Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, June 21, 2021

*یوپی الیکشن ۲۰۲۲**مسلم ووٹو ں کا انتشار ہر قیمت پر روکا جائے*



تحریر /*ڈاکٹر عبد اللہ فیصل*/صدائے وقت. 
==============================
۲۰۲۲میں یوپی اسمبلی کا الیکشن ہونے والا ہے.یہ انتخاب یوپی عوام کی قسمت کا فیصلہ کرےگا.اور عوام کیا چاہتے ہیں ان کے احساسات وجذبات کیا ہیں؟ فیصلے ان کے ہاتھ میں ہے  .اس کا بھی اندازہ ہوگا، کہ وہ امن وامان چاہتے ہیں خوشگوار ماحول میں سانس لینا چاہتے ہیں یا بد امنی لڑائ جھگڑا  چاہتے ہیں. خوشگوار ماحول پسند ہے یا مسموم فضاء میں جینا چایتے ہیں. 
جب سے  یوگی کو اقتدار ملا ہے تب سے آتنک مچائے ہوئے ہیں ایسا لگتا ہے کی وہ وزیر اعلیٰ نہیں بلکہ کوئ سفاک مجرم ہو. جو آئے دن اشتعال انگیزی کرتا رہتا ہے. وزیر اعلیٰ یوگی ادیناتھ کا دور اقتدار مسلمانوں کے لئے ابتلاء وآزامائش سے بھر پور رہا ہے مسلمانوں پر ہر طرح کا ظلم وزیادتیاں روا رکھی گئیں. فرضی انکاؤنٹروں میں مسلمانوں کو مارا گیا.  جمہوری انداز میں. سی اے.اے اور این .آر.سی کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کےخلاف مقدمات درج کئیے گئے.ان کو جیل کی سلاخوں میں ڈالا گیا  ان کی جائدادایں ضبط ہوئیں.کئ دبنگ مسلم سیاست دانوں کا جینا حرام کردیا گیا. ان کو ہر طرح سے تنگ کیا جاریا ہے اور کمزور بھی کچھ اہم ترین سماجی وسیاسی شخصیات کو بلا وجہ فرضی مقدمات قائم کر کے جیل کی سلاخوں میں ڈال دیا گیا ہے. ان پر عرصہء حیات تنگ کیا گیا ہے. جو بیمار بھی ہوئے اور علالت کی وجہ سے جسمانی وذہنی طور پر کافی کمزور ہوگئے ہیں. اعظم خان ان کی اہلیہ اور بیٹے عبد اللہ اعظم پر جتنے فرضی مقدمات زبرستی لگائے گئے ہیں ان ہر  سب ظلم وستم کئے جارہے ہیں.تعلیمی اداروں پر شکنجے کسے جارہے ہیں مساجد منہدم کئے کئے جارہے ہیں.
مولانا محمد علی جوہر یونیورسٹی پر بلڈوزر چلا کر مسمار کردی گئ کروڑوں کا نقصان کیا گیا. 
  مسلمانوں کی تاریخ کے ساتھ کھلواڑ بھی کیا گیا الہ آباد اور فیض آباد جیسے شہروں کے نام بدلےگئیے دوسرے شہروں ومقامات کے نام بدلنے کی تیاری ہے. تاج محل کے تعلق سے بد زبانی اور بد کلامی کی گئ اور الزام عائد کیا گیا کی تاج محل کی جگہ پر مند رتھا.جسے توڑ کر بنایا گیا.  غرضیکہ مسلمانوں کی دل آزاری کا کوئ موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا گیا.مجموعی طور پر یوگی کے راج میں جو ظلم وزیادتیاں ہوئیں ان کی کوئ مثال نہیں ملتی.

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یوپی میں بی جے ہی کیسے جیت گئ؟ اس کا سیدھا سا جواب ہے مسلم ووٹو ں کا انتشار اور نام ونہاد سیکولر ہارٹیوں کے لیڈروں کا بی جے ہی سے خفیہ واعلانیہ تال میل جس کہ وجہ سے بھاجپا کو اقتدار ملا.ہر برادری اور ہر کمیونٹی نے سوچ سمجھ کر اپنے حق راءے دہی کا استعمال کیا اور آنے والی حکومت سے اپنے معاملات طے کئیے مسلمانوں نے اپنا ووٹ ضائع کردیا انہوں نے بھاجپا کو ہرانے کے چکر میں سیکولر پارٹیوں سے کوئ معاہدہ نہیں کیا.مسلمان بھاجپا کو ہرانے کے چکر میں سیکولر پارٹیوں کو ووٹ دیتے ہیں اور سیکولر پارٹیاں بھاجپا سے سمجھوتہ کر لیتی ہیں. سببکا کردار یکساں رہا ہے بہوجن سماج اور سماج وادی ہارٹیوں نے بی جے پی کو طاقت ور بنایا ہے.اور اعلانیہ سمجھوتہ کیا ہے. اگر مایا وتی نے بی.جے.پی سے کھل کر حمایت لی ہے اوروزیر اعلیٰ کا تاج پہنا ہے اور ملائم سنگھ نے آر.ایس.ایس وبی جے پی کے خونخوار لوگوں کو پارٹی میں شامل کیا ان کو کلیدی عہدے ومناصب دئے وزارتیں دیں بابری مسجد توڑ نے والوں کو استقبال کیا ان کو مراعات دیں.  اور مسلمانوں کے مسیحا بھی بنے رہے.  سیکو لر پارٹیوں نے ہمیشہ ووٹ مسلمانوں کا لیکر انہیں  کنارے کردیتی ہیں.  اور وہ کہیں کے نہیں رہ جاتے.
مسلمانوں کی حیثیت بینڈ باجے والوں جیسی ہے. بارات میں تو خوب بجاتے اور گاتے ہیں لیکن منڈپ میں اندر جانے نہیں دیا جاتا ہے. یہی حال مسلمانوں کا ہے نام.نہاد سیکولر پارٹیاں ان سے خوب فائدہ اٹھاتی ہیں نعرے لگوانا بینر پوسٹر چسپاں.کروانا  جے جے کار کے فلک شگاف نعرے لگوانے میں کام آتے ہیں. لیکن جیسے ہی حکومت سازی کی بات ہوتی ہے وزارت کی تقسیم ہو یا کوئ کلیدی عہدہ یا اہم فیصلہ کرنا تو مسلم سیاست داں اورعوام کو باہر کردیا جاتا ہے. یہی حال تما م پارٹیوں کا ہے اگر کسی مسلم سیاست داں نے کسی معاملے میں نکتہ چینی کی یا مسلمانوں کے حق میں یا ظلم وزیادتی کے خلاف آواز اٹھائ تو نہ صرف رکنیت سے بلکہ پارٹی سے ذلیل ورسوا کر کے نکا ل دیاجاتا ہے.
بڑے بے آبرو ہوکر تیرے کوچے سے ہم نکلے.
کئ سیاست دانوں کا حشر ہم دیکھ چکے ہیں.
 جن لوگوں نے مسلمانوں کے جذبات سے کھیل کر ان کے ووٹ تقسیم کرائے تھے وہ بھی ان کی مدد کو نہیں آئے ایک مرتبہ پھر وہی معرکہ در پیش ہے مسلم  ووٹوں کو تقسیم کرنے والی پارٹیاں پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئیں ہیں آثار وقرائن بتاتے ہیں کی اگر مسلم ووٹوں کو اسی طرح منتشر ہوجانے دیا گیا تو معاملات پہلے سے زیادہ کہیں بدتر ہوں گے .
مسلمان اپنے حق رائے دہی کا سنجیدگی کے ساتھ منصوبہ بندی کے ساتھ متحد ومنظم ہوکر ایسے امیدواروں کو ووٹ دیا جائے جو ان کے مفادات کے تحفظ کی ضمانت دیں.
کانگریس سماج وادی بہوجن سماج پارٹیاں مغربی یوپی میں آر. ایل. ڈی پارٹی اپنے آپ کو سیکولر کہتی ہیں اور خود کو مسلمانوں کے ووٹوں کا اصلی حق دار سمجھتی ہیں مسلمان ماضی میں ان سبھی پارٹیوں کو متعد د بار ووٹ دے چکے ہیں لیکن کسی نے مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ نہیں کیا المیہ یہ ہے کی مسلمان تو سیکولرزم کے نام ہر متحد ہوکر ان کو ووٹ دیے دیتے ہیں لیکن یہ پارٹیاں خود سیکولرزم کے نام پر متحد ہونے کے بجائے ایک دوسرے سے دست و گریبان رہتی ہیں ان کے ہاتھوں سے اقتدار نکل چکا ہے اگر ان پارٹیوں نے اگلے الیکشن سے پہلے کوئ لاءیحہء عمل تیار نہی کیا تو ایک مرتبہ پھر بی .جے .پی. بازی مار لے جائےگی.مسلمانوں کے ووٹو ں کو تقسیم کرنے کے لئے علماء کونسل پیس پارٹی اور ایم آئ ایم اتحاد المسلمین  جیسی کئ طاقتیں موجود ہیں اگر یہ ایک دوسرے کے خلاف میدان میں اتریں گی تو یقینی طورپر نہ صرف مسلم بلکہ سیکولر ووٹ بھی تقسیم ہوں گے اس انتشار کا واحد راستہ یہی ہے کی یہ پارٹیاں نہ صرف آپس میں تال میل کے ساتھ الیکشن لڑیں بلکہ پیس ہارٹی اور مجلس اتحاد المسلمین اور دیگر مسلم پارٹیوں کو بھی حصے داری دیں کیوں کہ بہر حال یہ پارٹیاں اپنا وجود اپنی شناخت رکھتی ہیں. چھوٹا ہی سہی ان کا ایک ووٹ بینک بھی موجود ہے جو ان کے امیدوار کو بھلے ہی نہ جتا سکاتا ہو لیکن کسی بھی حلقے کا توازن بنا اور بگا ڑ سکتا ہے اس لئیے بہتر ہے کی ان کو بھی ساتھ لیکر چلا  جائے اگر یہ سیکولر پارٹیاں سیکولر زم کے بقاء وتحفظ کے لئیے متحد نہیں ہوتی ہیں اور مسلمانوں کو ان کا جائز حصہ دینے کے لئیے تیار نہیں ہیں تو ہم مسلمانوں سے یہ اپیل کریں گے کی وہ کسی  پارٹی کے آلہء کار بننے کے بجاءے اپنی صوابدید کی بنیاد پر اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں یوپی سے  جو خبریں آرہی ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بی.جے.پی کے اندر اس وقت بہت زبردست اختلاف انتشار اور خلفشار موجود ہے. عوام کا اور خود بی.جے.پی لیڈروں کا بڑا طبقہ یوگی ادیتناتھ سے ناراض ہے. یوگی ادتناتھ سے مودی اور امیت شاہ بہت بری طرح خوف زدہ ہیں ان دونوں کو ایسا لگتا ہے کی یوگی ان سے الگ اپنا کوئ راستہ نکال سکتا ہے. آر.ایس.ایس یوگی کی پشت پر موجود ہے لیکن یوگی کی ناکامیاں اتنی زیادہ ہیں  کہ لوگ ان کو قبول کرنے کے لئیے تیار نہیں ہیں بحیثیت مجموعی بی.جے.ہی کو شکست دینے کا اس سے بہتر موقع کوئ اور نہہں ہوسکتا اگر خدانخواستہ بی جے ہی پھر کامیاب ہوگئ تو اسکی وجہ بی.جےپی یوگی مودی امیت شاہ کی مقبولیت نہیں سیکولرپارٹیوں کی آپسی لڑائ اور مسلمانوں کا غیردانشمندانہ رویہ ہوگا.
مضمون نگار: المصباح کے ایڈیٹر ہیں.9892375177
almisbah98@gmail.com