میں مبتلا ہو کر صرف اس لیے فوت ہو جاتے ہیں کہ ان کے انفیکشن میں کوئی بھی اینٹی بایوٹک کارگر نہیں ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اب پوری دنیا میں لوگ متبادل طریقہ علاج (Alternative Medicine) بالخصوص یونانی اور آیوروید کی طرف مائل ہو رہے ہیں اور ان متبادل طریقہ علاج کی مقبولیت میں مستقل اضافہ ہو رہا ہے ۔
ہندوستان میں اینٹی بایوٹکس کی بڑھتی ہوئی قوت مزاحمت(Résistance) کا معاملہ پہلی بار ۲۰۰۸؁ میں دلی میں سامنے آیا تھا، جو پوری دنیا کے لئے ایک سنگین مسئلہ بنا ہوا ہے اور دنیا کے تمام ممالک اس سے پریشان ہیں، لیکن ہندوستان میں یہ مسئلہ روز بروز سنگین ہوتا جارہا ہے، اس لئے کہ ہندوستان میں اینٹی بایوٹکس کا استعمال سب سے زیادہ ہوتا ہے، حتی کہ معمولی نزلہ زکام اور وائرل فیور میں بھی، جہاں اینٹی بایوٹکس کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی، وہاں بھی بے دریغ اینٹی بایوٹکس کا استعمال کیا جاتا ہے ۔ سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ہندوستان میں سب سے زیادہ اینٹی بایوٹکس ایف ڈی سی (Fixed Dose Combination)زمرے کی استعمال کی جاتی ہیں۔ ایف ڈی سی زمرے کی دوائوں کا مقصددوائوں کی تعداد اور اس کی قیمت کو کم کرنا تھا، چنانچہ کچھ سنگین ،پیچیدہ اورمتعدی امراض جیسے ٹی بی، ایڈز وغیرہ میں، ایف ڈی سی زمرے کی دوائیں ہی سستی اور کارگر ثابت ہوتی ہیں، لیکن جنرل پریکٹس میں، غیر ضروری طور پر ایف ڈی سی زمرے کی دوائوں، بالخصوص اینٹی بایوٹکس کا استعمال عموماً نقصان دہ ہو تا ہے ۔جنرل پریکٹس میں ان دوائوں کی Safety اور Efficacy کو دیکھتے ہوئے ،قانونی طور صرف ہندوستان ہی نہیںبلکہ پوری دنیا میں بہت سی ایف ڈی سی زمرے کی دوائیں ممنوع (Banned) قرار دے دی گئی ہیں ۔ بین الاقوامی طبی جریدہ دی لانسیٹ (The Lancet) کے مطابق، ۱۰ ،مارچ، ۲۰۱۶کو ہندوستان سرکار نے تقریباً ۳۳۰ ایف ڈی سی زمرے کی دوائوں پر فوری طور سے پابندی عائد کر دی تھی، لیکن بڑا المیہ یہ ہے کہ ہندوستان میں تمام تر قوانین اور پابندیوں کے باوجودبہت ساری قومی و بین الاقوامی کمپنیاں اس طرح کی ایف ڈی سی دوائیں دھڑلے سے بنا رہی ہیں اور دولت کے حریص ڈاکٹر اس طرح کی دوائیں بیچ رہے ہیں ۔ طبی جریدہ دی لانسیٹ کے مطابق ا یف ڈی سی زمرے کی۱۱۸ /اینٹی بایوٹکس ہندوستان میںبنائی اور بیچی جا رہی ہیں جن میں سے ۸۰ دوائیں(۶۸ فیصد) سینٹرل ڈرگس اسٹینڈرڈ کنٹرول آرگنائزیشن (Central Drugs Standard Control Organisation) میں رجسٹرڈ نہیں ہیں، یعنی مذکورہ ادارہ کی اجازت کے بغیر بنائی اور بیچی جا رہی ہیں ۔جبکہ ایف ڈی سی زمرے کی دوائوں کو بنانے کے لئے مذکورہ ادارہ سے اجازت لینا ضروری ہوتا ہے۔ اینٹی بایوٹکس کے بے دریغ استعمال کی اس روش پر اگر قابو نہ پایا گیا تو یقیناً ایک دن ایسا آئے گا کہ تمام تر سہولیات اور وسائل کے باوجود متعدی امراض کا علاج نا ممکن ہو جائے گا۔ (جاری)