Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, June 10, 2021

مجھے اھل فلسطین اور حماس سے شکایت ہے. ‏. ‏. ‏. ‏

از/عبدالماجد قاضی/صدائے وقت /
10.6.2021. 
==============================
شکایت اس لئے ہے کہ انہوں نے پچھلے ستر سال سے اسرائیل کے ناقابل تسخیر اور پر اسرار طاقت ہونے کی تصور سازی اور پیکر تراشی کو شدید زک پہنچائی بلکہ ساری محنت خاک میں ملا دی.
سات دہائیوں سے مغربی اور مشرقی دنیا کے منظم اور طاقتور ترین ذرائع ابلاغ نے انتہائی جاں فشانی سے ایک تصور کی تخلیق کی، اس کو پروان چڑھایا، وقفہ وقفہ سے اس کی آبیاری کی، سیاسی تجزیہ نگاروں، فوجی ماہرین اور افکار کی ترویج و تلقین کے پیشہ وروں نے ان گنت پروگراموں کے بعد ناقابل شکست ریاست اسرائیل کا تصور ذہنوں میں پیوست کیا، عقلی اور جذباتی سطح پر اس کو ہر خاص و عام کے لئے قابل قبول بنایا، اس دوران اسرائیل نے بھی چھوٹی بڑی عسکری اور توسیعی کارروائیوں کے ذریعے اس تصور کو حقیقت کی روپ ریکھا دینے اور ناقابل انکار حقائق کی فہرست میں درج کرانے کی بہر پور کوشش کی.
یہود سچ مچ میں اھل کتاب ہیں، وہ اس حقیقت سے واقف ہیں کہ میدان کارزار میں لڑی جانے والی جنگ محدود تاثیر والا مادی واقعہ ہے. زمین پر قبضہ کرنے کے لئے سب سے پہلے ذہن پر قبضہ کرنا ضروری ہے اور اگر انسانی ذہن کو  تشہیر و ترویج کی مربوط و مسلسل کوششوں کے ذریعے کچھ مفروضے باور کرا دئے جائیں تو زمین کی تسخیر اور ملکی حدود کی توسیع کوئی مشکل کام نہیں ہے.
پچھلے ستر سال کے دوران زبان و قلم کے ہزاروں مزدوروں نے ریاست اسرائیل کے جابرانہ اقدامات اور توسیع پسندانہ عزائم کو خوبصورت تصوراتی پیرایہ دینے کا کام بے حد عرق ریزی سے انجام دیا، مغربی زبانوں میں ہزاروں افسانے، سیکڑوں ناول، لا تعداد تجزیاتی مضامین، فلمیں، ڈرامےاور  کتابیں اسرائیل کو دنیا کے نقشے اور دنیا میں موجود انسانوں کے ذہنوں میں ایک ملک اور جغرافیائی حقیقت کے طور پر جاگزیں کرنے کے لئے تصنیف کی گئیں. اسرائیلی خفیہ ادارہ موساد کی محیر العقول تخریبی کارروائیوں کو ناولوں، افسانوں اور اخباری تجزیات کا موضوع بنایا گیا، ایسا باور کرایا گیا کہ آپ کرہ ارض پر کہیں بھی ہوں اسرائیلی انٹیلیجنس کی دسترس سے باہر نہیں ہیں. اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ادارہ اخلاق و قانون کی تمام بندشوں سے آزادی اور اپنی پیشہ ورانہ مہارت میں ضرب المثل ہے. 
فلسطین کا نام دنیا کے نقشے اور انسانی ذہنوں سے محو کرنے کے لئے اسرائیل اور اس کے ہمنواؤں نے ہر ممکن اقدام کیا، ہم نے خود اپنی نگاہ سے دنیا کے نقشے سے فلسطین کو بتدریج دھندلا اور پھر ختم ہوتے ہوئے دیکھا ہے. فلسطینی مزاحمت کاروں کے لئے دنیا کی زبانوں میں الفاظ اور اصطلاحات بھی بتدریج بدلتی چلی گئیں، وہ عسکریت پسند اور پھر دہشت گرد قرار پائے، اسرائیل اور امریکہ نے انہیں جس نام سے پکارا پوری دنیا نے ہی نہیں اپنوں اور عربوں نے بھی انہیں اسی نام سے پکارنا شروع کر دیا. 
اس قضیہ کے دوسرے فریق، یعنی عربوں نے اپنی قومیت کے نعرے بلند کئیے، اپنوں کو دبایا، کچلا اور خود کو کمزور کر کے دشمن کے ہاتھ مضبوط کئے، شکست خوردگی کی ذہنی تیاری کے ساتھ متعدد بار اسرائیل سے نبرد آزما ہوئے، اور پھر توقع کے مطابق پسپائی اختیار کر لی. بارہا کی ذلت آمیز شکست کے بعد انہوں نے بالآخر یہ طے کر لیا کہ عرب لیگ، سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ میں یہودی ریاست کے خلاف قرار دادوں کی تائید تک خود کو محدود کر لیں، لا طاقة لنا اليوم بجالوت وجنوده. 
پچھلے کئی سال سے ناخوب بتدریج خوب بنتا جا رہا تھا، اسرائیل نام کا بتِ کافر ادا، جو مصر اور مراکش جیسے عرب ملکوں سے معمول کے تعلقات بنانے میں کافی پہلے سے کامیاب ہو چکا تھا، اب خلیج کے نو دولتیئے عرب حکمرانوں کے اعصاب پر بھی سوار تھا، دونوں طرف سے جذب و انجذاب کی کیفیت کافی لمبے عرصے طاری رہی، صاف دکھائی دے رہا تھا کہ دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی. 
یہ قربتیں اسرائیل کی طرف سے سرِ مُو بھی کسی موقف سے دستبرداری یا کسی رعایت کی شرط سے وابستہ نہ تھیں، بلکہ اس کی عہد شکنی، دہشت گردی اور چیرہ دستی بدستور اور پورے شد و مد کے ساتھ جاری رہتے ہوئے تھیں، اس کے غمزہ و عشوہ و ادا کا کیا جادو تھا کہ متحدہ عرب امارات کا حکم راں باہیں پھیلا کر دیدہ و دل فرش راہ کر کے اس سے بغل گیر ہو گیا، سفارتی و تجارتی تعلقات کی دونوں طرف سے ایسی پہل ہوئی کہ لمحوں نے صدیوں کا سفر طے کر لیا، امارات کی طرف سے والہیت کا ایسا مظاہرہ ہوا کہ دیکھنے والے دم بخود رہ گئے، بقول شاعر :
نہ دیکھو اس طرح محفل کا کچھ خیال کرو
یہاں بہت سے قیافہ شناس بیٹھے ہیں 
یہ منظر دیکھ کر بحرین کا حکمران جو ابھی ماضی قریب تک خود کو شیخ کہہ کر ہی مطمئن تھا، اور اب چند سال سے بادشاہ کے عہدے سے موسوم ہو کر اور زیادہ خوش اور پر اعتماد ہے، اس کا پیمانہء ضبط یوں نقش ناز بت طناز بہ آغوش ہمسایہ رقیب دیکھ کر ہاتھ سے جاتا رہا، اس نے بھی اسی عجلت اور بے قراری کے ساتھ اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کر لئیے اور یوں اس کی عمر بھر کی بے قراری کو یک گونہ قرار آگیا. سعودی عرب نے ہر چند کہ جذبات کو قابو میں رکھنے کی کوشش کی پھر بھی اسرائیل کے لئے اس کے احساسات نے کبھی جمیل بثينة کی عذری غزل اور کبھی عمر بن ابی ربیعہ کی سی کھلی حیا سوز غزل سرائی کی شکل اختیار کر لی . 
اسرائیل کو اس کے حجم سے کئی گنا بڑی حقیقت کے طور پر تسلیم کر لینے کے بعد خلیجی عرب ممالک کا بیانیہ، امریکی اور اسرائیلی بیانیہ سے حیرت انگیز مماثلت لئے ہوئے اور انتہائی طاقتور طریقے سے سامنے آیا. گویا اسرائیل نے اپنے وجود کی بنیادیں مشرق و مغرب میں پورے طور پر مستحکم کر لیں، اب اس کے لئے پوری عرب دنیا گھر کا آنگھن یا عقبی چمن کی حیثیت رکھتا تھا. 
فلسطینیوں سے مجھے شکایت کیوں نہ ہو، ان نہتے، دشمن کے حصار میں گھرے ہوئے، بے یار و مددگار فاقہ مستوں نے جن سے ان کے اپنوں نے بھی منہ موڑ لیا، جن کے حقوق کی بات کرنے والوں کو لائق اعتنا نہیں سمجھا گیا، برطانوی آمریت کی کوکھ سے جنم لینے والے اور مغربی طاقتوں کے پروردہ ناز، اسرائیل نے ان خانماں برباد فلسطینیوں کو غزہ اور دریائے اردن کے مغربی کنارے سے ملحقہ محدود سے علاقے محصور کر کے ان کی نقل و حرکت سے لے کر زندگی کے ہر خواب کو پابند سلاسل کر رکھا ہے تب بھی ان ظالموں نے اسرائیل کی  ستر سالہ محنت، بنا بنایا سازگار ماحول، طاقت، اقتدار اور عالمی دبدبہ، سب کچھ خاک میں ملا دیا، مادی نقصان کی تلافی ہو سکتی ہے لیکن اس معنوی تاخت و تاراج کی بہرپائی کیسے ہوگی کہ اسرائیل ناقابل تسخیر نہیں ہے. 
حماس سے شکایت بہت سنگین نوعیت کی ہے، تم آج اکیسویں صدی میں بھی افسانہء ایمان و یقین کو زندہ حقیقت بنانے پر تلے ہوئے ہو، اس افسانے کو تو ماضی کی داستان پارینہ کے ساتھ دفن کر دیا گیا تھا، اکیسویں صدی مادی طاقت اور ٹکنالوجی کی فتوحات کی صدی ہے، عرب و عجم نے متفقہ طور پر نئے نظامِ عالم کی پیروی کا عہد کر لیا تھا، تم نے اپنی باغیانہ روش اور بے باکانہ یورش سے اس صدی کے سارے مسلمات پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا. 
تم نے اسرائیل کے آہنی گنبد، اس کے دفاعی نظام اور اس سے وابستہ تصورِ برتری کو زمین بوس کر کے جو شدید نقصان پہنچایا ہے اس کو لفظوں میں بیان کرنا محال ہے، اسرائیل کے بارے میں پڑوسی اھل ایمان کا ایمان تھا کہ وہ فضا، سمندر اور زمین کے اندر تک کی سب خبر رکھتا ہے، تم نے آخر کس طرح ایسے میزائل اور وہ بھی اتنی مقدار میں بنا لئیے تھے کہ گیارہ دن تک تم تیکنالوجی کے عفریت کو ترکی بترکی جواب دیتے چلے گئے، تمہاری زد سے کوئی شہر اور قریہ محفوظ نہ رہا. 
تم نے پوری دنیا میں ایک نئی ہی بحث چھیڑ دی، تم ایک ضدی دہشت گرد زیر زمین تنظیم سے ایک با حوصلہ فریق قضیہ کے طور پر جب پوری دنیا کے افق پر آئے، تمہیں معلوم ہے کہ غیر جانبداروں کی اکثریت ہی نہیں بلکہ بہت سے جانبدار لوگ بھی تمہارے ہم نوا بن گئے. اسرائیل کے باشندوں کا اپنی حکومت پر اعتماد متزلزل ہو گیا، پچھلے ستر سال میں پہلی بار اسرائیل کو مادی اور اس سے شدید تر معنوی شکست کا سامنا کرنا پڑا. 
حماس کے سرپھرے رہنماؤ تمہیں معلوم ہے دنیا کے پالیسی ساز ایوانوں پر کیسی قیامت گزر گئی، ان پر پوری دنیا کا اخلاقی دباؤ کتنا شدید تھا، جانبازی کے علاوہ کچھ خرچ کئے بغیر ہی تم نے عالمی رائے عامہ کو اس طرح اپنے حق میں کر لیا کہ اربوں ڈالر خرچ کر کے بھی اتنے بہتر نتیجہ کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی . تم نے اسرائیل کی ساکھ اور اس کے ہمنواؤں کو جو نقصان پہنچایا ہے اس کا تخمینہ اعدادوشمار کی زبان میں ممکن ہی نہیں. 
اسرائیل اور دنیا بھر میں اس کے سر پرستوں اور پرستاروں کو رہنے دو، مجھے تو محبت کی اس کلی کے مرجھانے کا ملال ہے جو تمہاری گستاخ میزائل باری اور بتِ کافر ادا کے پیکر تصور کی شکست و ریخت کی وجہ سے ابوظہبی اور منامہ میں زرد پڑتی ہوئی دکھائی دی. تصور کا قلعہ ہو یا کوئی اور پیکر، اس کو عالمِ رنگ و بو کی حقیقت کے خد و خال دینے اور بت کے مقام تک پہنچانے اور پرستش کا مستحق بنانے میں بہت وقت لگتا ہے، پھر اس پر ایمان لانا اور وہ بھی غیر مشروط!! یہ کوئی کھیل نہیں ہے، حماس کے ظالم بت شکنو!، تم نے یہ بھی نہ سوچا کہ تمہارے میزائل جب اسرائیل میں سنگ وخشت کو ریزہ ریزہ کر رہے تھے تو دوسری طرف وہ ابو ظہبی میں کچھ محلات کے مکینوں کے دلوں کو چھلنی کر رہے تھے. تم نے تصور و تصویر کے پیکرِ دل گیر کو توڑ کر دلوں کو توڑ دیا. 
تم نئے نظامِ عالم کے لئے خطرہ ہو، جبر و استبداد کے لئے پیغامِ موت ہو، تم مادی تہذیب کے لئے، جس نے کس قدر مشکل سے اپنی راہ کے روڑے ہٹا کر یکسوئی سے ترقی کا سفر شروع کیا تھا، تم نے اس کو واپس وہاں پہونچا دیا جہاں سے اس کا سفر شروع ہوا تھا. 
اس ناراضگی کے باوجود مجھے ایسا لگتا ہے کہ تم نے ایمان کو نارِ نمرود سے زیادہ طاقتور ثابت کر دیا، ایمان کو زمان و مکان کی حدود سے بالاتر اور لازوال حقیقت کے طور پر منوا لیا، حق و صداقت کو ناقابلِ تسخیر تسلیم کروا لیا، چاہے اس کی پیکر گری کے لئے ایک بھی زبان حرکت میں نہ آئے اور ایک بھی قلم اس کی تائید میں جنبش نہ کرے.
تمہاری اس سرگزشت کی طرف اقبال نے پہلے ہی اشارہ کر دیا تھا، (شبہ ہوتا ہے کہ وہ بھی تمہارے ہی جیسے جنون کا شکار تھا) 

فلسطِینی عر ب سے:
زمانہ اب بھی نہیں جس کے سوز سے فارغ
میں جانتا ہوں وہ آتش ترے وجود میں ہے
تری دَوا نہ جنیوا میں ہے، نہ لندن میں
فرنگ کی رگِ جاں پنجۂ یَہود میں ہے
سُنا ہے مَیں نے، غلامی سے اُمتوّں کی نجات
خودی کی پرورش و لذّتِ نمود میں ہے!

اور حیرت ہے اقبال نے یہ بات اسرائیل بننے سے پندرہ بیس سال پہلے ہی کہہ دی تھی.