Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, July 12, 2021

ماہ ذی الحجہ اور ہماری ذمہ داریاں : ‏

از / محمد انظر اعظمی*/صدائے وقت۔
+++++++++++++++++++++++++++++++++
 " ذی الحجہ"  کے شروع کے دس دن بڑے مبارک دن ہیں ،اللہ تعالی کے یہاں ان کی بڑی عظمت اور  قدر و منزلت ہے،  اور ان ایام  میں کیا ہوا نیک عمل اور کی ہوئی عبادت اللہ تعالی کے یہاں بہت ہی مقبول ،محبوب اور پسندیدہ ہے ،ایسے مبارک ایام جلد ہی ان شاءاللہ ہم پانے والے ہیں اللہ تعالیٰ اس کی قدر دانی نصیب فرمائے ۔
*قربانی کا ارادہ رکھنے والے بال ناخن نہ کٹائیں*
قربانی کا ارادہ رکھنے والے جس کے ذمے قربانی ہو وہ یکم ذی الحجہ سے قربانی تک اپنے بال اور ناخن نہ کاٹیں یہ مستحب ہے واحب نہیں
*نو تاریخ یوم عرفہ کے روزے کی فضیلت*۔
ماہ ذی الحجہ کی نو تاریخ عرفہ کے روزے کی خاص فضیلت حدیث میں آئی ہے ،اس روزے کے بارے میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ"  عرفہ کے دن جو شخص روزہ رکھے تو مجھے اللہ تعالی کی ذات سے امید ہے کہ اس کے ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا " نو تاریخ آنے والی ہے اس لیے یہ  روزہ رکھنے کا اہتمام کریں ، اور یوم عرفہ ہر ملک کی اپنی عربی تاریخ کے اعتبار سے ہوگا نہ کی  حرمین کے اعتبار سے ۔ 
*تکبیر تشریق*
ماہ ذی الحجہ یعنی آنے والے مہینے میں ایک عمل تکبیر تشریق ہے جو عرفہ کے دن  نماز فجر سے شروع ہوکر تیرہ تاریخ کی عصر تک جاری رہتا ہے اور یہ تکبیر ہر فرض نماز کے بعد ایک مرتبہ پڑھنا واجب قرار دیا گیا ہے وہ تکبیر یہ ہے *"اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد"* مردوں کے لئے قدرے بلند آواز سے پڑھنا واجب ہے 
*عورتیں بھی تکبیر تشریق پڑھیں*
یہ تکبیر تشریق خواتین کے لیے بھی مشروع ہے اور اس میں عام طور پر بڑی کوتاہی ہوتی ہے اور خواتین کو یہ تکبیر پڑھنا یاد نہیں رہتا مرد حضرات تو چونکہ مسجد میں جماعت سے نماز ادا کرتے ہیں اور جب سلام کے بعد تکبیر کہی جاتی ہے تو یاد آجاتا ہے تو وہ کہ لیتے ہیں لیکن خواتین میں اس کا رواج بہت کم ہے اور عام طور پر خواتین اس کو نہیں پڑھتی ، اگرچہ خواتین پر واجب ہونے کے بارے میں علماء کے دو قول ہیں بعض علماء کہتے ہیں کہ واجب ہے اور بعض علماء کہتے ہیں کہ خواتین پر واجب نہیں بلکہ صرف مستحب ہے مردوں پر واجب ہے لیکن ظاہر ہے کہ احتیاط اسی میں ہے کہ  5 روزتک یوم عرفہ کی فجر سے 13 تاریخ کی عصر تک ہر نماز کے بعد یہ تکبیر کہیں البتہ مردوں پر تو بلند آواز سے کہنا واجب ہے اور خواتین کو آہستہ آہستہ آواز سے کہنا چاہیے اس لیے خواتین کو بھی ان ایام میں تکبیر تشریق کا اہتمام کرنا چاہئے۔ 
*قربانی کی فضیلت*
حدیث میں آتا ہے کہ جب کوئی شخص اللہ کی راہ میں جانور قربان کرتا ہے ، اس قربانی کے نتیجے میں یہ ہوگا کہ اس جانور کے جسم پر جتنے بال ہیں ایک ایک بال کے عوض ایک ایک گناہ معاف ہوتے ہیں اور اللہ تعالی کو ان تین دنوں میں کوئی عمل خون بہانے سے زیادہ محبوب نہیں ہے جتنا زیادہ قربانی کرے گا اتنا ہی اللہ تعالی کو محبوب ہو گا اور فرمایا کہ جب تم قربانی کرتے ہو تو جانور کا خون ابھی زمین پر نہیں گرتا ہے کہ  اس سے پہلے وہ اللہ تعالی کے یہاں پہنچ جاتا ہے اور اللہ تبارک و تعالی کے یہاں تقرب کا ذریعہ بن جاتا ہے
*قربانی کس پر واجب ہے ؟*
جو مسلمان اتنا مالدار ہوکہ اس پر زکوٰۃ واجب ہو یا اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے لیکن ضروری اسباب سے زائد اتنی قیمت کا مال و اسباب ہے جتنی قیمت پر زکوٰۃ واجب ہے یعنی ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت کا مال و اسباب ہے تو اس پر قربانی واجب ہے 
*مسئلہ* اس مال کا سامان تجارت ہونا بھی ضروری نہیں ہے اور نہ ہی اس پر ایک سال کا گزرنا ضروری ہے 
*مسئلہ* جن عورتوں کے پاس نصاب یا اس کی بقدر ضرورت اصلیہ سے زائد سامان یا زیورات وغیرہ ہوں تو ان پر اپنی طرف سے قربانی واجب ہے 
*قربانی دوسرے ایام میں نہیں*
قربانی کا عمل ذی الحجہ کی 10 ,11 ,12 تاریخ کو انجام دیا جاسکتا ہے اور ان‌ ایام میں سب سے افضل عمل جو اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے وہ قربانی کا عمل ہے ان ایام کے علاوہ میں جانور ذبح کرکے قربانی نہیں ہوسکتی ہے 
*قربانی کے جانور*
 پانچ قسم کے جانور قربانی کے لئے ذبح کیےجاسکتے ہیں بھیڑ ،بکری ،گاۓ ،بھینس ،اونٹ (نر یا مادہ) 
*جانوروں کی عمر*
قربانی کے جانوروں میں بھیڑ بکری ایک سال ،گاۓ بھینس دو سال اور اونٹ پانچ سال کا ہونا ضروری ہے 
*شرکاء کی تعداد*
قربانی کا جانور اگر بکری یا بھیڑ ہو تو صرف ایک آدمی کی شرکت ہوگی اور اگر گاۓ ،بھینس ،اونٹ ہے تو اس میں سات آدمی شریک ہوسکتے ہیں 
*قربانی کا دن اور وقت*
قربانی کے تین دن ہیں دس گیارہ اور بارہ ذی الحجہ اور قربانی کا وقت شہر والوں کے لیے نماز عید کے بعد اور دیہات والوں کے لیے جن پر نماز جمعہ فرض نہیں صبح صادق سے شروع ہوجاتا ہے لیکن سورج طلوع ہونے کے بعد ہی  ذبح کرنا افضل ہے۔  
*قربانی نہ کرنے کی وعید*
حدیث میں آتا ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس شخص کو قربانی کی وسعت حاصل ہو اور وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ بھٹکے ۔
*قربانی کی اصل روح*
ہر عبادت کا ایک موقع اور محل ہوتا ہے مثلاً کوئی شخص یہ سوچے کہ میں نماز نہ پڑھوں اور اس کے بجائے غریب کی مدد کردوں تو اس سے نمازکافریضہ ادا نہیں ہو سکتا ، غریب کی مدد کرنے کا اجر و ثواب اپنی جگہ ہے لیکن جو دوسرے فرائض ہیں وہ اپنی جگہ پر فرض و واجب ہے اور قربانی کے خلاف یہ جو پروپیگنڈہ کیا گیا ہے کہ وہ عقل کے خلاف ہے اور یہ معاشی بدحالی کا سبب ہے اور معاشی اعتبار سی  اس کا کوئی جواز نہیں ہے یہ درحقیقت قربانی کے سارے فلسفے اور اس کی روح کی نفی ہے  ،قربانی تو مشروع ہی  اس لیے کی گئی ہے کہ یہ  کام تمہاری عقل اور سمجھ میں آ رہا ہوں یا نہ آ رہا ہوں پھر بھی یہ کام کرو اس لیے کہ ہمیں  اس کے کرنے کا حکم دیا ہے ہم جو کہیں اس پر عمل کرکے دکھاؤ یہ قربانی کی اصل روح ہے
قارئینِ کرام : قربانی کا اصل مقصد اللہ تعالی کے حکم کو بجا لانا اور اس کی رضا و خوشنودی کا حاصل کرنا‌ہے جس طرح سے سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم کو پورا کرتے ہوئے اپنے لخت جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربان کردیا اسی طرح ہمیں بھی ان ایام میں اللہ تعالیٰ کے حکم کو پورا کرتے ہوئے جانوروں کی قربانی پیش کرنی چاہیے اور اپنی قربانی دکھاوا ،نام نمود سے بچاکر اللہ تعالی کی رضا کے لئے کرنی چاہئے ۔ 
قارئینِ کرام : موجود وقت میں عالمی وبا کرونا وائرس کی وجہ سے  کہیں لاک ڈاؤن تو کہیں انلاک ہے اور الگ الگ جگہ حکومت کی الگ الگ گائیڈ لائن جاری کی گئی ہے ہمیں ان کا پورا خیال کرتے ہوئے قربانی کا عمل اور عید الاضحی تہوار منانا چاہیے۔