Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, May 20, 2021

ٹکڑےلئیےبیٹھاہوں یوں شیشہ دل کے. ‏. ‏. ‏. ‏! ‏

بقلم / مولانا  محمد آصف اعظمی قاسمی
            (بیاد والدمحترم حافظ مفیداحمدصاحب رحمہ اللہ). 
                 صدائے وقت 
=============================
والد محترم الحاج حافظ مفیداحمدصاحب رحمہ اللہ کی وفات حسرت آیات کو آج تقریبا آٹھ دن گذرگئے لیکن گھر میں آتےجاتےوقت انکی قیام گاہ پر سابقہ رعب طاری دکھائی دیتا ہے اور ایسا لگتاہےکہ ابھی چندلمحوں بعد کسی جگہ سے واپسی ہوجائےگی نہ قلب کوقرارنہ جگرکوسکون ہزار ضبط کےباوجودکسی نہ کسی وقت چندقطرات آہی جاتےہیں راقم الحروف نےعمرکی چاردھائیاں گذاردی ہے لیکن ایساغم تصور میں نہیں تھا بہت سے نشیب وفراز آئے،مختلف طرح کےانقلابات زمانہ سےدوچارہوناپڑا لیکن غموں کاایساپہاڑجوانمٹ نقوش بنالے،جوشب وروز کی یادوں کامحوربن جائے ،ایساموقع کبھی نہیں آیاتھا،
بہت سے احباب کےگھروں پرحوادث کےمواقع پر تسلی کے کلمات سےسکون دل فراہم کرنےوالاآج بےبس وبےکس اپنےغموں سےنڈھال مداوی کیلیے حیراں وسرگرداں ہے کہنےوالےنےسچ کہا ہے
شعر  کہاں ڈھونڈیں نگاہیں دل کوگرمانےکہا ں جائیں
  تمھیں جب شمع محفل تھےتوہم پروانےکہاں جائیں 
  حقیقت یہ ہےکہ غم میں کمی لانےکیلیےایک ہی واقعہ کارگرہےکہ ہمارےآقاساری کائینات کےماوی وملجاحضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو شفقت پدری کا ایک حبہ بھی میسر نہ ہوسکااورہم‌ جیسےظلوم وجہول کوچاردھائیاں میسر ہوگئیں،
   محی السنہ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب ہردوئی علیہ الرحمۃ کےسامنےایک صاحب کی جوانی میں وفات کاذکرآیااورساتھ ہی ساتھ انکی جدائی میں اہل خانہ کی نڈھالی وبےقراری کاتوحضرت نےغم کوکم کرنےکانسخہ شافی عطاء فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اہل خانہ کورب العالمین کاشکرگذارہوناچاہیےتھاکہ جس پروردگارنےجوانی کی عمرمیں اپنےپاس بلایاہےوہ نوجوانی اوراس سےپہلے بھی بلانےپرقادرتھا لیکن مالک نے اتنےدن ساتھ رہنےکااتناموقع دیاہےاس پراللہ کاشکراداکرناچاہیے   اب ہمارےسامنےیہ اوراس طرح کے انمول تسلی کےکلمات ہیں خدا ورسول کی تعلیمات ہیں اللہ کی ذات پربھروسہ  اکابرین کی شفقت واحباب کی محبت کے ہم امیدوارہیں رب کریم جملہ مشکلات کودورفرمائے اللہ ہی حامی وناصر ہے
   والدمحترم رحمۃ اللہ کی پیدائش 1952میں ضلع اعظم گڑھ کے مشہور گاؤں منگرانواں میں ہوئی ابتدائی تعلیم مدرسہ عربیہ قاسم العلوم منگرانواں میں ہوئی اوراسی ادارے میں حفظ مکمل ہوا گاؤں کے معروف عالم دین امام وخطیب حضرت مولانا انعام الحسن صاحب قاسمی مدظلہ کی سرپرستی میں دورکیلیےمدرسہ قرآنیہ جونپور تشریف لے گئے اور وہاں ایک سال حفظ وقرات کی تعلیم حاصل کرکےجامعہ حسینیہ کے قیام کےبعداولین  طلبہ کی جماعت میں شامل ہو کر جامعہ حسینیہ جونپور تشریف لائے اور جلیل القدر عاشق قرآن حافظ رحمت اللہ صاحب کے مخصوص تلامذہ میں شامل ہوگئےقرآن کی یادداشت خوب پختہ ہوئی حتی کہ امتحان سالانہ سےقبل حافظ صاحب کو ایک یوم میں پوراقرآن سناکرحفظ کادور مکمل کیا اس موقع پر حافظ صاحب کےبہت سےتشجیعی کلمات میسرہوئے اوراستاذمحترم اورانکےاہل خانہ سےایسےگہرے تعلقات ہوئے کہ تاحیات کبھی کمی نہیں آئی حافظ صاحب کے بھانجے حاتم جونپور حضرت مولانا قمر الدین صاحب دامت برکاتہم  والدصاحب سے اولادکیطرح محبت فرماتےتھےاوروالدصاحب اسی طرح احترام کرتے والد صاحب کو اپنی شدید بیماری کے زمانے میں معلوم ہوا کہ حضرت مولانا قمر الدین صاحب بیمارہیں مجھ کوبلاکرفرمانےلگےکہ میں عیادت کیلیے جانےکےلائق نہیں ہوں تم‌ فوراچلےجاؤ اورمیراسلام عرض کردینا میں حضرت مولانا کےیہاں حاضرہواتو مولانا  والدصاحب کی صورت حال معلوم کرکے انتہائی افسردہ ہوئے اور فرمانےلگےمیں حاضرہوں گاعیادت کیلیے
   ع دونوں طرف ہےآگ برابر لگی ہوئی 
   جامعہ حسینیہ کےدوسرےسال  درجہ فارسی میں داخلہ لیااوراس دورکےنابغہ روزگار شخصیات حضرت مولانا محمد عثمان صاحب ساحر مبارکپوری حضرت مولانا محمد مسلم صاحب بمہوری حضرت مولانا محمد رضوان صاحب بمہوری اورحضرت مولاناتوفیق احمد صاحب قاسمی کےسامنےزانوئےتلمذتہ کرکےفارسی زبان میں کمال پیدا کیا فارسی زبان کی بہت سی ایسی نایاب کتابیں حضرت مولانا محمد عثمان صاحب ساحر مبارکپوری نےآپ کوخارج میں پڑھایا جوداخل درس نہیں تھیں اسی دورمیں حضرت ساحر مبارکپوری سےشعری ذوق ملا اوراسی دورمیں فی البدیہہ اشعار کہنے لگے اشعار تومحفوظ نہ ہوسکے دبئی ایک باراشعارکامقابلہ ہواتواس مقابلہ میں والد صاحب بھی شریک ہوئے توآپ کےایک مقطع پرانعام ملا 
   شعر        محبت  اک ایسا معمہ ہے  ناصح
             نہ تم جانتےہو نہ ہم جانتے ہیں
                                                            اپنی جماعت کے ممتاز طلبہ میں آپکاشمارہوتاتھا لیکن  گھرکےناگفتہ بہ حالات نے مزید تعلیم جاری رکھنے کی اجازت نہیں دی اورآپ نے اساتذہ کےمشورےسےتدریس کافیصلہ کیا 
    فارسی کی تعلیم مکمل کرنےکےبعدسال آئیندہ شوال میں مدرسہ اصلاح سرائے میرمیں شعبہ حفظ میں‌ ایک مدرس کی ضرورت آئی والد صاحب مدرسہ اصلاح پہنچے انٹریو دیا مقبول قرارپائےلوگوں میں کامیابی کا چرچہ ہوا اس دوران مدرسہ اصلاح میں دونہ جہت مندپورکےانتہائی شریف طبیعت کے مالک ماسٹر محمد یوسف صاحب مرحوم مدرس تھےماسٹرصاحب کوجب معلوم ہوا کہ کوئی حافظ صاحب انٹریو دینےآئےتھےبہت باکمال قراردیےگئےتوماسٹرصاحب ملاقات کیلیےتلاش کرتے ہوئے والدصاحب سےجاملے اور ملاقات کےبعد بڑی درد مندی سےعرض گذارہوئے کہ حافظ صاحب آپ کی کامیابی سن کر بہت خوشی ہوئی ماشاءاللہ آپ یہاں منتخب ہوگئے لیکن میری آپ سے ایک درخواست ہے کہ آپ‌ ہمارےگاوں کےمکتب ,,مدرسہ پیام حق ،،چلےچلتے توآپ کابہت احسان ہوتا میری دلی تمنا ہے کہ میرے گاؤں کے مدرسہ میں آپ ہی کے ذریعہ حفظ کی تعلیم شروع ہوجاتی ماسٹر صاحب نے ایسی مخلصانہ درخواست کی کہ والدمحترم علیہ الرحمۃ مدرسہ اصلاح سرائے جیسےملکی پیمانے پر مشہور زمانہ ادارہ کےمقابلہ میں مدرسہ پیغام حق نامی مکتب کوترجیح دیادومخلصین کی گفتگو نےپیام حق کواخلاص کاتاج محل بناڈالا والدصاحب دونہ جہت مندپورمنتقل ہوگئے جس وقت دونہ گئے مدرسہ میں اقامت اختیار کرنےوالے کوئی ایک مدرس بھی نہیں تھے والد صاحب کا عارضی قیام حاجی صدرالدین صاحب کےمکان کےایک کمرے میں ہوا اسی جگہ سےدرجہ حفظ کاہی آغاز نہیں ہوا بلکہ اس سات گاؤں میں دینی ایمانی فضا کی بادبہاری کاآغاز ہواتھا چندطلبہ کولیکربیٹھےاوردیکھتےہی دیکھتے,,مدرسہ پیام حق ،،حفظ کامشہورزمانہ مدرسہ ہوگیا حفظ میں داخلہ کیلیے لوگ خوش آمدیں کرانےلگے یہ محفل تقریباسولہ سال تک جمی رہی بےشمار طالبان علوم نبویہ فیضیاب ہوئے والدصاحب توصرف حافظ تھے لیکن اپنےتراشیدہ لعل وگہرکوصرف حافظ بناکرنہ چھوڑ دیتے بلکہ ان کی آئیندہ تعلیم کانظم اپنےذمہ لیتےعربی تعلیم کیلیےطلبہ کودوسرےمدرسہ میں داخلہ کرانےکیلیےخودلےکر جاتےاورپورےتعلیمی زمانہ میں مکمل نگہ داشت رکھتےحتی کہ بعض وہ طلبہ جوتعلیم کےخواہش مندہوتے لیکن  معاشی مشکلات سے دوچار ہونے کیوجہ سے ہمت نہ کرپاتےانکوحوصلہ اورہمت دلاتے اورانکی مکمل کفالت اپنےذمہ لیتےبہت سےطلبہ ہیں جنکاخوداقرارہےکہ میری تعلیم کی تکمیل میں سوفیصد کردارحافظ صاحب کاہے وہ علاقہ جہاں حفاظ اورعلماء اقل قلیل مقدار میں تھےآج انکی بڑی تعداد دکھائی دینےلگی
    مدرسہ پیام حق میں تین اجلاس عام طلبہ کی دستاربندی کیلیےمنعقدہوئےاجلاس میں اتنی قدآور شخصیات جلوہ افروزہوئیں جنکاایک گاؤں کے چھوٹے مدرسہ کےجلسہ میں شریک ہوناتصورسےباہر تھا اجلاس میں شرکت کرنےوالوں میں فدائےملت جانشین شیخ الاسلام حضرت مولانا سیداسعدمدنی رحمہ اللہ اوراستاذالاساتذہ حضرت مولانا محمد عثمان صاحب ساحر مبارکپوری بھی رہا کرتےتھے 
     سولہ سال تک خدمت انجام دیکربعض احوال کی بناء پر مدرسہ سےرسمی تعلق  منقطع کرکے شارجہ چلےگئے لیکن قلبی طورپر مدرسہ پیام حق سےکبھی الگ نہیں ہوئے اورتقریبا 27سال تک شارجہ میں بھی قرآن‌کریم کی خدمت انجام دیتے رہے قرآن کریم سے عشق تھا بسااوقات چلتے پھرتےقرآن کی تلاوت میں مشغول رہتے اوراپنےاہل تعلق کو قرآن کریم کی تلاوت کی ترغیب دیتےرہتے خلاصہ یہ اپنےمعمولات کےحددرجہ پابندبس ہماری زبان پر یہی جاری ہوگا      ع زمین کھاگئ آسماں کیسے کیسے
    آپکے مشہور اساتذہ کرام 
    آپ نے تعلیم کاآغازمدرسہ قاسم العلوم میں کیاتھا اس دورکےوہاں کےاساتذہ کےنام تویادنہیں رہےاتنایادہےکہ ایک نابینا حافظ صاحب جنکانا م حافظ محب الدین صاحب وہ گھرملاقات کیلیےبرابر تشریف لاتے رہے اور والدصاحب استاذ محترم کابہت خیال کرتےوہ تعزیت میں تشریف لائے تھےانکوبہت قلق محسوس ہوامدرسہ قرآنیہ جونپور میں آپکےاستاذ حافظ سلطان صاحب جونپوری مرحوم تھےاورتجویدوقرات استاذالقراحضرت قاری ابوالحسن صاحب اعظمی سےپڑھنےکااتفاق ہواجامعہ حسینیہ آمدکےبعددورحضرت حافظ رحمت اللہ صاحب کےیہاں اور فارسی درجہ کی کتابیں حضرت مولانا محمد عثمان صاحب ساحر مبارکپوری حضرت مولانا محمد مسلم صاحب بمہوری رحمہم اللہ اور حضرت مولانا توفیق احمد صاحب قاسمی مدظلہ ناظم جامعہ حسینیہ جونپورکےیہاں تھیں 
     اساتذہ کی جماعت میں سے اکثر لوگ رب العالمین کے دربار میں پہن گئےموخرالذکرحضرت مولانا توفیق احمد صاحب بحمداللہ صحت وعافیت کےساتھ ہیں اللہ انکی خدمات جلیلہ کو شرف قبولیت سےنوازے حضرت مولانا توفیق صاحب زیدمجدھم نےاپنےشاگردسےجیسی محبت و الفت کا ثبوت دیااسکی مثال بھی بہت کم ملےگی بیماری کے زمانہ میں اہل مدارس میں سب سےزیادہ ہمدردی کاثبوت حضرت مولانا نےدیا
     ہرطرح کی قربانی پیش کرتےرہے علاج میں اس قدر متوجہ رہے جیسے انکی حقیقی اولاد بسترپرہےبارباراحوال دریافت کرتےرہتےوقفہ وقفہ سےدیکھنے کیلیے گھرحاضرہوجاتےبمبی علاج کیلیےجاناہواتووہاں دیکھنےکیلیےحاضرہوئے اللہ انکا سایہ ہم خوردوں پر بصحت تمام قائم ودائم رکھے 
     والد صاحب کے مشہور تلامذہ 
     حضرت مولانا شفیق احمد صاحب قاسمی امام وخطیب وزارۃ الاوقات ابوظہبی حضرت مولانا ناصر الدین صاحب قاسمی مقیم حال شارجہ حضرت مولانا مفتی فیض احمد صاحب قاسمی وزارۃ الأوقاف کویت حضرت مولانا نسیم احمد صاحب قاسمی دونہ جہت مندپورحضرت مولانا ارشاد احمد صاحب دونہ حضرت مولانا عتیق احمد صاحب دونہ حافظ فضل الرحمان صاحب کٹولی حافظ صہیب صاحب عرف منو حافظ شمشاد شادں پیامی حافظ عرفان صاحب دونہ حافظ عبد الواحد صاحب دونہ حافظ شکیل احمد صاحب مفتی سفیان احمد صاحب بیریڈیہ وغیرہم حقیقت یہ ہےکہ چندنام جومجھےربط کی زیادتی کیوجہ سے یادرہےلکھ دیاباقی شاگردوں کی فہرست بہت طویل ہے
     جن اکابرین سےوالد صاحب کے تعلقات بہت گہرے تھے
     امیر ملت حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی زیدمجدھم مہتمم دارالعلوم دیوبند حضرت اپنی بےپناہ مشغولیات کےباوجودخبرگیری فرماتےرہتےخصوصیت سےدعاؤں سےنوازتےرہتےبہرنوع توجہات فرماتےرہے دالدصاحب کااصلاحی تعلق بھی حضرت ہی سےرہا حضرت کی کئ بار غریب خانہ پرحاضری بھی ہوئی
     حضرت مولانا محمد شاہد صاحب نبیرہ حضرت شیخ الحدیث 
     أمین عام جامعہ مظاہرعلوم سہارنپور حضرت مولانا سےدبئ میں ملاقات ہوئی اور تعلقات بڑھتےگئےحضرت کی غریب خانہ پرایک بارتشریف آوری ہوئی حضرت مولانا بہت محبت فرماتے ہیں انتقال کے دوسرے دن حضرت کاتعزیتی فون بھی آیا انتہائی قلق کااظہارکیا
      حضرت مولانا اعجاز احمد صاحب اعظمی رحمہ اللہ 
      حضرت مولانا والد صاحب کے تقریباً ہم عمرتھےوالدصاحب صرف ایک سال مولاناسےعمرمیں چھوٹےتھے حضرت مولاناسےبہت گہرےمراسم تھے دونوں بزرگ ایک دوسرےکےمشیر وامین ورازدارتھے کوئی مسئلہ در پیش ہوتاآپس میں تفصیلی مشورہ ضرور ہوتادونوں بزرگوں کاایک دوسرےکےیہاں آمدورفت بکثرت ہوتی ایک بار حضرت مولانا تشریف لائے تھےجاتےوقت والد صاحب سےبےتکلفی میں پوچھنےلگے پھرکب آناہےوالدصاحب نےکہاآپ کی ہی صواب دید پرہےباقی میری توخواہش رہتی ہےکہ روز ملاقات ہوجایاکرے مولانااپنی مجالس میں فرماتےکہ اللہ نے حافظ صاحب کو اصابت رائےسےنوازاہے
      حضرت مولانا عبدالعلی فاروقی صاحب مہتمم دارالعلوم فاروقیہ کاکوری
      حضرت مولانا سےبہت گہراتعلق تھابلکہ اگرمیں یوں‌کہدوں کہ حضرت مولانا سےتعلق میری پیدائش سے پہلے کاتھاتب بھی غلط نہ ہوگاربط شروع ہواالبدرسےمیرےخیال میں والدصاحب البدر کے بالکل ابتدائی ممبران میں سے تھےالبدرکےقدیم شمارے آج بھی مجلد شکل میں گھرپر موجود ہیں پھریہ تعلق قربت میں بدل گیا
      مولانا محترم خودبھی انتہائی خلیق واقع ہوئےہیں عیادت کیلیے گھربھی تشریف لائے اور ٹیلی فون سےاکثرخیریت معلوم کرتےرہتےوالدصاحب کی طبیعت کچھ غنیمت ہوتی تو براہ راست والدصاحب سے گفتگو کرتے اورحوصلہ افزائی فرماتےدعائیہ کلمات سےنوازتےوالدصاحب مولاناسےگفتگو کےبعدنشاط محسوس کرتے
     حضرت مولانا عبدالعلیم صاحب فاروقی مہتمم دارالمبلغین لکھنؤ
     حضرت مولانا سےبھی قدیمی تعلق تھا مجھے یادآتاہےکہ تقریبا25سال پراناتعلق رہاحضرت مولاناملاقات کیلیےگھربھی تشریف لائے اورمجھ سے جب بھی ملاقات ہوتی والد صاحب کے احوال معلوم کرتےصحت وعافیت و درازیےعمرکی دعاکرتے انتقال کےبعدبھی فون آیا توحضرت نےفرمایا کہ رمضان المبارک کےآغازکادن نہ ہوتاتومیں‌جنازےمیں شرکت کیلیے چل دیا ہو تا مزید فرمایا کہ انشاء اللہ عیدکےبعدحاضرہونےکی کوشش کروں گا بہت دیرتک دعاءدیتےرہے
     حضرت مولانا مفتی محمد سفیان صاحب دونہ خلیفہ حضرت شیخ یونس صاحب وشیخ الحدیث جامعہ مطلع العلوم بنارس والدصاحب کیلیےشب وروزدعائیں کرتےبنارس چاربارہاسپیٹل میں ایڈمیٹ کیا گیا ہرباربلاناغہ صبح و شام ہاسپیٹل تشریف لاتے پوری دلسوزی سے فکرمندی میں لگےرہتے
ان‌اکابرین واحباب کےعلاوہ بھی علماء کرام اورمحبین کی  بہت بڑی تعدادہےبطورخاص دونہ کٹولی اورساتوں گاؤں اور بہت سےدیگراحباب کی مخلصانہ قربانیاں اورتوجہات رہیں جنکابدلہ میرےپاس دل کی گہرائیوں سے شکرگزاری کےعلاوہ کچھ نہیں ہے دل سےدعاکرتاہوں کہ رب العالمین تمام محسنین کواپنی شایان شان بدلہ عطاء فرما  اللہ ربّ العزت ان نفوسِ قدسیہ کاسایہ درازفرما
والد صاحب کےخصائص 
عقائد میں پختگی 
جس میں کسی طرح کاسمجھوتہ برداشت نہ تھا شارجہ قیام کے زمانے میں ایک واقعہ پیش آیا کہ جس مدرسہ میں شارجہ میں پڑھارہےتھےوہ اہل حدیث حضرات کاتھا اس کاذمہ دارکبھی کبھی طعنہ زنی کرتاتھا والدصاحب نےذمہ دارکوسمجھایاکہ اس طرح طنزیہ گفتگو نہ کیا کروہمارےاورتمہارےعقائد میں فرق ہے لیکن وہ نہیں مانتاایک دن اس نے حضرت نانوتوی پرکوئی سخت جملہ کہدیا والدصاحب برداشت نہ کرسکےاوراستعفی دیکرآگئے بعدمیں لوگوں نے بہت سمجھایا لیکن دوبارہ اس ادارے میں جانےکےلیےتیارنہ ہوئےاوراسکوکہلابھیجاکہ عقیدہ کاسودہ کرکےملازمت نہیں چاہیے
غریبوں اورمسکینوں کی ضرورت کواپنی ضرورت پر ترجیح دینا
دبئ سے چھٹیوں میں آمدکےبعدگھربہت سےضرورت مندآتےاپنےمسائل رکھتے والد صاحب بہت سنجیدہ ہوکرانکی باتیں سنتےاورحتی الامکان انکی ضرورتوں کو پوری کرنےکی کوشش کرتے بسااوقات مقروض بھی ہوجاتے شدید بیماری کے زمانہ میں ایک شخص آیااورآکراس نےکہاکہ ہمارےگھرکی پانی والی مشین خراب ہوگئ ہےاسکوبنانےمیں 5000لگیں گےیہ بات توتقریبااہل تعلق سے مخفی نہیں ہےکہ آخری دوسال سخت تنگی کازمانہ رہاآمدنی کےذرائع مفقودہوگئےاورشدیدبیماری گھریلوضروریات اسپرمستزاد
      اس ضرورت مند کی بات سن کر مجھ سےکہاانتظام کرو
      اور فرمایا کہ جس طرح اپنی ضرورت پر قرض لیاجاسکتاہے اسی طرح دوسروں کی ضرورت پوری کرنےکیلیےبھی قرض لیاجاسکتاہے
      کوئی سائل گھرپرسوال کرتااور والدصاحب سےاس کی ملاقات ہوجاتی توسب سے پہلے اس کوکھاناکھلاتےپھرحتی المقدوراسکی ضرورت پوری کرتےمدارس سےوابستہ کسی طالب علم کی پریشانی علم میں ہوجاتی تواسکےلیےفکرمندہوتے رب کریم ان صفات وحمیدہ کےبدلہ انکےلیے آخرت کی رفعت مقدرفرما
      اخلاق حسنہ سے پیش آناانکی فطرت تھی کسی سےبھی اکھڑکرہمکلامی جانتےہی نہیں تھےدوسروں کوعزت دیناانکےمزاج کاحصہ تھاچھوٹوں پراس قدرشفقت فرماتےکہ بسااوقات وہ سوال کرنےلگتاکہ لگتاہےحافظ جی مجھکوپہچان نہیں پائے ،صبرکی صفت اس قدرپائےتھےجسکاتصورآسان نہیں ہےسخت ترین بیماری لیےہوئےلیکن زبان پر حرف شکایت نہیں 
      ڈھائی سال بسترپررہناآسان نہیں تھالیکن باہروالےکواحساس نہیں ہوتاکہ ایسی بیماری لیےہیں قریبی لوگوں سےذکرکرتےبہرحال مختلف صفحات حمیدہ کی جامع شخصیت ‌(والد محترم حافظ مفیداحمدصاحب رحمہ اللہ) 13اپریل شام پونے تین بجےہمیشہ کیلیےہم سےروپوش ہوگئ 
  ع خدارحمت کندایں عاشقان پاک طینت را
       پسماندگان 
     والدہ محترمہ ظلہااللہ محمد آصف اعظمی قاسمی محمد قاسم اعظمی بہن فاطمہ  بڑےوالدحاجی عبدالرشید صاحب  چارپوتےپانچ نواسیاں دوبھتجےمحمدہارون حافظ محمد رافع مقیم شارجہ بھانجوں میں حافظ محمد اعظم وغیرہم باری تعالیٰ ہم جملہ اہل خانہ وجملہ شاگردان واہل تعلق کو صبر جمیل عطا فرمائے اور ہماری ضرورتوں کی کفالت فرما مشکلات کودورفرما ہرطرح کےحوادث سے حفاظت فرما دل کی ترجمانی کچھ اسطرح ہوتی ہے
          ٹکڑےلئیےبیٹھاہوں یوں شیشہ دل کے
            جیسے  کہ مسیحاکا  پتابھول  گیا  ہوں