Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, December 12, 2021

اچھا ماحول بنائیے............!!!


از / مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی نائب ناظم امارت  شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
                         صدائے وقت 
==================================
 اس دنیا کے ماحول کو خراب کرنے میں ہماری بد عملی اور بے عملی کا بھی بڑا دخل ہے ، یہ جو روئے زمین پر گناہ کے کام ہورہے ہیں،ایمان سوز واقعات ہمارے سامنے آ رہے ہیں، کسی دن کا اخبار اٹھا کر دیکھ ڈالیے اس میں قتل وزنا ، فحاشی وبدکاری اور جرائم کے واقعات کثرت سے آپ کو ملیں گے، اس کی بنیادی وجہ ماحول کی خرابی ہے ، انسان جس ماحول میں زندگی گذاررہا ہے،ا س سے وہ اپنے کو الگ تھلگ نہیں کر سکتا، بے نمازی کے ماحول میں رہ کر پابند صلوٰۃ لوگوں کی نماز کے چھوٹ جانے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، کوئلے کی کان کے پاس سے گذرنے سے کپڑے کالے ہوتے ہیں اور پھول کی کیاریوں سے گذریے تو کپڑوں میںپھول کی خوشبو رچ بس جاتی ہے ، نیکوں کی صحبت سے جو ماحول بنتا ہے وہ دل ودماغ کونیکیوں کی طرف راغب کرتا ہے اور بدوں کی صحبت بدی کی طرف مائل کرتی ہے ؛ اس لیے سماج کے ماحول کو بنانے کی ضرورت ہے۔
 ماحول سازی کا یہ کام سماج میں رہ رہے ہر انسان کی ذمہ داری ہے ۔ البتہ ایک داعی قوم ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کی زیادہ ذمہ داری بنتی ہے ، مسلمانوں میں بھی چوں کہ علماء وارث انبیاء ہیں، ان کے پاس دینی علوم ومعارف کا خزانہ ہے ، اس لیے ان کی پہلی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو بتائیں کہ دنیا کے ماحول کو صرف فضائی آلودگی ہی سے خطرہ نہیں ہے، ہماری بدعملی سے بھی خطرات لاحق ہیں، اس لیے ہمیں اپنے اعمال کی اصلاح کی فکر کرنی چاہیے اور اچھے سماج کے بنانے میںمعاونت کرنی چاہیے ، پورے ماحول کو خدا بیزاری سے بچانا اور دہر یوں کو ایمان کے راستے پر لگانا ایک بڑا کام ہے ، ماحول سازی کا کام ہمیںمذہب کی بنیادی تعلیمات سے شروع کرنا چاہیے ، لوگوں کو بتانا چاہیے کہ خدا بیزاری اور دین سے دور ہونے کے دنیوی اور اخروی نقصانات کیا ہیں،ا ور کس طرح اس کی وجہ سے ہماری زندگی اجیرن بنتی جا رہی ہے۔ذات برادری کی لعنت ، طبقاتی ، نسلی ، لسانی عصبیت اور اپنے مفاد کے لیے دوسروں کے مفاد کو داؤ پر لگانے کی ہوڑ نے ہماری سماجی زندگی کو کس طرح جہنم بنا کر رکھ دیا ہے۔
 اس کے لیے ہمیں اپنے اعمال کی اصلاح بھی کرنی ضروری ہے ، اس لیے کہ اصلاح کرنے والے کو خود بھی با عمل ہونا چاہیے، مصلح کا عمل خود اس کی دعوت کوجھٹلادے تو سماج میں ایسی دعوت کی اہمیت باقی نہیں رہتی، اچھا ماحول بنانے کے کام میں جو لوگ لگیں انہیں اسوۂ نبوی کا نمونہ اور نیکیوں کے کام کا آئیڈیل ہونا چاہیے، صحف آسمانی اور کتب سماوی کے ساتھ انبیاء ورسولوں کا طویل سلسلہ ہمیں بتاتا ہے کہ کتاب ہدایت کے ساتھ ہادی برحق بھی ہونا چاہیے؛ تاکہ لوگ اس کی زندگی کو دیکھ کر سمجھیں کہ صحیح اور سچا آدمی کیسا ہوتا ہے اور اس کی زندگی کی حرکات وسکنات اور نشیب وفراز کیسے ہوتے ہیں یہ اصلا کسی کو مان کر اس کے مطابق اپنی زندگی بنانے کا عمل ہے، شروع میں لوگ اس کی قدر نہیں کرتے ، آپ کو واجبی اکرام بھی اس کام کے لیے شاید نہ ملے، کیوں کہ جس دنیا میں آپ حق کی آواز بلند کر رہے ہیں، وہ گندگیوں کا شکار ہے ، وہاں بیش تر لوگ اس گندے ماحول کے عادی ہو گیے ہیں، اس لیے انہیں وہی ماحول پسند ہے ، آپ جن خطوط پر ماحول سازی کرنا چاہتے ہیں،و ہ ان کے لیے اجنبی ہے، خراب ماحول نے ان کی سماعت ، بصارت، ذوق ووجد ان کو اس قدر متاثر کر دیا ہے کہ باد بہاری سے انہیں تکلیف پہونچتی ہے ، غلاظت میں رہ رہے کیڑے کو گلاب کی پنکھڑیوں میں ڈال دیجئے تو تھوڑی دیر میں وہ مرجائے گا ؛ کیونکہ وہ خوشبو کا عادی نہیں ہے اور غلاظت اس کے مزاج کا حصہ بن گئی ہے۔اورآپ شہد کی مکھیوں کو غلاظت میں ڈال دیجیے یا تتلیوں کو تھوڑی دیر غلاظت اور گندگی میں چھوڑ دیجئے تو وہ بھی مرجائیں گی ، اس لیے ماحول سازی کے کام کو آسان نہیں سمجھنا چاہیے، خصوصاً اچھا ماحول بنا نا آسان نہیں ہے، اس کے لیے تدریجاً اصلاح کی طرف قدم بڑھانا چاہیے، دعوت کی حکمت ومصلحت کو سامنے رکھکر کام کرنا چاہیے ۔
 خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ماحول کی اصلاح کا کام کرنے والا، سپاہی اور اور داروغہ نہیں ہے، در اصل داروغہ اور سپاہی کا کام جرائم کو روکنے کے لیے حکمت ومصلحت کے ساتھ نہیں ہوتا ، وہ تو غلط ہوتے دیکھ کر لاٹھی برسانا شروع کر دیتا ہے ، گولی چلاتا ہے، اور پکڑ کر ایسی سختیاں کرتا ہے کہ انسانی روح کراہنے لگتی ہے ، اسی لیے سپاہی کے اس عمل سے اصلاح کا کام نہیں ہوتا ، بلکہ اگر چھوٹا موٹا جرم کرنے والا پولیس کی سختیاں جھیل کر جیل سے باہر آتا ہے تو وہ بڑا عادی مجرم بن جاتا ہے ،اس لیے مصلحین کے کام کا نہج پولیس کے طرز عمل سے الگ ہونا چاہیے ، پولس مجرموں سے نفرت کرتی ہے؛ لیکن مصلح بے راہ رو لوگوں سے نفرت نہیں کرتا ، وہ گناہ سے نفرت کرتا ہے ، گناہ گاروں سے نہیں ، اس کے دل میں ایک تڑپ اور کسک ہوتی ہے کہ بھٹکے ہوئے لوگ کس طرح راہ راست پر آجائیں ، اور گناہوں سے تائب ہو جائیں۔
 اس کام کے لیے ایسی شفقت مطلوب ہے، جس کے سہارے گناہ گار، مصلحین سے قریب ہو جائے، ماضی قریب میں جنید جمشید کو دیکھیے، گانے بجانے والا آدمی مولانا طارق جمیل سے قریب ہو گیا تو اس کے دل کی دنیا بدل گئی ، ایسے واقعات شاذ ونادر نہیں ہیں، بلکہ اس کا ایک طویل سلسلہ ہے اور ہر کس وناکس کے تجربہ میں اس کی بہت ساری مثالیں موجود ہیں۔ 
اس قربت کے لیے ضروری ہے کہ اصلاح کرنے والا لوگوں کو خوش خبری سنائے ، رغبت دلائے ، اللہ سے ملاقات اور جنت کے حصول کے طریقے بتائے، جو لوگ جہنم کی ہولناکیوں سے متاثر ہوں ، انہیں جہنم کے بارے میں بتایا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے کن لوگوں کے لیے تیار کیا ہے، یعنی وہ بشیر بھی ہو اور نذیر بھی ہو ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ صفت خاص طور سے بیان کی گئی کہ تمام لوگوں کے لیے آپ کو بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا گیا۔
دنیا کے سارے کام میں تربیت اور سیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے ، اچھا ماحول بنانے کا کام کارِ نبوت ہے، ظاہر ہے اس کام کو بھی سیکھنے کی ضرورت ہے، سیکھنے کے لیے اس کے پاس جانا ہوگا ، جس کے ورک شاپ میں یہ چیز ملتی ہو، یہ دوکان اولیاء اللہ بزرگان دین ، مصلحین، مبلغین اور دعاۃ حضرات نے لگا رکھی ہے، یہ سوچنا قطعا صحیح نہیں ہے کہ ’’ وہ جو بیچتے تھے دوا ئے دل وہ دوکان اپنی بڑھا گیے‘‘ دوکان بڑھی نہیں ہے، موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گی ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو تقویٰ کے ساتھ صدیقین کی صحبت اختیار کرنے کا حکم دیا ہے ، اس لیے صدیقین کی جماعت قیامت تک ختم نہیں ہو سکتی ، ضرورت طلب کی ہے ، جستجو کی ہے ۔ 
تجربات ومشاہدات بتاتے ہیں کہ دعوت وتبلیغ کی محنت ، مدارس اسلامیہ کی تعلیم وتربیت ، صالح اور صحیح العقیدہ پیر ومرشد کی صحبت ، اپنی زندگی کو خیر کے لائن پر ڈالنے ، دوسروںکو راہ راست پر لانے اور اچھا ماحول بنانے میں اکسیر کا درجہ رکھتی ہے ، ضرورت اس بات کی ہے کہ سماج کو صالح رخ دینے اور اچھا ماحول بنانے کے لیے ہر طبقہ کے لوگ آگے آئیں ،اور اس کام میں اپنی حصہ داری نبھائیں۔