Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, May 10, 2021

لنک نہیں جناب؛ سسٹم فیل ہوگیاہے


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تحریر.......................... 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار و اڈیشہ و جھارکھنڈ
                     صدائے وقت. 
==============================
آپ حضرات کے ساتھ بارہا ایسا ہوا ہوگا کہ آپ بینک کی لائن میں لگے ہیں،بینک کا رکن کہدیتا ہے کہ لنک فیل ہے، اسی طرح ٹکٹ رزوریشن کاؤنٹر پر آپ کو بتایا جاتا ہے کہ لنک فیل ہے،آپ یا تو انتظار کرتے ہیں یا اگر لمبی مدت تک لنک فیل رہا تو واپس ہوجاتے ہیں، ان دنوں کرونا کے دور میں لنک نہیں پورا سسٹم فیل ہوگیاہے،نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ سپریم کورٹ کہتا ہے کہ آکسیجن کی فراہمی میں جو رکاوٹ بنے وہ کتنا بڑا آدمی  کیوں نہ ہواس کو لٹکا دیا جائے، سپریم کورٹ یہ تنبیہ بھی کررہا ہے کہ انتظامیہ سخت فیصلے لینے پر مجبور نہ کرے، مدراس ہائی کورٹ کا کہنا ہے کہ کورونا کی دوسری لہر الیکشن کمیشن کی وجہ سے آئ ہے، اس پر اف آئی آر درج کیا جائے، کمیشن جب اس رولنگ کو بدلوانے کے لئے سپریم کورٹ کا رخ کرتا ہے تو سپریم کورٹ مشورہ دیتا ہے کہ اسے تلخ گھونٹ سمجھ کر پی جائیے، ظاہر ہے عدالت کی یہ مداخلت حکومت کی مشنری کے ناکام ہونے کی واضح دلیل ہے، دہلی حکومت سات سو میٹرک ٹن آکسجین مانگتی ہے، وہ مل نہیں پارہا ہے، کنٹینر آکسجین سے بھرا موجود ہے؛لیکن اسپتال تک نہیں پہونچ رہا ہے، کئ دن کے مطالبہ کے بعد ایک دن سات سو میٹرک ٹن دہلی کو  آکسجین ملا تو اروند کیجریوال کو دوسرے دن کی فکر ہے، وہ کہتے ہیں مجھے ہر روز اتنی مقدار میں آکسجین چاہیے، صرف ایک دن نہیں، عدالت کا فیصلہ آتا ہے کہ ہر دن اتنی مقدار میں فراہمی کو یقینی بنایا جائے، اسپتال کا حال یہ ہے کہ مریضوں کے نام کاٹ دئیے جاتے ہیں اگر وہ اپنے طور پر آکسجین کا انتظام نہیں کرپاتے، سسٹم اس قدر فیل ہو گیا ہے کہ اسپتال کے باہر مریضوں کی بھیڑ ہے، اندر بیڈ نہیں، باہر آکسجین کی نالی لگاۓ ہوۓ لوگ پڑے ہوئے ہیں، مرجاتے ہیں تو شمشان گھاٹ میں لکڑیوں کی فراہمی پر جھگڑے ہورہے ہیں، اسپتال میں داخل ہونے سے زیادہ انتم سنسکار کے لیے مارا ماری ہے اور وہاں بھی چوبیس گھنٹے سے زیادہ کا انتظار ہے، قبرستان میں گورکن قبر کھود نہیں پارہا ہے، ظاہر ہے وہ بھی انسان ہے کتنی قبر کھود سکتا ہے، دوتین قبر کھودتے کھودتے بے حال ہوجاتا ہے، چنانچہ قبرستان کی انتظامیہ جے سی بی کی مدد لے رہی ہے، وہاں بھی انتظار کے مرحلے سے گزر نا پڑتا ہے، جو لوگ مر گئے،ان کی لاشوں کو لے جانے کے لیے ایمبولنس نہیں ہے، سوشل میڈیا پر بہت ایسی تصویریں وائرل ہو رہی ہیں، جن میں لوگ لاشوں کو سائکل، ٹھیلہ اور رکشہ پر لے جاتے نظر آتے ہیں، سسٹم فیل ہونے کی وجہ سے سرکاری عملہ بھی کچھ نہیں کرپارہا ہے، عدالت میں جو بیانات حکومت دے رہی ہے،عدالت خود اس کی توثیق کرتی ہے تو وہ بیانات غلط اور جھوٹے ثابت ہوتے ہیں، آخر پورا حکومتی نظام کیوں فیل ہوگیا؟ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سائنس دانوں نے جو دوسری لہر آنے کی بات کہی تھی اس کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا، ہم نے ایک سال میں کورونا سے لڑنے کے لیے جو تیاری کرنی چاہیے تھی وہ نہیں کی، حکومت کی ساری توجہ سیاسی داؤ پیچ اور انتخابات پر لگی رہی،پارلیامنٹ میں اس کی توجہ  قوانین بنا کر اپنی قوت ثابت کرنے پر رہی،حکومت کا سرمایہ مورتیوں کے نصب کرنے، پارلیامنٹ کی جدید تعمیر اور کنبھ میلے کے انعقاد پر لگتا رہا، یہ دولت اگر کورونا کے مقابلے پر لگائ جاتی تو سسٹم کبھی فیل نہیں ہوتا، حکومت کی توجہ اس طرف نہیں ہوئ تو کالا بازاری کرنے والوں کی بن آئی ، آکسجین کے سلنڈر بازار سے غائب ہوگئے؛جن لوگوں نے ذخیرہ کررکھا ہے وہ تیس سے چالیس ہزار تک ایک ایک سلنڈر کی قیمت لے رہے ہیں، کورونا کے مرض میں استعمال ہونے والی دواؤں کی فراہمی کی ذمہ داری بھی مریضوں کے تیمار دار پر ہے، کہیں سے لائیے، نہیں لائیے تومریض کو مرنے دیجئے والی کیفیت ہے،انگریزی دواؤں کے ساتھ ہومیوپیتھک دوائیں بھی مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہیں، پرائیویٹ ڈاکٹر مریضوں کو دیکھا کرتے تھے، سب نے اپنے کلنک بند کردئیے ہیں، کورونا نہیں، ٹائی فائڈ ہی ہےتو بھی علاج کے لیے وہ دستیاب نہیں ہیں؛ کیوں کہ انہیں بھی اپنی جان عزیز ہے، جو دوچار شہر میں دستیاب ہیں ان کی فیس آسمان کو چھو رہی ہے، جو پرائیویٹ نرسنگ ہوم ہیں ان کے یہاں آئ سی او کا ریٹ دوگنا تین گنا ہوگیا ہے، وینٹی لیٹر کی پورتی بھی نہیں ہورہی ہے، پی ام کیر فنڈ سےجن کمپنیوں کو وینٹی لیٹر بنانے کا ٹنڈر دیا گیا تھا وہ اتنی تعداد میں وینٹی لیٹر بناکر فراہم نہیں کرا سکے، غریب مریض جاۓ تو کہاں جاۓ، ادھر پپو یادو نے راجیو پرتاب روڑھی کے امور ٹھکانے پر چھاپہ مار کر درجنوں ایمبولنس کا ذخیرہ دکھا یا ہے؛ جو سب ام پی فنڈ سے خریدے ہوئے ہیں اور ان کے مکان کے پچھلے حصہ میں جھانپ توپ کر رکھے گئے ہیں، ظاہر ہے یہ ایمبولنس سرکاری ہیں اور ان کا استعمال اس وقت کثرت سے ہونا چاہیے؛لیکن وہ چھپا کر رکھے گئے ہیں،راجیو پرتاب روڑھی  سابق وزیر ہیں، بی جے پی کے ام پی ہیں ، ایک ایسے وقت میں جب انہیں سہولتیں فراہم کرنی چاہیے،ایمبولنس کے ذخیرے پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں،  ظاہر ہے اس کی وجہ سے مقدمہ ام پی پر ہونا چاہیے،؛ لیکن اف آئ آر پپو یادو پر درج ہوا ہے ایسے میں سسٹم کو فیل ہونا ہی تھا سو ہوگیا۔
حکومت کو مرض کی طرف توجہ کا خیال اس وقت آیا جب کنبھ ختم ہوگیا اور پانچ ریاستوں کے انتخاب کے ساتھ یوپی کے پنچایت چناؤ بھی نمٹ گئے، اب رات کا کرفیو لگایا جا رہا ہے، دن میں لاک ڈاؤن ہورہاہے، پولس سختی سے اسے نافذ کرانے کے لیے ڈنڈے کی بارش کررہی ہے؛جو کرونا سے بچا ہوا ہے وہ پولس کے ڈنڈے سے زخمی ہوکر اسپتال پہونچ رہا ہے، حکومت اپنا سرمایہ غیر ضروری کاموں پر خرچ کررہی ہے اور باہر سے مدد لے رہی ہے، جو مدد آرہی ہے وہ بھی ضرورت مندوں تک نہیں پہنچ پارہی ہے؛ خبر یہ بھی ہےکہ سعودی سے جو آکسیجن گیس کا ٹینکر آیا اس پر انبانی کے ریلائنس کی پٹی لگا دی گئی،اس کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو ایک سعودی شہری نے ٹویٹ کیا کہ بھائی اسٹیکر کسی کا لگادو ؛لیکن جان مریضوں کی بچالو۔
اس سسٹم کو پھر سے پٹری پر لانے کے لیے عدلیہ نے جو اقدامات کئے ہیں اور جو آئینہ سیاست دانوں کو دکھایا ہے، وہی ایک حل ہے، جس سے کورونا مریضوں کو راحت پہونچائ جاسکتی ہے، عدالت نے اس کام کے لیے جو بارہ نفری نیشنل ٹاسک فورس بنائی ہے، اس نے ایمانداری سے کام کیا تو سسٹم بحال ہوسکتا ہے، لیکن ساری کوشش کے باوجود اس کے بحال ہونے میں وقت لگے گا، کسی کے پاس علاؤالدین کا چراغ نہیں ہے کہ جن اس سے نکلے اور سب کچھ بہتری پر آجائے، شہریوں کو بھی اپنی ذمہ داری سمجھنی ہوگی اور سرکاری گائیڈ لائن پر عمل کرکے حکومت کو تعاون دینا ہوگا، تبھی اس مصیبت سے ہم نکل سکیں گے، کورونا کی تیسری لہر کی بھی پیش گوئی کی جارہی ہے، اس کو سامنے رکھ کر ابھی سے  تیاری شروع کردینی چاہیے۔ورنہ ہندوستان کو قیامت سے پہلے  ایک اور قیامت کا سامنا کرنا پڑے گا