Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, November 20, 2021

*سکھ اور مسلم احتجاج کا موازنہ*



از / شبیع الزماں/ صدائے وقت 
=================================
بعض لوگ کسان آندولن کی کامیابی کا موازنہ مسلمانوں کے ذریعے کیے گئے احتجاجی مظاہروں اور دھرنوں سے کر رہے ہیں اور اس بنا پر مسلمانوں کو کوس رہے کہ انکے احتجاج خراب حکمت عملی کے سبب ناکام ہوتے ہیں۔

احتساب اور جائزہ اچھی چیز ہے  لیکن ہر دفعہ مسلمانوں کو غیر ضروری کوسنے سے کیا حاصل۔ ہندوستان میں سکھوں کی پوزیشن اور مسلمانوں کی پوزیشن میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔ 

سکھ ایک چھوٹی اور متحد کمیونٹی ہے ۔ جو ایک ریاست میں اکثریت میں ہے اور انکی معاشی حالت  مضبوط ہے ، ہندوستان کے کئی اہم شعبوں میں اس کمیونٹی کے لوگوں کا دبدبہ اور اثر قائم ہے ۔ ان سب کے ساتھ موجودہ حکومت کے فکری رہنما ویر ساورکر کی ہندو کی تعریف میں سکھ بھی آتے ہیں ۔ ہندوتوادی، ہمیشہ سے مسلمانوں کے خلاف سکھوں کو اپنے سے قریب کرنے کی کوشش کرتے رہیں ہیں۔ اسلیے سکھوں کے لیے انکا سافٹ کارنر واضح ہے ۔
سکھوں کے بالمقابل مسلمان ، ہندوستان میں کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں لیکن وہ پورے ملک میں بکھرے ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کی معاشی اور سیاسی قوت سکھوں کی طرح مضبوط نہیں ہے ، اور ان سب سے بڑھ کر موجودہ حکومت کی بنیاد ہی مسلم دشمنی پر قائم ہے ۔ سکھ اور مسلم احتجاج کا موازنہ کرتے وقت یہ نکات ذہن میں رہنے چاہیے۔ 

موجودہ حالات میں مسلمانوں کا رد
 عمل محتاط ہے ۔ڈر بعض اوقات انسان میں بزدلی پیدا کرتا ہے اور بعض حالات میں شدت پسندی، لیکن ڈر کبھی کبھی ایک  درجہ کی سمجھداری پیدا کر دیتا  ہے اور فی الوقت مسلمان اسی سمجھداری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ مسلمان بزدل نہیں ہے لیکن وہ ہوا کا رخ دیکھ رہے ہیں اور حالات کی نزاکت کو سمجھ رہے ہیں۔ وہ اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ یاترائیں،جلسے ،جلوس اور ریلیاں کرکے  مسلمانوں کو منظم کر سکے بلکہ اقتدار تو انھیں جمہوری طور پر صدائے احتجاج تک درج کرنے کی اجازت نہیں دے رہا ہے ۔

آج کوئی بت نہیں دیتا صداؤں کا جواب
ایک دن خود ہی پکارے گا صنم خانہ ہمیں