Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, June 14, 2021

مسلم سماج کی سیاسی نمائندگی، اعدادوشمار اور ‏ زمینی ‏ حقیقت ‏. ‏. ‏

از/ عمیق جامعی، قومی ترجمان سماجوادی پارٹی. 

                      صدائے وقت. 
==============================

2014 کے بعد ملک میں اقلیتی بالخصوص مسلمان ایک طرح سے اچھوت ہو  گئے ہیں اور مسلمانوں کی بات کرنے کا مطلب یہ سمجھانا کے تمام  ہندو ووٹ دور ہو کر دائیں بازو کی پارٹیوں بالخصوص بی جے پی کو  چلے جائیں گے یہ ہمیں ہٹلر  کے نازی دور کی یاد دلاتا ہے جب جرمنی میں یہودی اقلیتوں کی قتل و غارت گری سے قبل ان کی پسماندگی غربت تعلیم اور عدم تحفظ میں بہتری کے سلسلے میں  یا یوں کہیں کہ منصوبہ بند ریاستی تشدد کے خلاف جرمنی کی پارلیمنٹ تک خاموشی  تھی اور میڈیا میں  ان کے لیے سوالات تھانے بند ہوگئے تھے،   جرمنی میں یہودی اقلیت حاشیہ پر چلی گئی تھی جب لاکھوں یہودیوں بشمول بچوں  اور بزرگوں کا قتل عام ہورہا تھا تب ان کے لئے بولنے والا کوئی نہیں تھا.  یہی صورتحال دنیا کی سب سے  بڑی جمہوریت اور سیکولر ملک ہندوستان کی بھی ہے جہاں مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں انھیں  تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور ان کے ساتھ ہر قسم کی نا انصافی  ہو رہی ہے مگر  جنہیں مسلمان اپنا سمجھتا رہا وہ تمام پارٹیاں خاموش ہے یا وہ نہیں کر رہی ہیں جو کیا جانا چاہئے. مسلم مخالف ماحول کا استعمال دائیں بازو کی طاقتوں نے میڈیا  کے پروپیگنڈے کے  سہارے بہت خوبصورتی سے کیا ہے،  ماب لنچنگ ہو کیا حکومت حامیوں کے ذریعے تشدد، سڑک سے  پارلیمنٹ  تک ان کے خلاف وہ آواز نہیں سنائی دے رہی ہے جو سنائی دینی چاہیے تھی. 
 عدم تحفظ، ہجومی  تشدد اور  دہشت گردی کے بے قصور  ملزمان کا درد. 
  ہندوستانی  مسلمانوں  کے مسائل بھی عام شہریوں کی طرح ہی ہیں.  لیکن اچھوت و  شودر سماج  کی طرح مسلمانوں کے خلاف مذہبی تعصب اور نفرت کے سبب 1947 سے  آج تک  ان کے ساتھ کچھ نہیں بدلا  اور آج بھی نازی جرمنی کی طرز پر میڈیا کے ایک حصے کی مدد سے  پاکستان کے جھنڈے لگانے کے نام، کبھی داڑھی ٹوپی  اور ڈریس کوڈ کے نام پر تو کبھی گئو کشی، مسجد میں مائک کا استعمال، لو جہاد اور فرضی دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں کے حوصلوں کو توڑنے کا کام کیا جاتا ہے،  سیکڑوں نوجوانوں کو برسوں تک بے گناہی کے باوجود انصاف نہیں ملتا، ہجومی تشدد اور قتل کے لیے افواہ ہی کافی ہے  اس کے لیے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہے. ظلم  اور نا انصافی کے خلاف کھڑے ہونے پر پولیس کے مظالم کی داستان 1984 کی طرح ہی آج بھی ہے.  فساد کے ذریعے مسلمانوں کے کاروبار کو برباد کیا گیا لیکن  ہمیں اسمبلی یا لوک سبھا میں کہیں ایسی نمائندگی نہیں نظر آئی جس نے کمزور مسلمانوں کے معاملے میں ڈٹ  کر لڑنے انصاف دلانے اور استعفی دینے کی دھمکی ہی دی ہو .  مسلم رکن پارلیمنٹ ہو یا غیر مسلم اراکین سبھی خاموش دکھائی دیتے ہیں. 
 گزشتہ دس برس میں راقم کے  آس پاس ہر طبقے کے  مسلم نوجوانوں کا ہجوم رہا جس سے محسوس ہوا کی تعلیم نوکری اور کیرئیر کے بجائے ان کے ذہن میں عدم تحفظ کا جذبہ زیادہ گھر  کر گیا ہے انہیں ڈر ہے  کی  پولیس یا حکومت انہیں دہشت گرد بنا دے گی اور بھیڑ  کہیں بھی  ہجومی تشدد کر دے گی.  لمحہ فکریہ ہے کہ  دلت مسئلہ پر 12 اپریل کو بھارت بند ہوا یا کسان تحریک ہوئی جس کے سامنے حکومتیں جھکیں، پارلیمنٹ میں آواز گونجی  میں تمہیں آواز، ویسا اس سماج کے لیے کچھ نہیں ہوا.. کوئی  چاہے بھی تو کم آواز  نہیں اٹھائے گا. مذکورہ پارٹی پر مسلم پرست ہونے  کا الزام لگے گا اور ہندو بطور خاص اعلی ذات  کا ووٹ کٹ جائے گا یہ حالات کب تک رہیں گے جب تک ملک کے وسائل میں اسمبلی اور لوک سبھا میں ان کی نمائندگی اور فرقہ پرست طاقتوں کے خلاف حکومت سخت نہیں ہوتی. 
 اسمبلی اور پارلیمنٹ تک محدود نمائندگی سیاست فیصلہ کرتی ہے کہ حکومت میں شہریوں کے تئیں  پالیسیاں کیسی ہونگے،  صحت تعلیم اور نوکریوں کے لئے  پالیسی بنانا اور لوگوں کو موقع فراہم کرنے کےلیے قانونی  فیصلے ایوان میں  ہوتے ہیں لیکن دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور دنیا کی سب سے بڑی دوسری مسلم آبادی والے ہندوستان کی سیاست میں مسلمانوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے.  مسلمانوں کی سب سے بڑی دوسری آبادی یہاں ہونے کے باوجود 2014 کی  16 ویں   لوک سبھا میں حصہ داری صرف 23 اراکین پارلیمنٹ کے ساتھ چار اعشاریہ پانچ (4.5)  فیصد رہی ہے جس میں اتر پردیش صفر پر تھا حالیہ ضمنی الیکشن کے بعد ایک واحد مسلم نمائندگی ممکن ہو سکی ہے.  اس ریاست میں ایسا آزادی کے بعد پہلی مرتبہ ہوا ہے.. مودی لہر میں  مسلم نمائندگی  پارلیمنٹ میں حاشیہ پر پہنچ گئی ہے گزشتہ25 برس میں 175 مسلم امیدوار جیت کر پارلیمنٹ پہنچے ہیں ان میں یو پی سے 45،  مغربی بنگال سے 33  اور بہار کے 25 مسلم اراکین پارلیمنٹ ہو  کر آئے ہیں جبکہ تیرہ ریاستیں ایسی ہیں جہاں سے گزشتہ  25 سال سے ایک بھی مسلم  نمائندہ پارلیمنٹ نہیں پہنچ سکا. 
2001 کی مردم  شماری کے مطابق ہندوستان  میں مسلمانوں کی آبادی 13 فیصد تھی اس کے حساب سے 73  مسلم اراکین پارلیمنٹ میں  پہننے چاہیے  تھے لیکن آج تک سب سے زیادہ حصے داری  داری ساتویں لوک سبھا میں 1980  کے دوران 49  رکن پارلیمنٹ پر ہی رہی ہے . اس کے بعد یہ نمبر گرتا ہی رہا ہے. جبکہ 2014  کے پارلیمانی الیکشن میں اتر پردیش میں 34 پارٹیوں نے 144 مسلم امیدوار میدان میں  اتارے لیکن پولرائزیشن اور کئ  اہم پارٹیوں میں ووٹ  تقسیم ہونے سے مسلم امیدوار کامیاب نہیں ہوا. ملک بھر میں کانگریس نے سب سے زیادہ 27 ٹکٹ  مسلمانوں کو دیے لیکن ان میں سے صرف تین امیدوار پارلیمنٹ پہنچے.  بی جے پی  نے سات مسلمانوں کو ٹکٹ دیا تھا. لیکن ان کے رکن پارلیمنٹ  شاہنواز  حسین  بہار سے خود الیکشن ہار گئے،  قومی سطح پر دیکھیں  تو ملک میں 46 پارلیمانی حلقے  ایسے ہیں جہاں مسلمانوں کی آبادی 30 فیصد  سے زیادہ ہے ملک میں 110 سیٹوں پر مسلمان جتا نے اور ہر آنے کی طاقت رکھتے ہیں.  46 سیٹیں ایسی ہیں  جہاں  30 فیصد سے زیادہ آبادی ہے ان میں سے جمو کشمیر سے 5 سیٹیں،  اتر پردیش   سے 13،  بہار سے 4،  آسام سے چار، مغربی بنگال سے گیارہ تلنگانہ اور آندھرا پردیش سے دو،  کیرلا سے 6 اور لکشدیپ  سے ایک سیٹ ہے اگر منصوبہ بند طریقے سے مسلمان پلاننگ کریں تو ان کی حصہ داری پارلیمنٹ میں پڑھ سکتی ہے خاص طور سے اتر پردیش جہاں  مسلمانوں کی آبادی ساڑھے 19 فیصد ہے.تقریبا 50  لوک سبھا سیٹوں پر جتانے  اور ہرانے کے فیصلے کا رول  مسلمان ادا کر سکتے ہیں ل اتحاد سے حصہ داری بڑھنے کی امید ہے اور کم ازکم مشترکہ پروگرام ملک میں 16 مئی 2014  کے بعد  جب آئین کی دھجیاں اڑائی گئی عزاداروں پر جس طرح حملے ہوئے سپریم کورٹ کے سینئر جج کو سڑک پر آ کر  عوام سے جمہوریت کو  بچانے کی  ابیل کرنی پڑی  تو ہم  سمجھ سکتے ہیں کہ ملک کس سمت  میں جا رہا ہے ایسے حالات میں ضروری ہے کی جس طرح لفٹ سماج وادی پارٹی اور سیکولر پارٹیوں کے تعاون سے کانگریس کی  یو پی اے حکومت کو کم از کم مشترکہ  پروگرام بنانے کے لئے مجبور ہونا پڑا تھا تب یوپی اے حکومت نے بڑے فیصلے کیے. مثلاً  آر ٹی آئی،  منریگا، فوڈ  گارنٹی قانون،  اراضی تحویل ایکٹ،  سچر کمیٹی،  رنگناتھ مشرا کمیشن کا قیام وغیرہ.  حالانکہ  2014 کے بعد بھی مرکزی سطح پر کسانوں مزدوروں غریبوں اور مسلمانوں کے حق میں کچھ بڑے فیصلے ہوئے ہیں لیکن سچر کمیٹی کی رپورٹ کو مودی حکومت نے ٹھنڈے بستے میں  ڈال دیا. آج سب سے بڑی  ذمہ داری ہے گی مرکزی پارٹیوں پر دباؤ ڈال کر  کچھ فیصلے کروائے جائیں. اگر ہم پارلیمنٹ اور اسمبلی میں قیادت پر بات کریں  تو اکھلیش  یادو کی حکومت نے اس سلسلے میں کچھ قدم اٹھائے تھے. یو پی  میں مسلمانوں کی آبادی آج 19.5 فیصد ہے  اس کی  حصے داری اسمبلی میں  17 فیصد پر آ گئی تھی جس کو دوسری  ریاستیں نے  اور مرکزی حکومت پرو پرشونیٹ  ریپرزنٹیشن  کی مثال کے طور پر دیکھ سکتی ہیں لیکن فرقہ وارانہ تقسیم کی وجہ سے بی جے پی لیڈر نے 2017 اسمبلی انتخاب میں اتر پردیش کے اسمبلی میں یہ حصے داری 17.1 فیصد   سے گرا کر5.9 فیصد کردی. آج  یوپی کے ایوان میں سماجوادی  پارٹی کے 17،  بی ایس پی کے پانچ اور کانگریس کے دو مسلمان ایم ایل اے  ہیں.  یوپی میں قائم کردہ پروپرشونیٹ ریپرزنٹیشن  کا یہ ماڈل ملک کے سامنے ایک مثال ہے ہمیں اسے آئندہ پارلیمانی الیکشن میں آدیواسی،  پسماندہ، انتہائی پسماندہ، خواتین اور مسلمانوں کے معاملے میں نافذ کرکے خاص طور سے مسلمان جو حاشیہ پر کھڑا ہے اس کے ساتھ انصاف کرنا چاہیے مسلمانوں کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اس عظیم جمہوریت کے تحفظ کے لیے آگے آئے فرقہ پرست طاقتوں سے دور رہیں اور سماج کے  دیگر طبقوں کے ساتھ کھڑے ہوں. آج  ضرورت  اس بات کی ہے کہ بی جے پی مخالف طاقتیں متحدہ طور پر منتخب ہوکر  ملک کے ایوان میں جا سکتی ہیں اور ملک کے سیکولر پارٹیوں کو  چاہیے کہ وہ  ایگر یسیو  ہو کر کر سماجی انصاف کا ایجنڈا سیٹ کریں. 
نوٹ.. مضمون نگار سماجوادی پارٹی کے قومی ترجمان ہیں..