Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, May 20, 2021

*آہ! فرید بھائی*(ڈاکٹر فرید احمد فلاحی)

از /اشہد جمال /صدائے وقت /20 مئی 2021. 
==============================
فرید بھائی بھی ساتھ چھوڑ گئے۔بڑے جیوٹ کے آدمی تھے۔صحت مند،تندرست HBوتوانا۔ ہشاش بشاش ۔خود معالج تھے،بیماری ان سے دور بھاگتی تھی۔کبھی سنا نہیں گیا کہ وہ بیمار ہوئے۔وسط رمضان میں اچانک خبر آئی کہ ممبئی اور لکھنؤ کے سفر کے دوران کہیں کرونا کی ہوا لگ گئی۔ظالم نے انھیں بستر پر ڈال دیا۔پہلی بار بیمار ہونےکو سناگیا۔خیال تھا کہ وہ اسے پچھاڑ دیں گے۔خود ڈاکٹر،اہلیہ ڈاکٹر،چارو بچے ڈاکٹر ۔  علاج معالجہ کی ہر طرح کی سہولت۔سب نے جی توڑ کوشش کی۔اپنے سے سنبھلتا  نہیں دکھائی دیا تو لکھنؤ لے کر بھاگے۔ارا ہاسپیٹل میں 18 روز آئی سی یو میں رہے۔بچے ایک پیر پر کھڑے رہے۔صدقہ دیا گیا،دعائیں ہوئیں ۔ڈاکٹروں نے ہر ممکن کوشش کی۔ان کے بس سے باہر ہوا تو چندن ہاسپیٹل کےلئے ریکمنڈ کردیا کہ وہاں  سہولیات زیادہ اور مشینیں اعلی درجے کی ہیں ۔تدبیریں سب کی گئیں مگر کوئی تدبیر کام نہ آئی۔اللہ کے فیصلے کے سامنے کس کی تدبیر چلتی ہے۔اس نے اتنی ہی مہلت عمل مقدر کررکھی تھی۔آج اپنے پاس بلاہی لیا۔اناللہ وانا الیہ راجعون۔
فرید بھائی رخصت ہوئےتو اپنے پیچھے روتا بلکتا ایک جہان چھوڑ گئے۔اہلیہ ڈاکٹر نجمہ فرید،بیٹی ڈاکٹر کلثوم فرید،بیٹا ڈاکٹر عمر فرہد،بیٹیاں ڈاکٹر ایمن فرید ورقیہ فرید سب اس امید کے ساتھ لکھنؤ لے کر گئے تھے کہ وہاں سے شاداں وفرحاں لوٹیں گے۔ مگر آج جسد خاکی کی حامل ایمبولینس کے ہم رکاب ہیں۔لکھنو سے اعظم گڑھ کا طویل سفرہے۔راستے میں طوفان ہے،بارش ہے۔ کیا گزرہی ہوگی ان معصوموں پر۔تین بھائی دو بہنوں کے علاوہ ضعیف والدہ کےلئے بھی اولاد کا جنازہ دیکھنا مقدر تھا۔بوڑھی ماں کیسے سہار پائے گی۔اے اللہ تو ہی صبر دینے والا ہے۔تو ہی سہارا دینے والا ہے۔ان ناتوانوں کو صبرِ جمیل کی توفیق عطا فرما۔انھیں اپنی پناہ میں لے لے۔انھیں ہمت وحوصلہ عطاء فرما۔
فرید بھائی سے پہلی ملاقات ندوہ کے صحن میں ہوئی،وہ اور ہمارے دیرینہ دوست ڈاکٹر صباح الدین اعظمی جامعۃ الفلاح سے عالمیت کرکے آئے تھے اور میں اصلاح سے۔وہ لوگ کلیۃ الادب کے اعلیٰ درجات میں داخل ہوئے تھے اور مجھے کلیۃ الشریعہ میں داخلہ ملا تھا۔اصلاح وفلاح کی فکری مناسبت کے علاوہ ہم لوگوں کی ٹوپیاں ایک طرح کی تھیں،اس لئے ایک نظر سے دیکھے جاتے تھے۔بڑی جلدی دوستی ہوگئی۔پھر معاملات میں شراکت ہونے لگی۔وہ دھن کے پکّے تھے،ہمیشہ ایک اونچا ٹارگٹ طے کرتے تھے پھر اسے اچیو کرکے دم لیتے تھے۔ندوہ میں صرف دو برس قیام رہا،اس مدت میں انھوں نے پورا ندوہ فتح کرلیا۔کلاس کے استاذہ،ناظر کتب خانہ،سربراہان ادارہ سب کے دل میں جگہ بنالی تھی،کوئی ان کی ذہانت کا دلدادہ تھا، تو کوئی محنت کا۔کوئی قابلِ فخر شاگرد سمجھتا تو کوئی ادارہ کادرخشندہ ستارہ تصور کرتا تھا۔بڑے ذمہ داران حضرت مولانا علی میاں رحمہ اللہ،حضرت مہتمم صاحب کی زبان پر ان کا نام تھا۔حضرت مولانا رابع صاحب،واضح صاحب۔سعیدالاعظمی صاحب،نذرالحفیظ صاحب،نورعظیم صاحبان تو اساتذہ میں تھے،سب کی نگاہ میں محبوب تھے۔سب انھیں عزیز رکھتےتھے۔حضرت مولانا مفتی ظہور صاحب وارڈن تھے۔ان کا کمرہ ہم لوگوں کا ملن اڈہ تھا۔وہ بھی بہت مانتے تھے۔ندوہ سے فارغ ہو کر ہم تینوں علی گڑھ آگئے۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا دامن بہت وسیع ہے۔الگ الگ سبجیکٹ میں سب کو دا خلہ ملا،سب نے پرواز کے لئے اپنا اپنا افق تلاش کیا۔مگر یہاں جوڑنے کےلئے ایک نیا بندھن مل گیا۔سب لوگ ایک طلبہ تنظیم کے رکن ہوگئے۔پھر سب لوگ ایک ہوگئے۔وہ ابھی بی اے ہی کرہے تھے کہ شادی ہوگئی۔شادی شدہ آدمی اپنے جرم کا بدلہ دوسرے کی شادی کراکے لیتا ہے۔ انھوں نے دوستوں پر ہاتھ ڈالنا شروع کردیا۔اور راقم پر تو یہ خاص کرم بھی کیا کہ اپنی سسرال میں بچی ہوئی ایک زلف کو اپنے دوست کے ساتھ باندھ کر ہم زلف بنا لیا۔آج جب ان کی وفات کی خبر سے ہر طرف کہرام ہے، آہیں ہیں،سسکیاں ہیں۔تو میرا گھر بھی غم میں ڈوبا ہوا ہے۔ان کو سنبھال پانا بھی مشکل ہورہا ہے۔اللہ سب کو صبر دے۔
فرید بھائی بی اے کے ساتھ سول سروسز کی تیاری بھی  کر رہے تھے۔مگر بی اے مکمل کرکے بی یو ایم ایس میں چلے گئے۔سبب جوبھی رہا ہو،بظاہر لگتا یہ ہےکہ انھیں خیال کزرا ہوگا کہ اگر وہ  IAS ہوئے تو تنہا ہونگے۔کیوں نہ ایسا کورس چنیں جس میں جیون ساتھی کا ہمیشہ ساتھ رہے،چنانچہ دونوں نے ایک ساتھ ٹسٹ دیا۔ایک ساتھ داخلہ لیا،ایک ساتھ فارغ ہوئے،ایک ساتھ کلنک شروع کی،پھر اس ساتھ میں اللہ نے اتنی برکت دی کی ایک قلمرو کھڑی کردی۔خوب شاندار قلم رو۔ابھی اسے اور آگے جانا تھا۔بڑے عالی شان منصوبے تھے۔اپنی پوری ذریت کو  اسے آگے بڑھانے کےلئے  تیار کررہے تھے،ابھی ان کی پرواز شروع ہونی باقی تھی کہ ناتمام منصوبہ ان کو ورثہ میں دے رخصت ہوگئے۔جس جیون ساتھی کے ساتھ کےلئے منزل تبدیل کی تھی،وہ اکیلی ہوگئی۔اس کے اوپر اتنی بڑی ذمہ داری آن پڑی۔اللہ انھیں صبر کے ساتھ ہمت وحوصلہ عطاء کرے آمین ۔
کل جامعۃ الفلاح کے جوار میں نماز جنازہ ہوگی۔ ڈھیر سارے ہاتھ دعاؤں کےلئے اٹھیں گے۔ان کی خدماتِ،ان کی حسنات اوران کی قربانیوں کا حوالہ دےکر بخشش کی در خواست کی جائے گی۔بار الہا! ان کی حسنات کو قبول فرمالے۔کوتاہیوں کو درگزر فرمادے۔ان کے بچوں کو،بیوہ کو اور تمام پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق عطاء فرمادے آمین یارب العالمین
جانے والے میں بڑی خوبیاں تھیں،سب سے بڑی خوبی محنت و جانفشانی تھی۔زندگی بھر انتھک محنت کی۔جو بنایا اپنے دم سے بنایا۔اور اس کا فیض بہتوں کو پہونچایا۔وہ بڑے ہمت وحوصلہ والے انسان تھے۔آزمائشوں میں بے خطر کود پڑتے تھے۔اور سرخرو ہوکر نکلتے تھے۔
سوگوار بھائی
اشھدجمال ندوی
20/ مئی2021