Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, May 21, 2021

مسئلہ ‏ فلسطین ‏ اور ‏او آئی ‏سی ‏. ‏. ‏. ‏ ایک ‏ تجزیہ ‏


از/ محمد خالد اعظمی /صدائے وقت 
====================) ========
مسلم ممالک کی سیاسی تنظیم او آئی سی کے حالیہ اجلاس نے ایک بار پھر اس تصور کو صحیح ثابت کیا ہے کہ  یہ تنظیم نشست و برخاست سے آگے کچھ کرنے کی صلاحیت سے محروم ہے۔ یوں بھی سلطانی جمہور کے اس دور میں مسلم ممالک میں جاری خاندانی شہنشاہیت کی بقا اور اس کے دوام کا انحصار صرف امریکہ بہادر کی اطاعت و خوشنودی میں ہی پوشیدہ ہے اسلئے  امریکہ کی مرضی اور اشارے کے بغیر ان ممالک سےیہ امید رکھنا کہ وہ امت کا تصور لیکر فلسطین یا دنیا کے دیگر علاقوں میں محبوس، مقہور و مجبور مسلمانوں کے لئے آواز اٹھائینگے ، صحرا میں سراب کے مانند ہی ہے۔ اسلامی تاریخ آپس کے قتل عام اور حکومت بچانے کے لئے ذلت آمیز شرائط کے ساتھ ہونے والے معاہدوں سے بھری پڑی ہے اور حال اس سے مبرا نہیں ہے۔ موجودہ حالات میں یہ حقیقت مد نظر رہنی چاہئے کہ امریکہ و یورپ جس وقت بھی طے کر لینگے سعودی عرب، امارات، قطر یا کویت میں بھی لیبیا، عراق، شام یا یمن جیسے حالت پیدا کر دینگے اور پوری دنیا کے مسلمان چاہ کر بھی کچھ نہیں کر سکیں گے، جیسے موجودہ حالت میں کچھ نہیں کر سکتے۔ عراق کے صدام حسین بھی کسی وقت میں امریکہ کے منظور نظر تھے اور کویت پر حملہ اور قبضہ بھی انہوں نے امریکہ کے اشارے پر ہی کیا تھا، لیکن سی آئی اے کی سازش کو نہ سمجھ سکنے کی وجہ سے عراق اور صدام حسین کا  حشر سب کے سامنے ہے کہ کس طرح پوری دنیا کے مسلمانوں کو احساس ذلت میں مبتلا کرنے کے لئے عین عید کے دن انہیں پھانسی پر لٹکا یا گیا- مشرق وسطی کے موجودہ بحران اور فلسطین اسرائیل جنگ میں سعودی عرب یا دیگر ممالک سے یہ امید رکھنا کہ وہ اس جنگ میں فریق بن سکتے ہیں بالکل عبث ، جذباتیت سے پر اور حقائق سے پرے ہے۔موجودہ حالات اور عالمی  سفارتکاری میں مسلم ممالک کی کمزور حیثیت  کا تقاضا بھی یہی ہے کہ جذبات کے بجائے حقائق کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے۔ یہ عرب ممالک اپنی تمام تر کمزوریوں اور دنیاوی تعیش پسندی کے باوجود  پوری دنیا میں مسلمانوں کی بالواسطہ مدد اور لاکھوں مسلمانوں کے رزق و روزگار کا ذریعہ بھی ہیں  ۔ فلسطینی یہ جنگ صرف اللہ کی مدد اور اپنی مضبوط قوت ارادی کی بنیاد پر خود لڑ رہے اور وہ انشاء اللہ اس میں ضرور فتحیاب ہونگے ، فلسطینی اور افغانی مجاہدین شہادت کو اس سے کہیں زیادہ محبوب رکھتے ہیں جتنا یہودیوں یا دنیا کے دیگر مسلمانوں کو زندگی سے پیار ہے اور فتح بھی انہیں کے نصیب میں ہوتی ہے جو آزمائش کی بھٹی میں تپ کر نکھرتے ہیں، فلسطینی تو تہتر سال سے لگاتار اللہ کی طرف سے آزمائے جا رہے ہیں ۔ 
مشرق وسطی کے سیاسی حالات نہایت پیچیدہ اور قومی، علاقائی و مسلکی بنیاد پر منقسم اور امریکہ کی پیچ در پیچ مداخلت اس پر مستزاد ہے۔ اس حقیقت کی طرف بھی نگاہ رہنی چاہئے کہ ایک طرف امریکہ ایران کو اپنا دشمن اور بدی کا محور گردانتا ہے، لیکن 1990 کے بعد مشرق وسطی میں جاری  جنگ اور سیاسی اتھل پتھل میں ایران لگاتار ایک  علاقائی طاقت کے طور پر مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جارہا ہے۔ عراق جیسے  سنی اکثریتی ملک کا شیعہ مملکت میں تبدیل ہونا، لبنان اور شام کے اندر ایران کی فیصلہ کن موجودگی اور شام میں بشار الاسد کی حکومت کے استحکام میں ایران کا کردار ، یمن میں حوثی ملیشیا کی شکل میں ایران کی موجودگی ، مشرقی سعودی عرب میں جاری سورش میں ایران کا کردار اور بحرین کی شیعہ اکثریت کا سعودی عرب کے خلاف مظاہرہ ،چند ایسے حقائق ہیں جو علاقے میں ایران کی بڑھتی ہوئ دفاعی طاقت اور علاقے کی فیصلہ کن قوت کا مظہر ہیں ۔ موجودہ وقت میں سعودی عرب ایران کے مقابلے میں کمتر حیثیت کا حامل ملک ہے اور تین طرف سے شیعہ طاقتوں سے گھرا ہواہے، ایران کا یہ دفاعی استحکام اور بڑھتا ہوا علاقائی عمل دخل امریکہ کی مرضی کے بغیر ہو ، ایسا ممکن نہیں لگ رہا ہے، ساتھ ہی یہ حقیقت بھی محل نظر ہے کہ مشرق وسطی کی فوجی و دفاعی سیاست میں ایک طاقتور ایران امریکی مفاد کے لئے بھی بہت ضروری ہے کیونکہ سعودی عرب سمیت دیگر سنی ریاستوں میں امریکی فوجی ساز و سامان کی کھپت بڑھانے کے لئے ایران کا طاقتور ہونا ضروری ہے، اسلئے امریکہ کا ایران کو بار بار دشمن ملک کے طور پر مشتہر کرنا ایک سیاسی بازیگری کے سوا کچھ نہیں ہے، یہ کیسے ممکن ہے کہ امریکہ کی فیصلہ کن موجودگی میں اسکا دشمن تو لگاتار مضبوط ہوتا جارہا ہے اور دوست مستقل کمزور سے کمزور تر ہوتا جارہا ہے۔ 
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ حماس اور فلسطینیوں کو جو بھی امدادی رقوم اور سامان پہنچ رہے ہیں وہ اسرائیل کی اجازت اور مرضی کے بغیر ممکن نہیں ،اس میں بھی حماس اور غزہ کو کھلی مدد پہنچانے میں ایران ، قطر اور ترکی سر فہرست ہیں اور یہ تینوں وہ ممالک ہیں جو سعودی عرب کے لئے دوست ملک کی حیثیت نہیں رکھتے ، یعنی وہ ممالک جو علاقے میں اسرائیل کے دوست کی حیثیت سے آجکل مشہور ہیں یعنی، امارات سعودیہ اور بحرین انہیں امداد پہنچانے کی اجازت نہیں جبکہ ایران ترکی اور قطر جنہیں اسرائیل اپنا دوست تصور نہیں کرتا وہی ممالک غزہ کو امداد پہچانے میں پیش پیش ہیں اور انہی کو اسرائیل اجازت بھی فراہم کر رہا ہے۔