Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, June 14, 2021

گاؤں کی باتیں... ٹوکرا، ڈلیا،سوپ اور گاؤں کی رسمیں


از/ حمزہ فضل اصلاحی/صدائے وقت. 
==============================
گزشتہ کالم میں بانس کی ٹوکرے،ڈلیا اور سوپ
 پر گفتگو کی گئی تھی۔ گاؤں کی بہت سی رسمیں اور سرگرمیاں ان کے ہی دم سے ہیں۔ ہندو مذہب میں بانس کے ٹوکرے کی خاص اہمیت ہے۔اس کے کئی استعمال ہیں۔ ٹوکرے گاؤں کی شادیوں کا لازمی حصہ ہیں۔ دلہن جب پہلی بار گھر آتی ہے تو گاڑی سے اترنے کے بعد پہلا قدم ٹوکرے میں رکھتی ہے۔ اس کے بعد وہ جیسے جیسے آگے بڑھتی ہے، اس کے ہرقدم پر ٹوکرے رکھے جاتے ہیں ۔ اس طرح گاڑی سے گھر کی دہلیز تک دلہن کا قدم زمین پر پڑنے نہیں دیا جاتا ہے، ٹوکرے ہی میں رکھا جاتا ہے۔ کچھ علاقوں میں چھٹ پوجا کے موقع پر نئے ٹوکر ے خریدنے کا رواج ہے۔ ایسا جنوبی ہندوستان کے دیہی علاقوں میں بھی ہوتا ہے۔ وہاں اس کے بازار لگتے ہیں جہاں چھوٹے بڑے ٹوکروں کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔اس موقع کا ٹوکرے کے کاریگر بے صبری سے انتظارکرتےہیں۔ اس سے ان کی اچھی خاصی آمدنی ہوجاتی ہے۔
اسی طرح برادران وطن کی ایک مذہبی رسم میں سوپ کا بھی استعمال کیا جاتاہے۔ اس دن پرانا سوپ گاؤں کی سرحدپر پھینک کر نیا سوپ لیا جاتا ہے۔ چھٹ پوجا کے آس پاس پوروانچل کے دیہی علاقوں میں ’ڈٹھون‘ منایا جاتا ہے ، اس دن گھر گھر گنا آتا ہے۔ گنا کی کاشت کم ہونے سے یہ تیوہار بھی پھیکا ہوگیا ہے۔ پہلے ڈٹھون کے دن مشترکہ آبادی والے گاؤں میں ہندو پڑوسی کے گھر سے مسلم پڑوسی کے گھر گنا ضرور آتا تھا۔ لوگ اپنے کھیت کا گنا ایک دوسرے کےگھر بھیجتے تھے۔گھر میں گنے کاڈھیردیکھ کرسب کو پتہ چل جاتا تھا کہ آج ڈٹھون ہے۔ دراصل یہ تیوہارگنے کے بغیر ادھورا ہے ، اسی لئے ڈٹھون ہندو مذہب سے زیادہ کسانوں کا تیوہار لگتا ہے۔ اس دن کی ابتداء سوپ پیٹنے سے ہوتی ہے۔ عام طورپرعلی الصباح ۳؍ بجے سے فجر کی اذان سےپہلے تک سوپ پیٹا جاتا ہے۔پہلے اس کا اہتمام کیاجاتا تھا۔ اس وقت ڈٹھون کے دن برادران وطن کے ہر گھر سے سوپ پیٹنے کی آواز آتی تھی۔ بتاتے ہیں کہ اس کا مقصد نحوست بھگانا تھا۔ سوپ پیٹنے کی ابتداء گھر سے ہوتی تھی۔ پھر اسے پیٹتے پیٹتے لوگ گاؤں کی سرحد پر لے جاتے تھے۔ ان کے نزدیک پرانا سوپ نحوست کی علامت تھا، اسے گاؤں کی سرحد سے باہر سے پھینک کر و ہ سوچتے تھے کہ نحوست گاؤں سے باہر چلی گئی ہے۔ اب کوئی مصیبت نہیں آئے گی ، زند گی ہنسی خوشی گزرے گی۔اب لوگ سوپ بہت کم پیٹتے ہیں۔ وہ بھی لوہے کے سوپ پر بہت سنبھل سنبھل کر ڈنڈے برساتے ہیں۔ اس سوپ کو گاؤں کی سرحد تک لے جاتےہیں ۔بہت پراناسوپ پھینک دیتےہیں ، نیا ساتھ لے آتے ہیں۔
اسی طرح ڈلیا ہندومسلم ہرکسی کے جہیز میں دی جاتی ہے۔ پرانے لوگ بتاتے ہیں کہ ان کے زمانے میں ڈلیاکا استعمال زیادہ تھا۔ یہاں تک کہ لڑکیوں کا جہیز رنگ برنگ اور چھوٹی بڑی ڈلیوں ہی سے مکمل ہوتا تھا۔اکثراسے لڑ کیاں اپنے ہاتھوں سے تیار کرتی تھیں۔ گھریلو کام کاج سے ذرا بھی فرصت ملتی، ڈلیا لے کر بیٹھ جاتی تھیں، اسی کی ادھیڑ بن میں لگ جاتی تھیں۔اس طرح وہ دھیرے دھیرے اپنے جہیز کی ایک چیز اپنے ہاتھوں سے بناتی تھیں۔ کچھ لڑکیوں کے گھر والے اِن کی اُن کی مدد سے ڈلیا تیارکرتے تھے۔ خریدتے بھی تھے ۔ اُس زمانے میں گاؤں کی کچھ خواتین اسی سے اپنا گھر چلا تی تھیں۔
آج بھی پوروانچل کےاکثر خاندان اپنی بیٹی کو جہیز میں ڈلیا دینا نہیں بھولتے ہیں ۔ ڈلیا دینے کیلئے کہیں نہ کہیں سے انتظام کرہی لیتےہیں۔ اب یہ الگ بات ہے کہ اس کی زیادہ قیمت اور بعض دفعہ منہ مانگی قیمت دینی پڑتی ہے۔
ڈلیا اورٹوکرا کی قیمت بڑھی تو گاؤں والوں نےایک نیا راستہ نکالا۔ جہیزمیں بانس کے ٹوکروں اور ڈلیو ں کی جگہ کاغذ کے ٹوکرے اور کھلونے دینے لگے ، اب بھی اس کا سلسلہ جاری ہے۔ ان ٹوکروں پر برش اور رنگوں کی مدد سے پھول پتیاں بنائی جاتی ہیں۔ پہلے کے مقابلے میں اب ان کی قیمت بہت بڑھ گئی ہے۔ قیمت کے اعتبار سے یہ ڈلیا اور بانس کے ٹوکرے سے آنکھ ملانے اور بعض دفعہ آنکھ دکھانے کے قابل ہوگئی ہیں۔  
جہاں تک سرگرمیوں کا سوال ہے توپہلے بانس کے ٹوکرےاور گاؤں والوں کا بہت گہرا تعلق تھا۔ اس کی کسی نہ کسی شکل کو یہاں سے وہاں لےجا نا پڑ تا تھا ، سرپہ اٹھانا پڑتا تھا، بار باراس پر نظر پڑتی تھی۔ اب بھی اس کا استعمال ترک نہیں کیا گیا ہے۔ کھیتی کسانی میں کام آتا ہے۔ اسی میں جانوروں کا چارا رکھا جاتا ہے۔ پوروانچل کے دیہی علاقوں میں کام کے اعتبار سے ان ٹوکروں کے الگ الگ نام  ہے۔جس بانس کے ٹوکرے میں اناج اوسایا جاتا تھا ، اسے’ ڈھروا‘ کہتے تھے۔ تھے اس لئے کہ اب اس کا وجود مٹ چکا ہے ،مشینوں نےاس کاکام تمام کردیا ہے۔ اسی طرح جس ٹوکرے میں بکری کے چھوٹے چھوٹے بچے بندکئے جاتے ہیں، اسے’کھانچی‘ کہتے تھے جو بانس کے ساتھ ساتھ ارہر کے پیڑ( ریٹھا) سے بھی بنائی جاتی ہے۔ اس میں کھیت سے جانوروں کا چارا بھی لایا جاتا ہے ۔ جس ٹوکرےمیں گوبر رکھا جاتا ہے ،اسے’ جھوا ‘ کہا جاتا ہے۔ جھواعام طور پر سر پہ رکھا جاتا ہے ۔تب اور اب میں فرق یہ ہے کہ پہلے صرف بانس کے ٹوکرے تھے۔ اب کھیتی کسانی میں پلاسٹک کے ٹب اور لوہے کےٹوکرے بھی آگئے ہیں ۔ دیکھئے اس زمانے کے ٹوکرے کب تک بانس کے ٹوکروں کا وجود بر داشت کرتے ہیں؟