Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, May 14, 2021

غم کے سائے میں عید اب کے برس بھی آئئ ہے

                      تحریر 
مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار، اڈیشہو جھارکھنڈ. 
                     صدائے وقت. 
=============================
رمضان المبارک کا مہینہ گذر گیا ، عیدآگئ، اسلام میں اس دن کی اہمیت اس لیے ہے کہ رمضان المبارک کے روزوں کے بعد یہ دن اللہ ربّ العزت کی طرف سے اجرت کی ادائیگی کا ہے، بخشش کے پیغام کا ہے، رحمت کا ہے، جہنم سے گلو خلاصی کا ہے، اس لیے اس دن بارگاہ الٰہی میں سجدہ شکر بجا لایا جاتا ہے، اور عہد کیا جاتا ہے کہ جس طرح رمضان المبارک میں ہم نے اپنی زندگی اللہ کی مرضیات کے مطابق گذاری، آئندہ بھی اس کا اہتمام کریں گے، نفس پر شیطان کو حاوی نہیں ہونے دیں گے، مسجدوں کو آباد رکھیں گے، خیر کے کاموں میں سبقت کریں گے، غرباء ومساکین کی ضرورتوں کی تکمیل پر دھیان رکھیں گے، اس شکر اور عہد کے ساتھ بندہ جب عید گاہ سے لوٹتا ہے تو وہ گناہوں سے پاک صاف ہوکر لوٹتا ہے؛ لیکن مسلم سماج کی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ بہت جلد اس عہد کو بھول جاتا ہے، رمضان المبارک کی تربیت کے سخت اثرات اس کی زندگی میں دیر تک باقی نہیں رہتے، وہ پہلے ہی کی طرح فسق و فجور اور گناہوں میں لگ جاتا ہے، مسجدیں نمازیوں سے خالی ہوجاتی ہیں اور شیطان انہیں اغوا کرلیتا ہے، اور پھر اگلے رمضان میں جب دوبارہ شیطان پابند سلاسل ہوتا ہے تو یہ اغوا شدہ نمازی پھر سے مسجد کا رخ کرتے ہیں۔اتنی جلدی رمضان المبارک کے اثرات ختم ہونے کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ ہم نے روزے اس طرح نہیں رکھے، جس طرح کے روزے شریعت میں مطلوب ہیں۔روزہ صرف کھانے پینے اور شہوانی خواہشات سے رک جانے کا ہی نام نہیں ہے؛ بلکہ روزہ آنکھ، ناک، کان، زبان، ہاتھ،پاؤں، دل و دماغ سب کا ہوتا ہے،کھانا پینا چھوڑنے کے باوجود زبان برا بھلا کہنے اور مغلظات بکنے سے باز نہیں آئ، غیبت،طعن و تشنیع اور جھوٹ سے پر ہیزنہیں ہوا تو زبان کا روزہ نہیں ہوا، آنکھ موبائل کی اسکرین پر جمی رہی، دن رات غیر مہذب فلم اورغیر ضروری پیغامات کی ترسیل میں آنکھیں لگی رہیں، بازاروں میں غیر محرم عورتوں کو دیکھ کر آنکھیں سینکی جاتی رہیں تو آنکھ روزے سے محروم رہی، ہاتھ پاؤں دوسروں کی ایذا رسانی میں لگے رہے، خدمت کے بجائے تکلیف پہونچانے کا کام کیا تو ہاتھ پاؤں روزے سے محروم ہوگئے، دل و دماغ میں غلط قسم کے خیالات پروان چڑھتے رہے، ہماری سوچ کا مرکز و محور اسلامی تعلیمات کے خلاف رہا تو دل و دماغ نے بھی روزہ نہیں رکھا، اب  جوروزہ بچ گیا ، یہ ایک ڈھانچہ ہے، بے روح اور بے جان، جس کے بارے میں احادیث میں کہا گیا ہے کہ ایسے بے جان روزوں کی اللہ کو ضرورت نہیں۔اس معاملہ میں فتویٰ کی زبان تو یہی ہے کہ روزہ مستقل عبادت ہے، کمی کوتاہیوں کے باوجود اس قسم کے روزوں سے بھی فرضیت ساقط ہوجائے گی؛لیکن روزے کا جو اصل مقصد اللہ کا خوف ، خشیت اور ڈر پیدا ہونا ہے وہ حاصل ہونے سے رہا، اس لیے عید کے دن اس کا محاسبہ بھی کرنا چاہیے کہ ہمارا روزہ کس درجہ کا ہوا، اگر محاسبہ میں اس نتیجے تک  انسان پہونچے کہ روزہ تو رکھا، لیکن اس درجہ کا نہیں ہوپایا؛ جو شریعت کو مطلوب ہے تو کثرت سے استغفار کرنا چاہیے اور رورو کر اللہ کے دربار میں گرگرانا چاہیے؛کیوں کہ رمضان کا مہینہ ختم ہوگیا لیکن  دینے والی ذات جو اللہ ربّ العزت کی ہے، وہ ہمیشہ قائم و دائم ہے اور اس کی رحمت ہر وقت موجود اورساری کائنات سے وسیع ہے، وہ ستار العیوب بھی ہے اور غفار الذنوب بھی، اس کو تو بخشش کے لئے ایک بہانہ چاہیے ہم نے توبہ استغفار کیا، اللہ سے مانگا تو اللہ ضرور دے گا، اور ہمارے احوال کو بدل دے گا،خوب اچھی طرح یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ احوال حکمرانوں کے بدلنے سے نہیں بدلتے ، اعمال کے بدلنے سے بدلتے ہیں، حدیث میں کہا گیا ہے کہ تمہارے اعمال ہی تم پر حکمراں ہیں، اللہ ربّ العزت کا یہ ارشاد بھی ہمیں ہر وقت یاد رکھنا چاہیے کہ روۓ زمین پر جو فساد و بگاڑ ہے وہ اصل ہمارے ہاتھوں کی کمائیاں ہیں، جو مصیبتیں آتی ہیں یا آئ ہیں وہ ہمارے کرتوتوں کا نتیجہ ہیں اور وہ بھی اس صورت میں ہےجب اللہ غفور الرحیم ہمارے گناہوں کو بخشتا رہتا ہے، وہ اگر پکڑنے پر آجائے تو ہم ایک پل زندہ رہنے کے لائق نہیں ہیں۔
رمضان المبارک کے اختتام پر صدقۃ الفطر ادا کیا جاتا ہے،یہ در اصل روزوں میں کمی کوتاہی جو واقع ہوئی اس کا کفارہ ہے؛لیکن ادا ان لوگوں کی طرف سے بھی کرنا ہے جو بچے ہیں، جن پر روزہ فرض نہیں ہے، عید کی صبح تک جو بچے اس دنیا میں آۓ ان کی طرف سے بھی صدقہ فطرادا کرنا ہے، تاکہ غرباء ومساکین کی زیادہ خبر گیری کی جاسکے اور عید کا دن جو اللہ کی طرف سے خصوصی میزبانی کا دن ہے، اس میں کوئی بھوکا نہ رہ جائے، یہ صدقہ عید گاہ جانے سے قبل تک ادا کرنے کی گنجائش ہے؛لیکن اسے پہلے ادا کردینا چاہئے تاکہ غرباء بھی عید کے دن کے لئے اپنی خوشی اور ضرورت کے سامان مہیا کرلیں۔مسلمانوں کو اس بات کا خیال رکھنے کی بھی ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنے پاس پڑوس کے مفلوک الحال اور پریشان لوگوں کی مدد کرتے رہیں، یہ مدد صدقہ فطر سے بھی ہوسکتی ہے، زکوٰۃ کی رقم سے بھی، اس کے علاوہ عطیات، قرض حسنہ اور صدقات نافلہ کے مال سے بھی، بندہ جس قدر ان کا خیال رکھے گا، اللہ کی نصرت، مدد اور بندے کے مال میں برکت اسی قدر ہوگی، اس کے علاوہ مال ضائع ہونے سے بھی بچا رہے گا، کیوں کہ اس نے اللہ ربّ العزت کے یہاں اپنے مال کا بیمہ کرا لیا ہے اور جب دنیاوی کمپنیوں کے ذریعہ انشورڈ مال کے ضیاع پر اس کی تلافی کی صورت نکالی جاتی ہے تو اللہ رب العزت کے یہاں جس نے اپنا مال انشورڈ کرالیا ہے وہ کس طرح برباد ہوسکتا ہے اور کبھی کسی وجہ سے برباد ہو بھی گیا تو آسمان وزمین کے خزانے کی کنجی تو اسی کے پاس ھے، پھر بندہ محروم کس طرح رہے گا، کاش اس حقیقت کو ہم سب لوگ سمجھ لیتے تو آج جو پریشانیاں ہیں، اس کے تدارک کا خدائی انتظام ہوتا ۔اور گزشتہ دو سالوں سے جس طرح رمضان و عید گذررہا ہے اس کی نوبت نہیں اتی۔
گذشتہ سال بھی رمضان المبارک میں اللہ رب العزت کے گھر کے دروازے ہمارے  اوپر بند کردئیے گئے تھے، مسجد کی جماعت میں حاضری ، تراویح میں شرکت ،اعتکاف میں بیٹھنے کی سعادت نہیں مل پائ تھی، جمعہ کے بجائے ظہر پڑھی جارہی تھی، اور تو اور جمعۃ الوداع جس کو مسلمانوں میں شرعی نہیں، نفسیاتی طور پر غیر معمولی اہمیت دی جاتی ہے اس سے بھی مسلمان محروم رہ گئے تھے۔
 مسجدوں میں جو خصوصی رونق رمضان المبارک کے موقع سے ہوتی تھی، اس کو دیکھنے کو آنکھیں ترس گئیں، جن لوگوں نے جرأت دکھائی انہیں دارو گیر کا سامنا کرنا پڑا، امسال بھی  کورونا میں ابتلاء عام کی وجہ سے رمضان المبارک میں یہی کیفیت رہی؛بلکہ بیماری کی اس دوسری لہر نے گزشتہ سال کے رکارڈ توڑ دئیے، مسلمان بھی عام لوگوں کی طرح مرض کی شدت سے دہشت و وحشت میں مبتلا رہے، بیماری سے بچنے کی شکل سرکاری گائیڈ لائن پر عمل کرنا تھا، سو مسلمان اس میں کسی سے پیچھے نہیں رہے ، یہی حال عید کا ہے، گزشتہ سال بھی عید کی نماز مساجد اور عید گاہ میں نہیں ہوپائی تھی، چھوٹی چھوٹی جماعت میں ہی عید کی نماز گھروں اور دروازوں پر ادا کی گئی، نماز کے بعد نہ مصافحہ نہ معانقہ دور دور رہ کر اور دوری بنا کر عید کا دن گذار دیا گیا، خوشی کی کیفیت اور چہروں سے مسکراہٹ غائب رہی، جو زیر لب مسکرا رہے تھے، ان کی مسکراہٹ کا دیدار بھی مشکل تھا؛ کیوں کہ ان کے ہونٹ، ناک ، ماسک  سے ڈھنکے ہوتے تھے، اب کے سال بھی عید اسی طرح دبے پاؤں گذر رہی ہے،  روایتی خوشی کے مظاہرے کا دور دور تک پتہ نہیں ہے، کیونکہ  کب کورونا کس  کی ناک سے پھپڑوں تک پہونچ جائے کہنا مشکل ہے،مسلمانوں کو چاہیے کہ زندگی کی حفاظت کے نقطہ نظر سے اپنے جذبات پر ہوش کی دبیز چادر ڈالے رہیں ، نماز عید کی ادائیگی اور اسکے بعد بھی سرکاری ضابطوں کی پابندی کا خیال رکھیں۔زندہ رہے اور اللہ نے موقع دیا تو شاید اگلے سال کورونا جہنم رسید ہو اور ہم لوگ بااطمینان و سکون  روایتی انداز میں عید کی خوشیاں منا سکیں،اپنے جذبات کو پابند سلاسل کرنا یہ بھی تربیت کا  ایک حصہ ہے  دنیا اس بات کی توقع رکھتی ہے کہ بیماریوں کے پھیلانے کا  ہم سبب نہیں بنیں گے، سبب تو ہم پہلے بھی نہیں بنے تھے؛لیکن اس ملک میں نفرت کی تجارت اور سودا گری جو ہورہی ہے وہ مواقع ڈھونڈتی ہے اور جب کوئی فتنہ زمانہ میں نیا اٹھتا ہے تو وہ اشارے سے ہماری تربت کی طرف اشارہ کردیتے ہیں اور پھر ایک زلزلہ آجاتا ہے اور تہ خاک تڑپنے اور تڑپانے کی قواعد شروع ہوجاتی ہے، اس لیے امسال بھی عید کو دبے پاؤں گذر جانے دیجئے-