Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, July 18, 2021

قربانی رسم نہیں، رضائے الہٰی کا ایک ذریعہ. ‏. ‏. ‏

                 از/ اسانغنی مشتاق  رفیقیؔ 
                  صدائے وقت.. 
=≠============================
  خدا خدا کر کے کرونا کی دوسری لہر کا خا تمہ ہوا اور لاک ڈاؤن سے نجات ملی۔ اس دوسری لہر نے توعوام پرایسی قیامت ڈھائی کہ کئی سو افراد،جان پہچان والے اس لہر کی نذر ہوگئے۔موت اور زندگی کی نا پائداری کو قریب سے دیکھنے اور محسوس کرنے کا موقع ملا۔ جب وبا سے متاثر مریضوں کو آکسیجن کے لئے تڑپتے، اور اپنی ساری دولت لٹانے کے لئے تیار دیکھا تو ایک ایک سانس کی قیمت کا اندازہ ہوا۔ انسانوں کے ان گھناؤنے چہروں پرسے بھی پردہ اُٹھاجو اس خطرناک وبا سے متاثر مجبور اور بے بس لوگوں سے بھی اپنا فائدہ نچوڑ نے میں شب وروز مصروف تھے۔ نفسا نفسی کے اس عالم میں اچھے اچھوں کو اپنی اور اپنے گھر والوں کی جان کی حفاظت کے لئے ڈگمگاتے، لڑکھڑاتے، گڑگڑاتے اور در بدر بھٹکتے دیکھا۔ سچ میں خدا ایسا دن،ایسے حالات کسی کو نہ دکھائے جو ہم نے دیکھے ہیں۔ خبر ہے تیسری لہر بھی آنے والی ہے۔ خدا خیر کرے۔
 ذی القعدہ کا مہینہ قریب الختم ہے اور ذی الحجہ کی آمد آمد ہے۔ اسی کے ساتھ چہاروں سمت قربانی کے تعلق سے ہل چل شروع ہو چکی ہے۔ قربانی حضرت ابراھیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ حضرت ابراھیم علیہ السلام اللہ کے ایک بر گزیدہ پیغمبر ہیں جن کی زندگی کا ہر لمحہ رضائے الٰہی پر نثارتھا۔ اللہ کو ان کی ادائیں اتنی پسند آئیں کہ اس نے قیامت تک کے لئے ان کے اعمال کو،ان ایمان والوں پر جو اس کے ادا کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں واجب کردیا۔ قربانی درحقیقت ان کی اُس عظیم عمل کی یادگار ہے جس میں انہوں نے اپنی زندگی کی بیش قیمتی چیز کو رضائے الٰہی کے لئے قربان کرنے کی ٹھان لی اور عملا ًآمادہ ہو گئے۔ اللہ رب العزت ان کی اس سنت کو قائم رکھ کر در حقیقت یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ اس کے نزدیک اہمیت اصل میں اس جذبے کی ہے جس کا مظاہرہ حضرت ابراھیم علیہ السلام نے اپنے عمل سے پیش کیا۔ جیسا کہ قران پاک میں اس کا ارشاد ہے۔ 
 "اللہ تعالیٰ کے پاس ان قربانیوں کا نہ گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون بلکہ اس کے پاس تمھارا تقویٰ(یعنی پرہیز گاری)پہنچتا ہے۔" 37۔سورۃ الحج۔
 قربانی کا اصل مقصد رضائے الٰہی کے خاطر، اپنی زندگی کی ہر قیمتی اور ضروری چیز قربان کرنے کے لئے اپنے آپ کوآمادہ کرنا ہے، سچے جذبے کے ساتھ،رسم اور دکھاوے کے لئے نہیں۔کوئی غریب، تقدیر پر صابر اور شاکر رہنے والا، جس کے پاس جانور خریدنے کی استطاعت نہ ہو، اس کا اس بات پر رنجیدہ ہونا کہ اگر اللہ نے اسے صاحب مال کیا ہوتا تو وہ بھی اس سنت کی ادائیگی میں شریک ہوتا اس مالدار شخص سے بہتر ہے جو لاکھوں روپئے کے جانور خرید کر قربان کرے لیکن اس کے نزدیک یہ صرف ایک رسم کی ادائیگی ہو۔ 
 تقویٰ اور پرہیزگاری ایک جامعہ اصطلاح ہے اور یہ اپنے اندر بہت وسعت رکھتی ہے۔ مختصرلفظوں میں کہا جائے تو ہر اُس چیز سے بچنا جس سے خالق کائنات ناراض ہوتا ہو اور اس کے مخلوق کو ذرا سا بھی نقصان پہنچتا ہو،تقویٰ ہے۔ قربانی اگر بغور دیکھا جائے تو اپنے اطراف موجود غریب طبقہ کو فائدہ پہنچانے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ سرمایہ داروں کی تجوری میں سال بھر منجمد رہنے والی ایک بڑی رقم قربانی کے نام پر معاشرے میں پھیل جاتی ہے اور اس سے ایک بہت بڑا طبقہ فائدہ حاصل کرتا ہے۔ یہی نہیں جنہیں سال بھر کبھی گوشت کھانا نصیب نہیں ہوتا وہ بھی شکم سیر ہر کر گوشت کھاتے ہیں۔ اگر ایسی کوئی بات ہو جائے جس سے بظاہر قربانی تو ادا ہوتی نظر آئے لیکن معاشرے میں نہ مال پہنچے اور نہ غریب طبقے میں گوشت تو یہ بات قربانی کی اصل مقصد سے روگردانی ہے۔ 
 امسال معاشرے میں عوام کا جو حال ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اچھے اچھے سفید پوش مسلسل لاک ڈاؤن کی وجہ سے سڑک پر آگئے ہیں۔ ایسے میں ہمارا اول مقصد یہی ہونا چاہئے کہ ہماری قربانی والی عمل سے ہمارے سماج کے غرباء کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچے۔ جانور کی خریدی سے لے کر اس کی قربانی، اس کی صاف صفائی اور پھر گوشت کی تقسیم میں ہمارا دھیان اسی نکتے پر مرکوز ہونا چاہئے۔ قربانی چاہے ہم انفرادی طور پر کریں یا اجتماعی قربانی میں شریک ہوں، ہمارے مطمح نظر یہی بات ہونی چاہئے کہ کیسے غریب، نادار، پریشان حال طبقہ تک اس کا فائدہ پہنچائیں۔ 
 دیکھنے میں آتا ہے کہ اجتماعی قربانی کے نام پر دور دراز علاقوں کو جہاں کبھی آنا جانا ہی نہیں ہوتا یا جہاں کے حالات سے کلی واقفیت ہی نہیں ہوتی، سستے داموں کے چکر میں بہت سارے لوگ حصے کی رقم بھیج دیتے ہیں۔ ایک تو اس سے قران کے اس حکم: ”تم قربانی کے گوشت میں سے خود کھاؤ، سفید پوش اور مانگنے والوں کو بھی کھلاؤ“ 36سورۃ الحج، پرعمل ممکن نہیں ہوتااور دوسری بات ہماری دولت ایسے لوگوں میں پھیلنے کے بجائے جن کا ہم پر قریب رہنے کی وجہ سے حق ہے ایک ایسے علاقے کی طرف چلی جاتی ہے جس سے ہمارا کوئی خاص تعلق نہیں ہوتا۔ یہاں یہ بات یاد رکھیں کہ ہر مومن مسلمان پر سب سے زیادہ حق اس کے خود کے علاقے کا ہوتا ہے، یہاں کے غرباء اور مساکین دانے دانے کو ترستے رہیں اور ہم صدقات اور خیرات بانٹنے کے لئے دوسرے علاقوں کوچلے جائیں تو گویایہ بھی ایک قسم کا اخلاقی گناہ ہے۔ اس لئے افضل یہی ہے کہ قربانی خود کریں اپنے ہاتھوں سے اور اس کے گوشت میں سے خود بھی کھائیں، صدقہ بھی کریں اور چاہے تو ذخیرہ بھی کرلیں (ارشاد نبی ﷺ ہے کہ: اس میں سے کھاؤ، ذخیرہ کرو اور صدقہ دو،1971صحیح مسلم)۔اگر یہ ممکن نہیں ہے تو اپنے شہر میں اجتماعی قربانی میں شریک ہوں، وہاں سے گوشت حاصل کرکے خود کھائیں، صدقہ کریں اورچاہیں تو ذخیرہ کریں۔ سوائے اس کے اور کوئی قربانی کا بہتر طریقہ نہیں۔ ہاں اگر رسماً کوئی قربانی کرنا چاہتا ہے تو اس کے لئے ہزار راستے ہیں، ہزار تاویلیں ہیں اور ہزار گنجائشیں ہیں۔و اللہ عالم بالصواب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔