Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, May 6, 2021

*اساتذۂ مدارس اورنظماء کی بےاعتنائیاں*


از*محمد امین الرشید سیتامڑھی*/صدائے وقت. 
+++++++++++++++++++++++++++++
اساتذہ قوم کے معمار ہوتے ہیں، ان کی محنت و کاوش سے بہت سارے ہیرے، جواہرات وجود میں آتے ہیں۔ اگر یہ محنت نہ کریں اور تساہلی سے کام لیں تو ہمیں ہیرے جواہرات نہیں ملیں گے۔ بلکہ نکمے اور ناکارے وجود میں آئیں گے۔ اگر قوم کو اچھے اور صالح افراد مل رہے ہیں تو اس میں کہیں نہ کہیں اساتذۂ کرام کا اخلاص، ان کی بے پناہ قربانیاں شامل ہیں کہ یہ ہمیں ایسے افراد فراہم کرتے ہیں جو قوم و ملت کی رہبری و رہنمائی کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔
اگر یہ اساتذہ نہ رہیں یا انھیں مجبور و لاچار کردیا جائے تو ہمیں اچھے اور بہتر معمار سے ہاتھ دھونا پڑے گا؛ جو کہ کسی بھی صورت میں صحیح نہیں ہوگا۔
قسمیہ کہوں تو ایسے ایسے اساتذہ بھی موجود ہیں جو ملک کے مایہ ناز اور بڑے اداروں میں 20،20 30،30 سالوں سے مدرس ہیں مگر ان کی تنخواہیں آج بھی 10،12 ہزار سے زیادہ نہیں۔۔۔
رہائش کے نام پر دو کمروں کا بوسیدہ مکان دے کر زندہ رہنے کے قابل رزق دے کر یہ مہتممین اپنے آپ کو رزق رساں سمجھتے ہیں اور ان مہتممین اور اداروں کے اساتذہ پھر بھی احسان مند ہیں کہ چلو ہمیں رزق ملتا رہا ورنہ ہم فاقوں کی وجہ سے ملحد یا خدا نخواستہ دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوئے۔۔۔
وہ مہتمم حضرات اور شیوخ جو اساتذہ کو سادگی،قناعت، صبر و شکر کا درس دیتے ہیں، اکابرین کے واقعات اور کرامات سنا کر فقر و فاقہ کو خوش قسمتی سے تشبیہ دیتے ہیں کیا ایسے مہتممین اور شیوخ کی اپنی زندگی میں قناعت، سادگی اور گھر میں فاقہ ہوتا ہے۔۔۔؟
مہتممین حضرات کی لگزری مہنگی گاڑیاں، ضرورت سے زیادہ بڑا عالیشان مکان، صاحبزادوں کی شہزادوں جیسی عیاشیاں، اپنی بیٹی بیٹے کی شادی پر لاکھوں کے خرچے شہر کے مہنگے شادی ہالوں میں شادیاں۔۔۔
اس سسٹم میں پسنے والا مظلوم طبقہ مدرسین کا ہوتا ہے جن کے لئے کوئی آواز اٹھانے والا نہیں ہوتا، استادوں کی اپنی کوئی یونین یا تنظیم نہیں ہوتی، ان کے لئے قانون کی کسی کتاب میں کوئی باب نہیں، یہ طبقہ صدیوں سے یونہی پستا آرہا ہے
بہت سے ادارے ایسے بھی ہیں جو اساتذہ 
تنخواہیں دیتے رہے ، دیگر ضروریات کی تکمیل کی بھی کوشش کی ، جو قابل تعریف اور لائق تقلید عمل ہے ، اللہ تبارک وتعالی ایسے تمام نظماء مدارس اور متولیان مساجد کو اپنی شایان شان جزا عطا فرمائے ، کہ انہوں نے خدمت گزاری کا حق ادا کیا ، وفاداری کے نمونے پیش کیے ، انسانیت کا سر بلند کیا اور اسلامی اور شرعی حکم کی بالادستی کو قائم رکھا۔
بعض مدارس نے مدرسین کے سامنے واضح کردیا کہ موجودہ پریشانی کی وجہ سے وہ مکمل تنخواہ ادا نہیں کرسکتے ، لیکن حالات صحیح ہونے کے بعد سابقہ باقی تنخواہ کی بھی ادائیگی کردی جائے گی، ان کا یہ عمل احتیاط پر مبنی ہے اور اسے غیر درست نہیں کہا جاسکتا ، کیوں کہ پریشانی کے عالم میں اساتذہ کو بھی مدرسے کا اتنا تعاون کرنا ہی چاہیے اور وہ ماشاء اللہ کر رہے ہیں
*مدرسین مدرسہ کی چھٹیوں کے ایام کی تنخواہ کے حق دار ہیں یا نہیں؟*
*سوال*
مدرسین کی تنخواہ کی شرعی حیثیت کیا ہے اور اس کو شوال تا رمضان دیاکریں گے؟ یا جب سے مدرسہ آیا ہے اس وقت سے اور جس مہینہ مدرسہ میں چھٹی ہوتواس مہینہ کی تنخواہ ملنی چاہیےیانہیں؟ 
*جواب*
واضح رہے کہ مدارس کے مدرسین کے ساتھ تدریس کا جو معاہدہ ہوتا ہے، اس کی تین ممکنہ صورتیں ہیں: الف:… معاہدہ میں یہ طے ہو کہ مدرسین کے ساتھ یہ عقد سالانہ بنیادوں پر ہے، ایسی صورت میں حکم واضح ہے کہ انہیں ایامِ تعطیلات یعنی شعبان ورمضان کی تنخواہ بھی ملے گی، کیوں کہ ایامِ تعطیلات، ایامِ پڑھائی کے تابع ہیں۔ مدرسین کو اُن میں آرام کا موقع دیاجاتاہے، تاکہ اگلے سال پورے نشاط کے ساتھ تعلیم وتدریس کا سلسلہ برقرار رکھ سکیں۔
ب:… معاہدہ میں کسی بات کی وضاحت نہ ہو کہ اس عقد کی مدت کتنی ہے! تو ایسی صورت میں عرف کا اعتبار کرتے ہوئے اس معاہدہ کو مسانہۃً (سالانہ) شمار کیا جائے گا، کیوں کہ مدارس کے عرف میں تدریس کا معاہدہ مسانہۃً ہوتا ہے۔
ج:… معاہدہ میں اس بات کی شرط ہو کہ یہ معاملہ شوال سے رمضان تک ہوگا، اگلے سال معاہدہ کی تجدید ہوگی، اور مدرسین بھی اس بات پر راضی ہوں تو ایسی صورت میں یہ معاملہ مسانہۃً نہیں ہوگا، بلکہ تصریح کے مطابق شوال سے رمضان تک شمار ہوگا اور مذکورہ مدرسین رمضان کی تنخواہ کے مستحق نہ ہوں گے۔
اس مشکل دور میں ہر کسی کا گھر کسی نا کسی طرح متأثر ہوا ہے، ان میں سب سے زیادہ پریشان کن حالات میں پایا جانے والا ایک طبقہ اساتذۂ مدارس بھی ہے ۔ جن مدرسوں میں یہ پڑھا رہے تھے وہاں کے ناظمین ، یا مہتمم حضرات نے اپنے مدرسین کے ساتھ جو ناروا سلوک کیا ہے اس سے بھی بہت حد تک لوگ واقف ہیں۔ پرائیویٹ اساتذۂ کرام تو اس وقت بہت ہی مشکل دور سے گزر رہے ہیں، بہتوں نے تو اپنا راستہ ہی الگ اختیار کرلیا ہے، اور منتظمین سے بدظن ہیں۔ ان کی خیر و خبر اہل ثروت حضرات ضرور لیں، اور ایسے قابل اساتذۂ کرام کی مالی تعاون بھرپور انداز میں کریں۔
ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ عقل سلیم عطا فرمائے. اور ہم سب کو اساتذۂ کرام کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے. آمین یارب العالمین
*محمد امین الرشید سیتامڑھی ابن حضرت مولانا حافظ محمد ہارون رشید صاحب مظاہری علیہ الرحمہ سابق استاد مدرسہ اسلامیہ عربیہ بیت العلوم سرائےمیر اعظم گڑھ یوپی*