Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, May 4, 2021

آہ! ستارہ جو ٹوٹ گیا!!!برادرم محمد حسیب (آئی اے ایس) بارگاہِ ایزدی میں



از قلم: محمد زبیر ندوی
دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا
                  صدائے وقت 
============================
آہ کرونا کی قہر سامانیوں نے ایک سال سے زائد عرصے سے نوع انسانی کی چنیدہ شخصیات کو کس قدر لقمہ اجل بنا رہا ہے، اس ایک سال کے عرصے میں اپنے پرائے، خویش و اقارب، اساتذہ و محبین کتنے آفتاب و ماہتاب اور انجمہائے شب تاب موت کی چادر اوڑھ کر ابدی نیند سوگئے، ان قافلوں میں اتقیاء و صوفیاء بھی تھے اور علماء و مشائخ بھی، ادباء و شعراء بھی تھے اور اہل حرفت و صنعت بھی، آسمان تحقیق و تدقیق کے درخشندہ ستارے بھی تھے اور دنیوی علوم و فنون کے در آبدار بھی، دینی حلقوں کے خوشہ چیں بھی تھے اور عصری تعلیم یافتہ جیالے بھی، سیاست کے مردان حر بھی تھے اور فلاح و بہبود کے مردان کار بھی، لیکن جن نمایاں شخصیات کی جدائی پر بے انتہا افسوس اور حد سے زیادہ غم ہوا ان میں ہمارے دوست باوفا با وزن نیک و ایماندار ادھیکاری جناب محمد حسیب صاحب (آئی اے ایس، اسسٹینٹ ٹیکس کمشنر، اے آر ٹی او حمیر پور) تھے، جن کی وفات حسرت آیات نے کلیجہ دہلا دیا، سوچا بھی نہیں تھا کہ ایسا شخص اس قدر جلدی ہم سے رخصت ہوجائے گا۔

ایں قدر تیز بود در رفتار
در شبا شب بعاقبت می رسید

حسیب بھائی ایک اعلی تعلیم یافتہ بااخلاق انسان تھے، ان کی پیدائش ضلع بہرائچ کے گاؤں چَک موضع خیرا بازار ١/اگست ١٩٨٣ء میں ہوئی، ان کے والد محترم ماسٹر ابو شحمہ انصاری جو خود ایک صاحب علم و دیندار شخص ہیں، اور بیک وقت اردو و ہندی کے شاعر ہیں نے اپنے اس ہونہار فرزند کی اعلیٰ تعلیم کے لئے ہمیشہ کوشاں رہے، انہیں ایماندار ادھیکاری اور بھید بھاؤ سے خالی ادھیکاری کی سخت کمی محسوس ہورہی تھی؛ اس لیے انہوں نے طے کرلیا تھا کہ اپنے اس فرزند ارجمند کو اس قابل بنائیں گے، اور بالآخر محنت شاقہ، جہد مسلسل، عمل پیہم اور مشکلات در مشکلات کے بعد وہ وقت آیا کہ پورے بہرائچ میں محمد حسیب کے آئی اے ایس پاس ہونے اور پہلے اسسٹنٹ کمشنر آف ٹیکس ڈیپارٹمنٹ پھر اے آر ٹی او ادھیکاری بننے کی خبر یکے بعد دیگرے گونجتی رہی۔ 

مرحوم عصری علوم میں ہمارے بہرائچ کے مسلم طبقہ میں پہاڑ مانے جاتے تھے، عصری تعلیم میں انہیں ایسے ہی دستگاہ حاصل تھی جیسے ہمارے یہاں بڑے سے بڑے شیخ الحدیث کو فن حدیث یا فقیہ عصر کو فقہ میں درک حاصل ہوتا ہے، میں اپنی ذاتی ملاقاتوں کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ وہ فرد فرید اور یکتائے روزگار تھے، ان کے یہاں علمی باتیں، ملکی فکریں، تعلیم کے متعلق مسلم نوجوانوں کی گائیڈ بہت تھی، قلت ہنسی مزاق کے باوجود خوش اخلاقی، علماء کا اکرام، اہل علم سے محبت، اپنائیت اور سب سے بڑھ کر خلوص بہت پایا جاتا تھا۔
مرحوم اتنے بڑے عہدے پر فائز ہونے کے باوجود بے انتہا خودر نواز تھے، دینداری بھی بہت تھی، نماز روزوں کی پابندی خوب کرتے تھے، اپنے خادموں اور نوکروں کے ساتھ بھی برادرانہ سلوک کرتے تھے، ادھیکاری کی اثناء وہ علی گڑھ، قنوج، اور حمیر پور میں رہے، وہاں کے لوگ آج بھی ان کی تعریف کرتے ہیں، بلکہ جس دن وفات ہوئی اس حمیر پور میں صف ماتم بچھی ہوئی تھی، عموماً سرکاری افسران کے ساتھ عوام الناس کا ایسا تعلق دیکھنے میں نہیں آتا لیکن مرحوم کی غیر جانبدارانہ خدمات اور من موہن سیرت و کردار نے حمیر پور کے واسیوں کہ سوگ منانے پر مجبور کر دیا، مرحوم جس شعبے سے وابستہ تھے اس میں رشوت ایک جزو لاینفک است، اس کے باوجود رشوت کا ایک روپیہ حرام تھا، اس شعبے میں اس قدر ایمانداری کے ساتھ زندگی گزارنا ولایت سے کم نہیں۔

مرحوم کی ایک بڑی خصوصیت یہ بھی تھی کہ وہ سیکڑوں افراد کے لیے انسپائریشن کی حیثیت رکھتے تھے، سینکڑوں نے ان سے مشورے کئے، ہزاروں نے ان کی تقلید کی، ہزاروں ان کے نقش قدم پر چلے، بہتوں نے انہیں نمونہ بنایا، کتنوں کی انہوں نے خود دستگیری کی، اور سب اپنی منزل کی طرف چڑھتے رہے، بڑھتے رہے اور کشاں کشاں منزل مقصود کو پہنچ گئے۔

ان سب کے باوجود تواضع اور انکساری ان کے اندر اتم درجے میں موجود تھی، وہ ہم لوگوں سے کہا کرتے تھے کہ اصل زندگی آپ لوگوں کی اور عوام الناس کی ہے، کہتے تھے آپ لوگ چلنے پھرنے، ہنسنے اور اٹھنے بیٹھنے میں آزاد ہے، ہم ادھیکاریوں کی یہ آزادی سلب ہو چکی ہے، کبھی کبھی بارہ گھنٹے گزر جاتے ہیں ہنسنے کو نہیں ملتا، ہنسنے سے اس شعبے میں وقار مجروح ہوتا ہے، آدمی ہلکا ہوجاتا ہے، خدا کرے کہ مرحوم اب اپنی ہشت بہشت میں سدا ہنستے مسکراتے رہیں، خدا تعالیٰ بال بال مغفرت فرمائے، کروٹ کروٹ سکون و راحت بخشے، حقیقت یہ ہے کہ مرحوم نے خود تو آنکھیں بند کرلیں لیکن ہم جیسے لاکھوں کور چشموں کی آنکھیں کھول دیں کہ:

موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ!  کل ہماری باری ہے

اللہ تعالیٰ مرحوم کے والدین، بھائی بہن، متعلقین، جملہ خویش و اقارب کو صبر جمیل عطا فرمائے اور ہم لوگوں کو اپنی تیاری کی توفیق بخشے، ہمارے لیے یہ بات باعثِ تسکینِ دل ہے کہ برادر مرحوم ان شاءاللہ شہید آخرت ہونگے، کیوں کہ وبائی امراض میں فوت ہونے والے مسلمان اخروی اعتبار سے شہادت کے مقام پر فائز ہوتے ہیں نیز رمضان المبارک کا مہینہ اور پھر مغفرت کا عشرہ کیا کہنے۔

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے