Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, April 13, 2022

بلڈوزر کی سیاست!!!!!!!


بلڈوزر کا خوف اب اتر پردیش سے نکل کر مدھیہ پردیش میں بھی دکھایا جا رہا ہے... آگے آنے والے دنوں میں اس کا استعمال بی جے پی کی حکومت والے سبھی صوبوں میں کیا جا سکتا ہے..

از قلم / ڈاکٹر شرف الدین اعظمی.. /صدائے وقت.
=================================
[اتر پردیش میں وزیر اعلیٰ یوگی آدیتہ ناتھ نے اپنے پہلے دور کی مدت کار کے دوران کچھ جرائم پیشہ افراد پر گینگسٹر کی کاروائی کرتے ہوئے ان کی املاک کو ضبط کرنے کے ساتھ ساتھ املاک کے کاغذات کی تفتیش کرائی اور غلط پائے جانے پر اس املاک پر تعمیر شدہ عمارت کو بلڈوزر سے زمیں دوز کروا دیا...
 بلڈوزر کی گونج گزشتہ دنوں اترپردیش صوبائی الیکشن میں بھی خوب سنائی دی.. جہاں حزب مخالف کی جماعتوں نے وزیر اعلیٰ کی بلڈوزر پالیسی کو پرزور طریقے سے تنقید کا نشانہ بنایا وہیں بی جے پی نے بھی بلڈوزر کی پالیسی کا دفاع بھی کیا اور آئندہ جاری رکھنے کا اپنا عزم بھی عوام کے سامنے رکھا.... یہاں تک کہ وزیر اعلیٰ کو 'بلڈوزر بابا " بھی کہا جانے لگا.
بی جے پی کی ایک خاص بات یہ رہی ہے کہ اس کے پالیسی ساز ہر منفی پہلو کو مثبت میں تبدیل کرنے کا ہنر اچھی طرح جانتے ہیں.. جب وزیر اعظم مودی کو" چائے والا "کہکر مذاق اڑانے کی کوشش ہوئی تو" چائے پر چرچا " کے پروگرام کا انعقاد کرکے مودی وزیر اعظم بن گیے... یہی حالت یوگی کے بلڈوزر کی ہوئی.. جتنا ان کے بلڈوزر پر تنقید ہوئی اس کا  اتنا ہی فائدہ بی جے پی نے اٹھایا اور علی الا علان کہا کہ جرائم پیشہ افراد پر بلڈوزر چلتا رہے گا اور ان کا اشارہ زیادہ تر مسلم مافیاؤں پر تھا حالانکہ زد میں کچھ غیر مسلم بھی آئے.. بی جے پی دوبارہ جیتی، یوگی پھر سے وزیر اعلیٰ بنے اور اب اتر پردیش میں بلڈوزر خوب چلنے لگا.. اخباروں میں روزانہ یو پی کے کسی نہ کسی علاقے میں بلڈوزر چلنے کی خبر شائع ہوتی رہتی ہے.
 بلڈوزر اب اتر پردیش سے نکل کر دوسری ریاستوں میں سرگرم ہے..دو دن قبل مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ نے بھی مسلمانوں کے کئی مکانات پر بلڈوزر چلوا دیا.. بات شروع یہاں سے ہوتی ہے کہ 10  اپریل کو رام نومی تھی.. اس دن ہندو مذہب کے ماننے والے جلوس نکالتے ہیں.. حالانکہ رام نومی کا جلوس پہلے کہیں کہیں نکلتا تھا. کئی جگہوں پر میلے لگتے تھے مگر اب یہ جلوس ہر شہر. قصبوں و چھوٹی چھوٹی بازاروں و دیہاتوں میں بھی نکلنے لگا.. اس سال تو اور بھی زیادہ جوش و خروش رہا جسکی وجہ چار ریاستوں میں بی جے پی کی جیت ہے.
اس رام نومی کے موقع پر پورے ملک میں جلوس نکالا گیا اور اشتعال انگیز نعرے لگائے گئے نتیجتاً گجرات سے لیکر بنگال تک کئی جگہوں پر پرتشدد واقعات ہوئے. دو افراد کی موت ہوئی. گجرات، مدھیہ پردیش، کرناٹک ،اترپردیش ،بہار، جھارکھند، بنگال و گووا کی ریاستوں میں کئی جگہوں پر تشدد پھوٹ پڑا.. مرنے والوں میں ایک شخص گجرات سے اور ایک شخص جھارکھند سے ہے. کئی مقامات پر کرفیو اور دفعہ 144 نافذ کرنی پڑی. بہت سے افراد زخمی ہوئے... گرفتاریاں بھی ہو رہی ہیں.
 مدھیہ پردیش کے کھر گون میں شیو راج سنگھ سرکار کی ایک طرفہ کارروائی میں مسلمانو کے درجنوں مکانات پر بلڈوزر چلا دیا گیا. وزیر اعلیٰ شیو راج سنگھ کے مطابق فسادیوں کی شناخت کرکے یہ انہدامی کاروائی ہونی... سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ کوئی فساد یکطرفہ کیسے ہوا ہوگا.. فسادی تو دونوں طرف سے ہوتے ہیں پھر یہ ایکطرفہ کاروائی کیوں...؟
یہ کون سا قانون بن گیا ہے کہ عدلیہ سے قبل ہی صاحب اقتدار سزا دینے لگتے ہیں... جس دن فساد ہوا اس کے دوسرے اور تیسرے ہی دن فسادیوں کی شناخت بھی کر لی گئی نہ کوئی چارج شیٹ نہ کوئی عدالتی حکم،، صوبائی حکومت طاقت کے نشہ میں اپنی من مانی کر رہی ہے اور بی جے پی کی برسراقتدار صوبائی سرکاریں اب بلڈوزر کی دوڑ میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش میں ہیں..
ان تمام فسادات کی حقیقت رپورٹوں کے مطابق یہ ہے کہ رام نومی کے جلوس میں شامل لوگوں نے مسجدوں اور مسلم آبادیوں کے پاس اشتعال انگیز نعرے لگائے.. مسلمانو کو گالیاں دی گییں... مذہب پر نازیبا کلمات استعمال کیا گیا... اس کیوجہ سے فساد بھڑکا.. جس میں مسلمانوں کی عبادت گاہوں کے علاوہ ان کے املاک کو بھی نذر آتش کیا گیا.... یہ آگ زنی کرنیوالے لوگ کون تھے؟ کیا ان کی پہچان نہیں ہو پائی،؟ کیا ان کے گھروں کے لیے بلڈوزر نہیں مل پایا
مدھیہ پردیش حکومت اپنی اقلیتی دشمنی کا ثبوت کھلے عام دے رہی ہے.. اسے نہ تو عدالت کاڈر ہے اور نہ ہی اپنے لوگوں کا پاس...
شہرت کی بلندی بھی پل بھر کا تماشہ ہے.
جس شاخ  پر بیٹھے ہو وہ ٹوٹ بھی سکتی ہے.

ہندوستان کے حالات بد سے بد تر ہوتے جارہے ہیں.. فرقہ پرستی نا قابل برداشت حد تک بڑھ چکی ہے.. ملک کے کئی مقامات پر فسادات ہوئے مگر نہ تو وزیر اعظم اور نہ ہی وزیرداخلہ امت شاہ نے اپنا کوئی رد عمل دیا... بہت سارے معاملات اور خاص طور پر انسانی حقوق کی پامالی یا بہت ہی سنگین مسلوں پر عدلیہ از خود نوٹس لیکر کارروائی کرتی ہے مگر مدھیہ پردیش میں ایک ہی دن کے اندر صرف مسلم فسادیوں کی شناخت کرکے درجن بھر کے گھروں کو زمیں دوز کردیا جاتا ہے، عدلیہ کا کام سرکار کرنے لگتی ہے اور عدلیہ بھی خاموش ہے.
 آپ کو یاد دلا دیں کہ دو سال قبل جب اتر پردیش کے کئی شہروں میں این آر سی کے کالے قانون کو لیکر احتجاج ہوا تھا، وہ کہیں کہیں پرتشدد بھی ہوگیا تھا اس احتجاج میں مسلمانوں کا کافی جانی و مالی نقصان ہوا.. ایک طرفہ مسلمانوں پر مختلف سنگین دفعات میں مقدمہ دائر کر کے سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا اور اس پر بھی ستم ظریفی یہ کہ وزیر اعلیٰ یوگی نے غیر قانونی ڈھنگ سے،اپنے اختیارات کا بیجااستعمال کر کے  ملزمان پر جرمانہ عائد کر دیا اور وصولی کی کاروائی شروع کردی.. حد تو یہ تھی کہ کچھ لوگوں کے نام کو لکھا کرےجگہ جگہ پوسٹرز و بینرس لگا دیے گیے جس پر ان کے فوٹو بھی لگے تھے. اس معاملے کو لیکر عدالت سے یوپی حکومت کی کافی سرزنش کی گئ اور عدالت نے فوراً حکومت کو حکم دیا کہ یہ وصولی کی نوٹس واپس لی جائے اور ابھی تک جن لوگوں سے جرمانے کی رقم وصولی گئ ہے اسے واپس کیا جائے.. اس معاملے کو لیکر حکومت اترپردیش و وزیر اعلیٰ کو کافی شرمندگی اٹھانی پڑی.
مدھیہ پردیش میں بھی وزیر اعلیٰ نے غیر قانونی طور پر جو بلڈوزر کا استعمال کیا ہے اس کو عدالت میں چیلنج کرنے کی ضرورت ہے..
میں مدھیہ پردیش کی سماجی انصاف پسند تنظیموں، ملکی پیمانے پر ظلم و نا انصافی کے خلاف آواز اٹھانے والی و قانونی امداد پہنچانے والی تنظیمیں آگے بڑھ کر اس معاملے کو عدالت تک لے جائیں اور اس بلڈوزر کی سیاست کو ختم کروائیں خواہ وہ ملک کے کسی بھی گوشے میں ہو.. مقامی طور پر بھی سیاسی و سماجی طور پر بیدار حضرات کو آگے آنے کی ضرورت ہے.. اب وقت آگیا ہے کہ ان فسطائی طاقتوں کا ہر سطح پر مقابلہ کرنا ہے اور ابھی ملک میں عدالتوں سے انصاف کی امید باقی ہے.. عدالتیں ہی ایک امید کی کرن ہیں..
ڈاکٹر شرف الدین اعظمی..
نوٹ،،،، مضمون نگار نیوز پورٹل صدائے وقت کے چیف ایڈیٹر ہیں.