Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, June 6, 2021

گاؤں کی باتیں ٹوکرے بیچنے والے گاؤں کا راستہ بھول گئے. ‏. ‏. ‏


 از/حمزہ فضل اصلاحی/صدائے وقت. 

=============================
 بانس کے ٹوکرے ٹوٹ گئے ہیں ، سوپ بھی تھوڑا بہت خراب ہوگیا ہے ۔مرمت کے لئے مہینوں سے کسی بانس کی ٹوکری ، سوپ اور ڈلیا بیچنے والے کاانتظارکیا جارہا ہے جنہیں پوروانچل میں ’دھر کا ر‘کہا جاتا ہے۔ پتہ نہیں یہ انتظار کب ختم ہوگا ؟ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ ان خراب ٹوکریوں اور سوپ کی مرمت کی نوبت ہی نہ آئے ، یوں ہی رکھے رکھے خراب ہوجائیں اور انہیں پھینکنا پڑے ، کیو نکہ دھرکار اب گاؤں میں بھولے بھٹکے سال چھ مہینے ہی میں آتے ہیں۔ پہلےدھرکار ہر دوسرے تیسرےگاؤں کی گلیوں میں پھرتے تھے..
 یہ’’سوپ بنوالو .... مونی، دوری بنو الو، نئی مونی لے لو...‘‘ کی صدا لگاتے تھے ۔ ان کی آواز پر لوگ اپنے ٹوٹے ہوئے سوپ اوربانس کی ٹوکر یاں لےکر اپنے اپنے گھروں سےنکلتے تھے۔ پھر گاؤں کی گلی میں مناسب جگہ دیکھ کر یہ اپنےاوزارکے ساتھ زمین پر بیٹھ جاتے تھے۔ سب سے پہلے یہ ٹوکری یاسوپ لےکر اسے الٹ پلٹ کر دیکھتے تھے ، اوپر نیچے دیکھتے تھے ، جائزہ لینے کے بعد بتاتے تھے کہ اتنے روپے لوں گا ۔ اس پر مول تول ہوتا تھا ،گاہک اور دھر کار دونو ں کے راضی ہونے کے بعد یہ دھول سے اٹی بعض دفعہ تپتی زمین پر آلتی پالتی مارکر بیٹھ جاتے تھے ، پھر پوری لگن اور یکسوئی سے ٹوکری یا سوپ کی مرمت کرتے تھے ۔ بانس کاٹ کر اس کے ٹکڑے بناتے تھے، اسے سنبھال سنبھال کر چھیلتے تھے، تراشتے تھے ، ان تراشے ہوئے ٹکڑوں کوسلیقے سے اوپر نیچے کرتے تھے ، اس طرح کچھ ہی دیر میں ٹوکری یا سوپ کو نئی زند گی مل جاتی تھی ۔ پرا نے لوگ بتاتے ہیں کہ پہلے بانس کی ٹوکری ، سوپ اورڈلیا ہی سے گاؤں مکمل ہوتا تھا ، یہ ہرگھر کا لازمی حصہ تھے ۔ ہندومسلم ہر کسی کے گھر میں روٹی رکھنے کیلئے ڈلیا ہی استعمال ہوتی تھی۔ آج بھی کچھ گھروں میں توے سے روٹی ڈلیا ہی میں اتاری جاتی ہے۔ بعد میں اسے روٹی کے جدید برتن میں رکھا جاتا ہے۔  بتاتے ہیں کہ پہلے مہمانوں کے سامنے بھی یہی ڈلیارکھی جاتی تھی۔ اس وقت ڈلیا بنانے کا مقابلہ ہوتا تھا ، گھرکی عورتیں گرمی کی دوپہران ڈلیوں کے سہارے ہی گزارتی تھیں،انہیں بنتی تھیں ، ان پر نقش و نگار بناتی تھیں۔ اس فن میں جو عورتیں ماہر ہوتی تھیں ، ان کی قدر کی جاتی تھی، محلے کی لڑکیاں ان سے سیکھتی تھیں ۔اس طرح کی تربیت یافتہ لڑکیاں دلہن بن کرکسی اور گاؤں جا تیں تو وہاں ان کے فن کا سکہ چلتا تھا ، پورے گاؤ ں میں ان کی بنائی ہوئی ڈلیا کی دھوم ہوتی تھی،پھر وہ اپنا فن بہت سی لڑکیوں میں منتقل کردیتی تھیں ۔ یہ ایک سلسلہ تھا ، ابھی بیس سال پہلے تک اس کی کچھ کڑیاں باقی تھیں مگر اب گاؤں میں اکادکاہی ڈلیا بنانے والی عورتیں رہ گئی ہیں۔نئی نسل ڈلیا کانام سنتے ہی منہ بنالیتی ہے۔اسے اپنے کچن میں رکھنا بھی گوارا نہیں کرتی ہے ۔
جہاں تک بانس کی ٹوکری کا سوال ہے تواس کی بھی کہانی ختم ہورہی ہے۔ اس کی جگہ اب پلاسٹک کا ٹب استعمال ہورہا ہے۔ بانس کی ٹوکری کا کاروبار سمٹ رہا ہے ، اس کے فن کار کسی دوسرے میدان میں قسمت آزما رہے ہیں ۔ ان کے روز گار کا ذریعہ بدل گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اب وہ اس میں کیوں سر کھپائیں ؟ محنت زیادہ ہے ، آمدنی کم ہے ۔پہلےیہ گھرگھر کاقصہ تھی ، اب بھولی بسری کہا نی بنتی جارہی ہے۔ کچھ لوگ ہی اسے نشانی کے طور پر اپنے گھروں میں  رکھے ہوئے ہیں۔ان ٹوکریوں کی بھی حالت غیر ہوگئی ہے۔ ایک زمانہ تھا، اس کے خریدارزیادہ تھے ، اسے بنانے اور بیچنے والے بھی بہت تھے ۔بڑے پیمانے پر اس کی خریدو فروخت ہو تی تھی ۔ اس میں گیہوں، چاول ، چنا ، مٹر ،مسور اور مکئی وغیرہ سب کچھ رکھا جاتا تھا۔ باغ میں بھی بانس کے بڑے بڑےٹوکرے ہوتےتھے ، اسی میں آم ، امرود یا دوسرےپھل رکھے جاتے تھے ۔ اب باغ میں لو ہے کا ٹوکرا رکھا رہتا ہے ۔ گیہوں پلاسٹک کے ٹب میں دھو یاجاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے میں کون اس کاروبار میں دلچسپی لے گا ؟ ٹب میں گیہوں دھوتے دھوتے بڑی بوڑھیاں آج بھی بانس کی ٹوکری کو یاد کرتی ہیں۔اُس کاآج کے پلاسٹک کے ٹب اور لوہے کے ٹوکرے سے موازنہ کرتی ہیں ۔ وہ اپنے گھروالوں سے کہتی ہیں کہ مونی دوری میں گیہوں دھونے کا بڑا فائدہ تھا ۔ پانی نکالنے کیلئے محنت نہیں کرنی پڑتی تھی ، اب ٹب سےپانی نکالنے کیلئے ڈبل محنت کرنی پڑتی ہے ،اس میں گیہوں باہرگرنےکابھی ڈر رہتا ہے ۔ سوپ کا بھی حال یہی ہے ۔یہ بھی قصۂ پارینہ بن جائے گا۔ اب گھروں میں اسٹیل اور لوہے کے سوپ آگئے ہیں ۔جد ید ذرائع نے اس کی اہمیت کم کردی ہے ۔ اسٹیل یا لوہے کا سوپ گھر کے کسی کونے میں پڑارہتا ہے ، کبھی کبھی اسے استعمال کیا جا تاہے۔
                       حمزہ فضل اصلاحی

ایسا نہیں ہے کہ گاؤں والوں کو بانس کی ٹوکری ، ڈلیا یا سوپ سے چڑ ہوگئی ہے ، انہیں اب بھی یہ عزیز ہیں ۔ انہیں یہ اپنے گھر سے نکالنا نہیں چاہتے ہیں مگر پلاسٹک کے ٹب ، لوہے کے ٹوکرے اور اسٹیل کے سوپ بازار میں آسانی سے مل بھی جاتے ہیں جبکہ ڈلیا ، بانس کی ٹوکر ی اور سو پ کی تلاش میں دشواری ہوسکتی ہے، کئی کئی دن ضا ئع ہوسکتےہیں  ۔ ان کی قیمت بھی پلاسٹک کے ٹب ، لوہے کے ٹوکرے اوراسٹیل کے سوپ سے کہیں زیادہ ہے ۔اس طرح پیسہ ، وقت بچانےاور دشواری سے بچنے کیلئے یہ سودا کرنا پڑ رہا ہے ۔ ویسےہم  پیسوں کیلئے بہت کچھ چھوڑ دیتے ہیں، یہ توگاؤں کی تہذیب وثقافت کی علامتیں ہیں،ان سے ہی گاؤں گاؤں تھا ۔