Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, April 16, 2021

مالیگاؤں، پائندہ باد

 از ـ محمود احمد خاں دریابادی /صدائے وقت. 
+++++++++++++++++++++++++++++
     آج پھر مالیگاوں پر لکھنا ہے، ممبئی سے پانچ چھ گھنٹے کی دوری پہ واقع مالیگاوں محنت کش افراد کی اکثریت والا یوں تو ایک اوسط درجے کا شہر ہے، مگر اس کی کچھ خصوصیات ایسی ہیں جو اسے دوسرے شہروں سے ممتاز کرتی ہیں ـ چونکہ مسلم اکثریتی علاقہ ہے اس لئے سرکاری بے توجہی کا شکار ہونے کے ساتھ ہماری جو اجتماعی ملی کمزوریاں ہیں وہ یہاں بھی پائی جاتی ہیں، مگر ان کا ذکر پھر کبھی !
    ویسے مالیگاوں کی اپنی ایک مخصوص زبان ہے جو یوپی بہار کی بھوجپوری اور مقامی بولیوں سے مل کر بنی ہے اور آس پاس کے ان تمام علاقوں میں بولی جاتی ہے جہاں اس طرح کے محنت کشوں کی آبادی ہے ـ یہاں کے لباس کی بھی اپنی خصوصیت ہے میں جو غور کیا ہے وہ بتاتا ہوں، ........... پینٹ اور شرٹ آج کل عالمی لباس بن چکا ہے، عموما یہ لباس پہننے والا نوجوان طبقہ پینٹ کے اوپر جو شرٹ پہنتا ہے اس کا دامن پینٹ کے اندر کرکے پہنتا ہے جس کو " اِن کرنا " کہا جاتا ہے، مگر مالیگاوں کی وہ خصوصیت جس کا میں نے مشاہدہ کیا ہے یہ ہے کہ عام طور پر یہاں شرٹ کو " ان " کرکے نہیں پہناجاتا بلکہ اس کا دامن باہر ہی رہتا ہے، سڑک پر آپ کو اگر " ان کئے ہوئے " کوئی نوجوان نظر بھی آجائے اس سے معلوم کرلیں وہ یا تو مہمان ہوگا یا کہیں باہر سے اپنے کسی کام کے سلسلے میں مالیگاوں آیا ہوگا ـ
     مساجد و مدراس کی کثرت، علماء و حفاظ کی بڑی تعداد، صحافت، سیاسی وسماجی خدمات کے لئے کئی نامور شخصیات،  ملکی ایڈمنسٹریش کے مقابلہ جاتی امتحانوں میں ملت کو متعدد کامیاب افراد عطاکرنے والا اور اردو شعر وادب کے میدان میں کئی مہر وماہ دینے والا یہ شہر اپنی ملی حمیت اور قومی غیرت کے لئے بھی جانا جاتا ہے ـ
   یاد کیجئے مالیگاؤں میں جب کچھ شرپسندوں نے دھماکے کرائے تھے جس میں مسلمانوں کا ہی جانی ومالی نقصان ہوا تھا اور مسلم نوجوانوں کو ہی اس کا ذمہ دار قرار دے بے گناہ لوگوں کو پکڑا گیا تھا اُس وقت تمام مسالک و مکاتب فکر کے سرکردہ افراد نے مشترکہ جدوجہد کے لئے ایک جماعت تشکیل دی تھی،  تمام اہالیان مالیگاوں نے نہ صرف اس اتحاد کی ستائش کی بلکہ ہر ممکن تعاون سے بھی نوازتے رہے، یہ جدوجہد اب بھی جاری ہے اور مکمل انصاف ملنے تک انشااللہ جاری رہے گی ـ ............ یوں تو ایسے دھماکے ملک کے متعدد شہروں میں ہوئے تھے، وہاں بھی مسلم بے گناہوں کو اسی طرح گرفتار کیا گیا تھا مگر بلا تفریق مسلک تمام مسلمان اس ظلم کے خلاف متحد ہوکر سامنے آئے ہوں ایسی مثال کہیں دوسری جگہ شاید ہی ملتی ہو ـ 
     لاکڈاون میں مساجد کے کھلنے کا معاملہ بھی دین سے محبت اور قومی حمیت کو ظاہر کرتا ہے، اس پر میں نے چند دن قبل ایک تحریر لکھی تھی، وہ تحریر عام ہوئی، شاید مجھ سے ہی یہ غلطی ہوئی کہ میں اپنی بات  عام فہم انداز میں سمجھا نہیں پایا اور ایک تنازعہ کی شکل بن گئی، اب اس تنازعہ مزید کریدنے کے بجائے موجودہ صورت حال پر صرف یہ عرض کرتا ہوں کہ مجھے خوشی ہے کہ حکمت اور مصلحت کے ساتھ  انتظامیہ کو اپنا مقابل بنائے بغیر بیشتر مساجد میں اچھا کام ہورہا ہے، یہی میری بھی خواہش تھی،  مزید تفصیل مناسب نہیں ـ
    آج کی تحریر کے مقصد پر آنے سے پہلے ذرا ایک سال پہلے والے لاکڈاون کی صورت حال یاد کرلیجئے،  کرونامالیگاوں میں بری طرح پھیلا ہوا تھا، مریضوں کی کثرت کے پیش نظر اسپتالوں کی قلت ہوگئی اس لئے مریضوں آس پاس کے شہروں میں منتقل کرنے کی ضرورت آپڑی، ............ مگر ہوا کیا تھا؟ ......... آپ پاس کے شہروں نے مالیگاوں باسیوں کے اپنے شہر میں داخلے پر پابندی لگادی، سڑکوں پر کانٹے دار تار بچھادئے گئے، ہر قریبی شہر جیسے دھولیہ، احمدنگر اور ناسک وغیرہ کی طرف سے آنے والے راستے بند تھے، مالیگاوں کے باشندے ایک کھلی جیل میں گویا مقید ہوگئے، راستے بند ہونے کی وجہ سے شہر میں ضروری اشیاء اور دواوں کی قلت ہوگئی، کرونا میں کام آنے والی اینٹی بائیٹک دواوں کے ساتھ عام دوائیں، شوگر کے مریضوں کے لئے انسولین تک کی قلت ہوگئی تھی ........  مگر آفریں ہے اہالیان مالیگاوں کے حوصلے پر اور وہاں کے معالجین کی محنت پر، بیشتر معالجین نے رات دن کام کیا، خصوصا یونانی کے بی یو ایم ایس ڈاکٹر جو مالیگاوں میں ہزاروں کی تعداد میں ہیں ان کی خدمات بھی آب زر سے لکھنے قابل ہیں ـ
   اب ایک سال بعد منظر نامہ بدلا ہوا ہے، وہ آس پاس کے شہر جہاں اہل مالیگاوں کے داخلے پر پابندی تھی، ایمبولینس گاڑیاں واپس کی جارہی تھی، کہا جاتا ہے کہ علاقے سے منتخب بی جے پی ممبر پارلمنٹ سبھاش بھامبرے نے اعلان کرارکھا تھا کہ مالیگاوں سے کسی کو آنے نہ دیا جائے، بلکہ مرکزی حکومت کو خط لکھ کر تجویز بھیجی تھی کہ سرکاری طور پر مالیگاوں کو آفت زدہ علاقہ قرار دے کر اس کی سرحدیں سیل کردی جائیں تاکہ بیماری آس پاس کے دیگر علاقوں تک نہ پہونچے ـ .......... آج آس پاس کے ان ہی علاقوں ہیں بیماری شدت سے پھیل گئی ہے، اسپتالوں میں بستر کی قلت ہے، مالیگاوں الحمدللہ محفوظ ہے،.........  اب آس پاس کے وہی لوگ علاج کے لئے مالیگاوں آرہے ہیں، احمد نگر، دھولیہ، ناسک، پونہ، منماڑ، جلگاوں بھساول بلکہ آٹھ آٹھ نو نو گھنٹے کا سفر کرکے لوگ اپنی گاڑیوں سے پہونچ رہے ہیں، ........ مالیگاوں کے معالجین، اسپتال، چھوٹے شفا خانے اور عام شہری بھی ان بیماروں کا استقبال کررہے ہیں، ہر طرح کی سہولت پہونچائی جارہی ہے، وہاں کے گلی محلے کے ڈاکٹروں جن میں بڑی تعداد بی یو ایم ایس معالجین کی ہے  نے بھی اپنے دواخانوں کے قریب تین چار بستروں کا انتظام کررکھا ہے تاکہ وہ مریض جو سنگین حالت میں نہیں ہے ان کا علاج کیا جاسکے ـ .............  علاج بھی انتہائی سستا کیا جارہا ہے، عام طور پر اس طرح کے مریضوں پر پرائیویٹ دواخانوں میں جو خرچ ہوتا ہے اس کے ایک چوتھائی سے بھی کم خرچ پر یہاں کے نجی دواخانوں میں علاج ہوجاتا ہے ـ
    اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ برادران وطن جو محض ایک سال پہلے تک مالیگاوں باشندے کو اپنے یہاں داخل نہیں ہونے دیتے تھے اب مسلمانوں کے احسان مند ہیں بلکہ پیر چھوتے ہیں، انقلاب میں مالیگاوں کے نمائندے مختار عدیل کی رپورٹ آنے کے بعد میں نے ابھی کچھ دیر قبل ان سے بات کی تو انھوں نے بتایا کہ صورت حال کچھ ایسی ہے کہ مسلمانوں جیسی شکل رکھنے والا کوئی عام آدمی اگر اپنے ذاتی کام سے بھی اسپتال پہونچتا ہے تو کوئی نہ کوئی وطنی بھائی اس کا پیر چھونے والا ضرور اس سے ٹکرائے گا ـ
   یہ وہی بات ہے جس کو قران کریم نے صدیوں پہلے واضح فرمادیا تھا کہ برائی اور بھلائی ایک جیسی نہیں ہوسکتی، اگر تم برائی کا بدلہ بھلائی سے دوگے تو تمھارا جانی دشمن بھی جانثار جگری دوست بن جائے گا ............ آگے قران نے یہ بھی فرمادیا ہے کہ ایسا سلوک ہر ایک کے بس کا نہیں بلکہ وہی کرسکتا ہے جس کے اندر صبر و ضبط کے ساتھ دور انیشی اور بلند نگاہی ہو ـ
    آج ملک کے ہولناک حالات میں اگر ہم ظلم وستم، تعصب اور بے توجہی سے بھری ہوئی اس زہریلی فضا کو اپنے حق میں گلزار نسیم  کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں قران کی اسی تعلیم پر عمل کرنا ہوگا ـ یہی آج کی تحریر کا مقصد ہے ـ
    مالیگاؤں کو ایک بار پھر سلام  !