Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, May 5, 2021

فوری ردعمل کامیاب قوموں کی علامت نہیں ہوتی۔

سوچا کیجئے، سوچنے کے کئی زاویے ہوتے ہیں،  فوری ردعمل کامیاب قوموں کی علامت نہیں ہوتی۔
از /ط ایوبی /صدائے وقت. 
==============================
گذرے دو دنوں میں ایک کھیل ہوا جسے ہمارے عقل کل کا دعوی کرنے والے لوگ بھی نہ سمجھ سکے ۔ میں کوئی بہت بڑا مبصر نہیں ہوں نہ کوئی خاص تجربہ اور نہ بہت بڑے دعوے اور نہ کسی کی صفائی پیش کرنے کی ذمہ داری ، مگر ہر آدمی کو اللہ نے عقل دی ہے تو سوچنا چاہیے کہ سوچنے کئی زاویے ہو سکتے ہیں،  ہر واقعہ کے تناظر میں ملت کے مستقبل کے فیصلے سنانا درست رویہ نہیں بلکہ بچکانہ اور سوشل میڈیائی رویہ ہے۔
سید شہاب الدین مرحوم کا جنازہ بہار نہ جانے میں بی جے پی اور نتیش کا سب سے بڑا ہاتھ ہے ، نتیش چاہتا تو مرکز کی مداخلت سے مسئلہ حل ہو جاتا۔۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔۔۔۔۔ کمال عیاری سے روک دیا اور اسامہ کے نام سے فیک اکاؤنٹ کے ذریعہ ایک پھلجھڑی چھوڑی اور راجد پر دھاوا بول دیا ۔ اور پھر ہمارے ناعاقبت اندیش لوگوں نے ہڑبونگ مچایا جبکہ اصلی شیطان کمرے میں بیٹھا قہقہہ لگاتا رہا کہ میں توشیرہ لگا کر سرے سے منظر سے غائب ہوں۔ جس کے پاس اختیارات تھے اس سے کوئی سوال پوچھ ہی نہ رہا تھا اور جسکو جیل میں رکھ کر کمر توڑ دی گئی اس سے لوگ سوال کر رہے تھے،سوال یہ ہے کہ راجد اگر سارے گھوڑے کھول لیتی تو بھی کیا کر سکتی تھی سوائے درخواست کے ، جبکہ اسکا دعوی ہے کہ اس نے بات کیا اور رابطہ میں رہا، جسکا انکار مسٹر اسامہ نے بھی نہیں کیا بلکہ اپنے ایک ویڈیو میں فیک بیانات کی تردید کرتے نظر آئے ، نیتا کے ہاتھ میں پاور نہ ہو وہ بھی بھاجپا سرکار میں تو پھر وہ دھوبی کا کتا بن جاتا ہے، لوگ استعفی دینے لگے۔ مجھے ہنسی آئی ایک بھائی استعفی دے گا دوسرا عہدہ لے گا۔
یہ سہی ہیکہ راجد پریوار سے وہاں کوئی موجود نہیں رہا، بالکل رہنا چاہیے تھا ، یہ سوال بجا ہے مگر یہ سوال سوال کی طرح ہونا چاہیے ۔ مگر اس دور میں جب ہندو کرین سے لاشیں ڈھکیل رہے ہوں صرف مسلمانوں کا ہی جگر ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے جنازے احترام سے دفن کریں،  حالانکہ میں ایسے واقعات کا گواہ ہوں کہ گھر میں انتقال پر بھی گھر کے کسی فرد نے بھی غسل نہیں دیا اور بغیر غسل کے دفن کیا پڑوسی بھی شامل نہ ہوئے، پھر اپنی جان اور جان سے زیادہ اپنی سیاست سب کو پیاری ہوتی ہے۔
سوچنے کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ سید صاحب معمولی انسان نہ تھے، سردانا جیسے دوکوڑی کے لوگوں کی مثال دینا حماقت ہے، اسکے جلانے میں کتنے لوگ رہے ہوں گے لیکن شہاب صاحب کا جنازہ بہار پہنچتا تو بہار کے مسلمانوں کو روکنا مشکل ہو جاتا دس بارہ لاکھ تو ہوتے ہی ہوتے، ایک داغ قوم پر مزید اسامہ پر ضرور لگتا کووڈ پروٹوکول کو لے کر۔ پھر اس سے اسامہ بھی سیاسی طور پر مضبوط ہوتا اور راجد میں بھی کچھ جان پڑتی ، سوال یہ ہیکہ کیا نتیش ایسا ہونے دیتا ؟ جس نے ایک بیان پر دوبارہ جیل بھیجوا دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔ سوچنے کے کئی زاویے ہوتے ہیں،  میدان عقل سے جیتا جاتا ہے جذباتیت سے نہیں ۔

ط۔ایوبی