Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, May 20, 2021

یہ کون آج رخصت ہوا انجمن سے. ‏. ‏. ‏. ‏. ‏. ‏

معروف طبیب، نڈر و بیباک شخصیت و پختہ ارادہ  کے مالک ڈاکٹر فرید احمد فلاحی  علیگ کے انتقال سے پورہ ضلع غمزدہ. 

ابھی کیا جلدی تھی جانے کی، 
ابھی تو عمر ہی کیا تھی. 

از /ڈاکٹر شرف الدین اعظمی /صدائے وقت. 
==============================
20 مئی 2021 بروز جمعرات کا دن  اہل اعظم گڑھ کے لیئے ایک نہایت افسوس ناک خبر لیکر آیا.. مشہور و معروف طبیب. بیباک و نڈر لیڈر، اچھے مقرر، ہر وقت خدمت خلق میں سرگرم و متحرک شخصیت ڈاکٹر فرید احمد فلاحی  علیگ کا لکھنؤ میں سانخہ ارتحال سے پورہ ضلع غمزدہ ہے.  تدفین آج صبح 9 بجے بلریا گنج میں عمل میں آئی.. 
مرحوم کے انتقال سے پور ضلع میں غم کی لہر ہے. سیاسی، سماجی، علمی، طبی نیز دیگر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد تعزیت کا اظہار کر رہے ہیں. 
ڈاکٹر فرید احمد ہمارے پڑوسی گاؤں کوہندہ کے رہنے والے تھے.. اچھے اور مانند خاندان سے ان کا تعلق تھا.. کوہندہ گاؤں میں تین اجو(عزیز) ہوا کرتے تھے.. اجو پردھان، ناٹے اجو اور بڑکے اجو.. مرحوم بڑے اجو خاندان کے چشم و چراغ تھے. 
ان سے میری ملاقات تعلیم مکمل کرنے کے بعد اس وقت ہوئی جب وہ اپنی پریکٹس بلریا گنج میں شروع کئے.. ان کے گھر کے لوگ میرے یہاں علاج و معالجہ کے سلسلے میں آتے جاتے رہے ہیں. اسی سلسلے میں ان کا بھی آنا ہوا.. لیکن قربت اس وقت ہوئی جب میں راشٹریہ سہارا اردو میں اعظم گڑھ ضلع کے بیورو چیف کی حیثیت سے کام کرتا تھا.. تقریباً روزانہ کوئی نہ کوئی پریس ریلیز بھیجتے تھے. اس کے بعد تو ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا تو کوئی ایسا موقع نہیں تھا کہ میں بلریا گنج جاؤں اور ان سے ملاقات نہ کروں یا وہ جب بھی کوہندہ آتے تو شاہ گنج آکر ضرور ملاقات کرتے.. ان ملاقاتوں میں ذاتی مسائل پر کم اور قومی، ملی و طبی مسائل پر زیادہ گفتگو ہوتی تھی... اس سے اندازہ ہوا کی مرحوم کو ملت کا کتنا درد ہے اور کیا کچھ کرنا چاہتے ہیں..؟ 
مرحوم کی کتنی خوبیاں بیان کی جائیں. وہ ایک بہت اچھے مقرر بھی تھے.. نہ جانے کن حالات کے تحت انھوں نے اپنے اسپتال کے لیے بلریا گنج کو منتخب کیا حالانکہ میری خواہش یہ تھی کہ وہ اپنے ہی علاقے میں رہ کر عوام کو فیض پہنچائیں.. اس بات کا تذکرہ بھی میں نے مرحوم سے کیا تو کہنے لگے "شرف الدین بھائی، علاقے کے لیئے آپ لوگ کافی ہیں" رہی میری بات تو جب بھی یاد کریں گے حاضر ہو جاؤں گا. 
نڈر اور بے بیباک اس قدر کہ طبی و دیگر مسائل پر ضلع مجسٹریٹ تک سے پنگا لے لیتے تھے.. اپنی پریکٹس بھی انھوں نے دلیری کیساتھ کیا مریضوں پر رسک لے لیتے تھے اور اللہ نے شفا عطا کر رکھی تھی. مریض ٹھیک بھی ہوجاتے تھے.. سرجری میں بھی ماہر تھے سیزیرین تک کا آپریشن خود ہی کرتے تھے... ایک بار میں نے سوال اٹھایا تو بہت ہی خود اعتمادی سے جواب دیئے کہ جب ہم بی یو ایم ایس والوں کو سرجری پڑھائی جاتی ہے تو کیوں سرجری نہ کریں.. یہ ان کی خود اعتمادی اور بے خوف کام کرنے کی مثال ہے. 
ڈاکٹر صاحب کو سیاست سے بھی دلچسپی رہی ہے.. ملت کانگریس کے نام سے ایک سیاسی پارٹی بھی بنائی تھی جس کے وہ قومی صدر بھی تھے اور اسی پلیٹ فارم سے اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھے. 
یقین نہیں ہو رہا ہے کہ ڈاکٹر فرید اب ہم لوگوں سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گیے ہیں... 
جب آ جاتی ہے دنیا گھوم پھر کر اپنے مرکز پر 
تو واپس لوٹ کر گزرے زمانے کیوں نہیں آتے. 
مگر ایسا نہیں ہوسکتا.. جو یہاں سے گیا اس کی واپسی کہاں. اب تو صرف یادیں ہی یادیں ہیں.. تعزیتی پیغام و تحریر کا سلسلہ جاری ہے.. اس سلسلے میں دو لوگوں کی تحریر کو یہاں پیش کر رہا ہوں جس سے ان کے خاندان پس منظر اور ان کی تعلیم وسرگرمیوں کی ترجمانی ہوسکے. 
کوہندہ کے سمیع اللہ صاحب لکھتے ہیں کہ... 
"جی آپ کوہنڈہ اعظم گڑھ کے رہنے والے تھے ان کے والد محترم جناب عبدالعزیز عرف بڑے اجو صاحب میرے دادا محترم جناب حاجی الطاف حسین صاحب مرحوم کوہنڈہ اعظم گڑھ کے بہت ہی قریبی دوست تھے میرے ہی دروازے پر بیٹھکی ہوتی تھی میرے چچیرے بھائی اور بہنوئی عنایت اللہ فلاحی جامعی مقیم حال ابوالفضل انکلییو جامعہ نگر نئ دہلی کا داخلہ جامعت الفلاح بلریا گنج اعظم گڑھ میں ہو گیا تھا اس وقت فرید بھائی مدرسہ دینیات کوہنڈہ اعظم گڑھ سے درجہ پنجم پاس کرکے پڑوسی گاءوں باغ بہار انٹر کالج میں درجہ ششم میں داخلہ لے چکے تھے مگر ان کی دلی خواہش تھی کہ میں بھی عنایت بھائی کے ساتھ بلریا گنج اعظم گڑھ  میں داخلہ لے لوں چونکہ اجو دادا بہت سخت مزاج کے تھے ان سے فرید بھائی کی ہمت نہیں تھی یہ خواہش ظاہر کرنے کی لہذا جب دادا محترم کو پتہ چلا تو انہوں نے اجو دادا کو کسی طرح راضی کیا اور دونوں مرحومین نے اس طرح جامعتہ الفلاح بلریا گنج اعظم گڑھ جا کر ڈاکٹر فرید صاحب کا داخلہ کرایا آج اللہ کا کرم ہے ڈاکٹر صاحب کی دو لڑکیاں اور ایک لڑکا ایم بی بی ایس کا کورس کر رہے ہیں اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم ڈاکٹر فرید فلاحی علیگ صاحب کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے آپ کی بشری لغزشوں کو معاف فرمائے ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین آپ کے انتقال سے پورے کوہنڈہ گاءوں کی فضا سوگوار ہوگیی ہے اللہ تعالٰی تمام احباب کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین"
اشہد جمال ندوی صاحب اپنے تعزیتی پیغام کو نہایت جذباتی انداز میں بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ........ 

"*آہ! فرید بھائی*
فرید بھائی بھی ساتھ چھوڑ گئے۔بڑے جیوٹ کے آدمی تھے۔صحت مند،تندرست وتوانا۔ ہشاش بشاش ۔خود معالج تھے،بیماری ان سے دور بھاگتی تھی۔کبھی سنا نہیں گیا کہ وہ بیمار ہوئے۔وسط رمضان میں اچانک خبر آئی کہ ممبئی اور لکھنؤ کے سفر کے دوران کہیں کرونا کی ہوا لگ گئی۔ظالم نے انھیں بستر پر ڈال دیا۔پہلی بار بیمار ہونےکو سناگیا۔خیال تھا کہ وہ اسے پچھاڑ دیں گے۔خود ڈاکٹر،اہلیہ ڈاکٹر،چارو بچے ڈاکٹر ۔  علاج معالجہ کی ہر طرح کی سہولت۔سب نے جی توڑ کوشش کی۔اپنے سے سنبھلتا  نہیں دکھائی دیا تو لکھنؤ لے کر بھاگے۔ارا ہاسپیٹل میں 18 روز آئی سی یو میں رہے۔بچے ایک پیر پر کھڑے رہے۔صدقہ دیا گیا،دعائیں ہوئیں ۔ڈاکٹروں نے ہر ممکن کوشش کی۔ان کے بس سے باہر ہوا تو چندن ہاسپیٹل کےلئے ریکمنڈ کردیا کہ وہاں  سہولیات زیادہ اور مشینیں اعلی درجے کی ہیں ۔تدبیریں سب کی گئیں مگر کوئی تدبیر کام نہ آئی۔اللہ کے فیصلے کے سامنے کس کی تدبیر چلتی ہے۔اس نے اتنی ہی مہلت عمل مقدر کررکھی تھی۔آج اپنے پاس بلاہی لیا۔اناللہ وانا الیہ راجعون۔
فرید بھائی رخصت ہوئےتو اپنے پیچھے روتا بلکتا ایک جہان چھوڑ گئے۔اہلیہ ڈاکٹر نجمہ فرید،بیٹی ڈاکٹر کلثوم فرید،بیٹا ڈاکٹر عمر فرہد،بیٹیاں ڈاکٹر ایمن فرید ورقیہ فرید سب اس امید کے ساتھ لکھنؤ لے کر گئے تھے کہ وہاں سے شاداں وفرحاں لوٹیں گے۔ مگر آج جسد خاکی کی حامل ایمبولینس کے ہم رکاب ہیں۔لکھنو سے اعظم گڑھ کا طویل سفرہے۔راستے میں طوفان ہے،بارش ہے۔ کیا گزرہی ہوگی ان معصوموں پر۔تین بھائی دو بہنوں کے علاوہ ضعیف والدہ کےلئے بھی اولاد کا جنازہ دیکھنا مقدر تھا۔بوڑھی ماں کیسے سہار پائے گی۔اے اللہ تو ہی صبر دینے والا ہے۔تو ہی سہارا دینے والا ہے۔ان ناتوانوں کو صبرِ جمیل کی توفیق عطا فرما۔انھیں اپنی پناہ میں لے لے۔انھیں ہمت وحوصلہ عطاء فرما۔
فرید بھائی سے پہلی ملاقات ندوہ کے صحن میں ہوئی،وہ اور ہمارے دیرینہ دوست ڈاکٹر صباح الدین اعظمی جامعۃ الفلاح سے عالمیت کرکے آئے تھے اور میں اصلاح سے۔وہ لوگ کلیۃ الادب کے اعلیٰ درجات میں داخل ہوئے تھے اور مجھے کلیۃ الشریعہ میں داخلہ ملا تھا۔اصلاح وفلاح کی فکری مناسبت کے علاوہ ہم لوگوں کی ٹوپیاں ایک طرح کی تھیں،اس لئے ایک نظر سے دیکھے جاتے تھے۔بڑی جلدی دوستی ہوگئی۔پھر معاملات میں شراکت ہونے لگی۔وہ دھن کے پکّے تھے،ہمیشہ ایک اونچا ٹارگٹ طے کرتے تھے پھر اسے اچیو کرکے دم لیتے تھے۔ندوہ میں صرف دو برس قیام رہا،اس مدت میں انھوں نے پورا ندوہ فتح کرلیا۔کلاس کے استاذہ،ناظر کتب خانہ،سربراہان ادارہ سب کے دل میں جگہ بنالی تھی،کوئی ان کی ذہانت کا دلدادہ تھا، تو کوئی محنت کا۔کوئی قابلِ فخر شاگرد سمجھتا تو کوئی ادارہ کادرخشندہ ستارہ تصور کرتا تھا۔بڑے ذمہ داران حضرت مولانا علی میاں رحمہ اللہ،حضرت مہتمم صاحب کی زبان پر ان کا نام تھا۔حضرت مولانا رابع صاحب،واضح صاحب۔سعیدالاعظمی صاحب،نذرالحفیظ صاحب،نورعظیم صاحبان تو اساتذہ میں تھے،سب کی نگاہ میں محبوب تھے۔سب انھیں عزیز رکھتےتھے۔حضرت مولانا مفتی ظہور صاحب وارڈن تھے۔ان کا کمرہ ہم لوگوں کا ملن اڈہ تھا۔وہ بھی بہت مانتے تھے۔ندوہ سے فارغ ہو کر ہم تینوں علی گڑھ آگئے۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا دامن بہت وسیع ہے۔الگ الگ سبجیکٹ میں سب کو دا خلہ ملا،سب نے پرواز کے لئے اپنا اپنا افق تلاش کیا۔مگر یہاں جوڑنے کےلئے ایک نیا بندھن مل گیا۔سب لوگ ایک طلبہ تنظیم کے رکن ہوگئے۔پھر سب لوگ ایک ہوگئے۔وہ ابھی بی اے ہی کرہے تھے کہ شادی ہوگئی۔شادی شدہ آدمی اپنے جرم کا بدلہ دوسرے کی شادی کراکے لیتا ہے۔ انھوں نے دوستوں پر ہاتھ ڈالنا شروع کردیا۔اور راقم پر تو یہ خاص کرم بھی کیا کہ اپنی سسرال میں بچی ہوئی ایک زلف کو اپنے دوست کے ساتھ باندھ کر ہم زلف بنا لیا۔آج جب ان کی وفات کی خبر سے ہر طرف کہرام ہے، آہیں ہیں،سسکیاں ہیں۔تو میرا گھر بھی غم میں ڈوبا ہوا ہے۔ان کو سنبھال پانا بھی مشکل ہورہا ہے۔اللہ سب کو صبر دے۔
فرید بھائی بی اے کے ساتھ سول سروسز کی تیاری بھی  کر رہے تھے۔مگر بی اے مکمل کرکے بی یو ایم ایس میں چلے گئے۔سبب جوبھی رہا ہو،بظاہر لگتا یہ ہےکہ انھیں خیال کزرا ہوگا کہ اگر وہ  IAS ہوئے تو تنہا ہونگے۔کیوں نہ ایسا کورس چنیں جس میں جیون ساتھی کا ہمیشہ ساتھ رہے،چنانچہ دونوں نے ایک ساتھ ٹسٹ دیا۔ایک ساتھ داخلہ لیا،ایک ساتھ فارغ ہوئے،ایک ساتھ کلنک شروع کی،پھر اس ساتھ میں اللہ نے اتنی برکت دی کی ایک قلمرو کھڑی کردی۔خوب شاندار قلم رو۔ابھی اسے اور آگے جانا تھا۔بڑے عالی شان منصوبے تھے۔اپنی پوری ذریت کو  اسے آگے بڑھانے کےلئے  تیار کررہے تھے،ابھی ان کی پرواز شروع ہونی باقی تھی کہ ناتمام منصوبہ ان کو ورثہ میں دے رخصت ہوگئے۔جس جیون ساتھی کے ساتھ کےلئے منزل تبدیل کی تھی،وہ اکیلی ہوگئی۔اس کے اوپر اتنی بڑی ذمہ داری آن پڑی۔اللہ انھیں صبر کے ساتھ ہمت وحوصلہ عطاء کرے آمین ۔
کل جامعۃ الفلاح کے جوار میں نماز جنازہ ہوگی۔ ڈھیر سارے ہاتھ دعاؤں کےلئے اٹھیں گے۔ان کی خدماتِ،ان کی حسنات اوران کی قربانیوں کا حوالہ دےکر بخشش کی در خواست کی جائے گی۔بار الہا! ان کی حسنات کو قبول فرمالے۔کوتاہیوں کو درگزر فرمادے۔ان کے بچوں کو،بیوہ کو اور تمام پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق عطاء فرمادے آمین یارب العالمین
جانے والے میں بڑی خوبیاں تھیں،سب سے بڑی خوبی محنت و جانفشانی تھی۔زندگی بھر انتھک محنت کی۔جو بنایا اپنے دم سے بنایا۔اور اس کا فیض بہتوں کو پہونچایا۔وہ بڑے ہمت وحوصلہ والے انسان تھے۔آزمائشوں میں بے خطر کود پڑتے تھے۔اور سرخرو ہوکر نکلتے تھے۔
سوگوار بھائی
اشھدجمال ندوی
20/ مئی2021
ڈاکٹر فرید کے انتقال سے قوم وملت کو بڑا نقصان ہوا ہے.. ابھی تو ان کو بہت کچھ کرنا تھا.. ابھی تو شخصیت میں نکھار آنا باقی تھا... مگر اللہ کی مرضی کے آگے سب بے بس ہیں. 
"بڑے شوق سے سن رہا تھا زمانہ. 
تمہیں سو گئے داستاں کہتے کہتے. 
اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ مرحوم ڈاکٹر فرید کی بشری غلطیوں و کوتاہیوں کو معاف کرے.. ان کی خدمات و عبادات کو قبول کرے اور اپنی رحمت کے سائے میں رکھے.... بیوی بچوں و تمام لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے اور ان کے ادھورے کام کی تکمیل کا حوصلہ دے... آمین... 
ڈاکٹر شرف الدین اعظمی /صدائے وقت /21 مئی 2021.