Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, April 1, 2022

طبیہ کالج قرولباغ میں حکیم اجمل خاں کے پر پوتے۔ مسرور احمد خاں کا یاد گار خطبہ۔


نئی دہلی /صدائے وقت /نمائندہ 
==================================
 مٶرخہ 29 مارچ بروز بدھ۔ طبیہ کالج کیمپس میں یوم اجمل اور صدی تقریب کے موقعہ پر مسیح الملک حکیم اجمل خاں ؒ  کے پرپوتے مسرور احمد خاں نے ایک یاد گار خطبہ پیش کیا۔ مسرور احمد خاں حکیم اجمل خاں کے وارثین میں سے ہیں اور خاندان شریفی کے امین ہیں۔ 

 یوم اجمل اور صدی تقریب کے موقعہ پر ڈاٸریکٹر (آیوش) ڈاکٹر راجکمار منچندا اور کالج انتظامیہ کی درخواست پر آپ نے دعوت خطاب قبول کرتے ہوے اپنے وجود سے طبیہ کالج کو رونق بخشی۔

یوم اجمل و صدی تقریب کے موقعہ پر حکومت دہلی کے اراکین و نماٸندگان کے علاوہ کالج انتظامیہ اور ڈاٸریکٹوریٹ کے اراکین بھی موجود تھے۔

آپ نے اپنے یادگار خطبہ میں حکیم اجمل کی حیات و سوانح، طبی و سیاسی جد و جہد ، جنگ آزادی میں انکی قربانیوں اور گنگا جمنی تہذیب میں انکے کردار  اور خدمات کا ذکر کرتے ہوے فرمایا کہ حکیم اجمل خاں ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے۔ انکی شخصیت پر جتنا بھی لکھا جاے یا بولا جاے وہ کم ہے۔ انہوں نے ان کے علمی و ادبی کارناموں، تصنیفات، شاعری،  اردو، عربی و فارسی پر  قدرت
پر اظہار خیال کرتے ہوے فرمایا کہ انسانی تاریخ میں ایسا بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے کہ ایک شخص بہ یک وقت ایک بلند پایہ طبیب، شاعر، فلاسفر، سیاستداں ،محقق اور مصلح  قوم  بھی ہو۔ حکیم اجمل خان ان میں سے ایک تھے۔

آیورویدک اینڈ یونانی طبیہ کالج ، ھندوستانی دواخانہ، جامعہ ملیہ اسلامیہ کا  قیام اور اب تک انکا وجود اس بات پر شاہد ہے کہ اس زمانہ میں حکیم اجمل خاں کے اندرون میں سوچ، بصیرت، دور اندیشی اور سوجھ بوجھ کا عنصر کس قدر موجود تھا۔ انہیں مستقبل قریب اور مستقبل بعید کو حال میں رہتے ہوے دیکھنے کا ہنر حاصل تھا۔
 
مسرور احمد خاں صاحب نے حکیم اجمل خاں کی تحقیقی ، علمی اور ساٸنسی ذوق و دلچسپی پر روشنی ڈالتے ہوے اسرول کی تاریخ پر سیر حاصل بحث کی۔ آپ نے فرمایاکہ حکیم صا حب نے  اس زمانہ میں  یونانی ادویات کو مروجہ ساٸنسی اصول و ضوابط پر برتنے کے چلن کو عام کیا تھا۔ 

ھندوستان کی جدید علمی و طبی تاریخ میں حکیم اجمل خان وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے یونانی طب کے مبادیات کو راٸج الوقت ساٸنسٸ اصول و ضوابط کی روشنی میں نہ صرف سمجھنے اور برتنے کی وکالت کی بلکہ اس کو برت کر پورے عالم انسانی کو دکھا یا بھی۔

 مطب عملی میں انکی جدت ، ندرت ، حذاقت و لیاقت اور دیانت پر روشنی ڈالتے ہوے یہ بھی فرمایا کہ  دو سو کے قریب نۓ اور نادر مرکب ادویات کی اختراع کا سہرا انہی کے نام ہے۔ اور یہ بات ڈاٸریکٹوریٹ آف آیوش کے لۓ قابل غور ہے کہ وہ کس طرح  ان نادرالوجود مرکبات کو از سر نو مطب عملی میں راٸج کر سکیں۔ 
انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ یہ حکیم اجمل خاں ہی ہیں جن کی وجہ سے آج روایتی طب نہ صرف ھندوستان   میں زندہ ہے بلکہ اب حکومتوں کی سر پرستی میں پھل پھول بھی رہی ہے۔ اور آج ساری دنیا میں قاٸدانہ رول بھی ادا کر رہی ہے۔ یہ بات یقینا قابل فخر ہے کہ حکومت ھند اور حکومت دہلی نے خوب سے خوب تر انداز میں سر پرستی کی ہے۔ لیکن لوگوں کے ذہن میں وہ وقت بھی رہنا چاہۓ جب برٹش سرکار روایتی طب کو مستقل طور پر بند کرنے اور ختم کرنے کے ارادے سے ایک حکمنامہ لانے کی تیاری کر رہی تھی۔ اس وقت وہ حکیم صاحب ہی کی ذات تھی جنکی انتھک کوششوں سے برٹش سرکار اہنے ارادے سے باز رہی۔ 

مسرور احمد خاں نے آج کی نسل کو خطاب کرتے ہوے فرمایا کہ نٸ نسل کو حکمت کی طرف متوجہ ہونا چاہۓ اور اپنے آپ کو بطور حکیم تسلیم کروانا  چاہۓ۔ اس ضمن میں انہوں نے حکیم اجمل خاں کی مثال پش کی کہ کس طرح اپنے لۓ انہوں نے اسی لقب کو پسند فرمایا او ر اسی کو باقی رہنے دیا۔ 

انہوں نے کالج انتظامیہ اور حکومت دہلی کے نماٸندگان کی اس بات پر توجہ مبذول فرماٸ کہ اس کالج میں حکیم اجمل خاں میو زیم قایم کیا جاے جہاں حکیم اجمل خاں سے متعلق اشیا ٕ اور دستاویزات کو محفوظ کیا جا سکے۔اس ضمن میں انہوں نے ہر قسم کے تعاون کی یقین دہانی کراٸ۔

 انہوں نے اس بات کا عزم بھی ظاہر کیا کہ وہ حکیم اجمل خاں کے تہذیبی اور علمی ورثہ کی ہر ممکن حفاظت کے پابند ہیں اور اسے نٸ نسلوں تک منتقل کرنے کے لۓ پر عزم ہیں۔ 

طبیہ کالج کے پرنسپل حکیم محمد زبیر صاحب  نے مسرور احمد خاں کا حد درجہ شکریہ ادا کیا اور ممنونیت کا اظہار کیا کہ وہ اپنا قیمتی وقت  نکال کر یوم اجمل اور صدی تقریب کے اختتامیہ پر خطبہ کے لۓ آمادہ ہوے اور ایک بے مثال خطبہ پیش کیا۔ 
 
ڈایریکٹر راجکمار منچندا صاحب نے بھی مسرور صاحب کا بہت شکریہ ادا کیا اور یقین دلایا کہ وہ مسرور صاحب کی تجاویز پر حکومت دہلی کو ایک پروپوزل بنا کر بھیجیں گے۔

اس خاص موقعہ پر مسرور احمد خاں کے ہاتھوں تمام تر اراکین حکومت دہلی ، اراکین ڈایریکٹوریٹ آف آیوش ، اور کالج انتظامیہ کو تعریفی و توصیفی اسناد اور مومینٹو سے بھی نوازا گیا۔
کالج انتظامیہ اور ڈایریکٹوریٹ آف آیوش نے انکی آمد اور یوم اجمل و صدی تقریب میں شرکت پر علامتی شکریہ کے طور پر ایک مومینٹو بھی یش کیا۔

 اس موقعہ پر اساتذہ و طلبا ٕ کے علاوہ اہل علم کی بھی ایک بھیڑ موجود تھی