Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, August 6, 2023

اربابِ سیاست سے یہ کہو، شکوے نہ کریں کوئی کام کریں ؟*


 

ازقلم:ڈاکٹر سلیم خان/صدائے وقت 
================================== 
راجدھانی دہلی سے متعلق متنازع ترمیمی قانون کوپیش کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے اعلان کیا کہ جو لوگ سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دے کر بل کی مخالفت کررہے ہیں وہ غلطی پر ہیں ۔ اوپر بیان کردی تفصیل کی روشنی میں یہ ایک ایسا سفید جھوٹ ہے جس کو بولنے کی جرأت چھپن ّ انچ کی چھاتی والے وزیر اعظم بھی نہیں کرسکتے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ اگر اس کے برعکس ہوتا تو اس قانون کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔ لوک سبھا میں دہلی حکومت کے اختیارات اور خدمات سے متعلق بل کومتعارف کراتے ہوئے وزیر داخلہ امیت شاہ نے کہا کہ یہ آرڈیننس سپریم کورٹ کے اس حکم کی روشنی میں وضع کیا گیا ہےجس میں پارلیمنٹ کو نئی دہلی کے حوالے سے تمام معاملات میں قانون بنانے کی آزادی ہے ۔
آئین میں ایسی دفعات ہیں جو مرکز کو دہلی کیلئے قانون بنانے کی اجازت دیتی ہیں۔ اس کو کہتے ہیں میٹھا میٹھا گپ اور کڑوا کڑوا تھو۔ عدالت عظمیٰ نے مذکورہ جملے کے ساتھ جو طول طویل نصیحت فرمائی اس کو موصوف نے پوری طرح نظر انداز کردیا۔ اس قانون کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرنے کے لیے اگر عام آدمی پارٹی پھر سے سپریم کورٹ چلی جائے تو مودی سرکار کو دوبارہ پھٹکار پڑے گی لیکن اس کی چمڑی اتنی موٹی ہوگئی ہے کہ اسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

وزیر داخلہ نے تمام پارٹیوں سے درخواست کی کہ وہ عام آدمی پارٹی کا تعاون صرف اس لئے نہیں کریں کہ وہ اپوزیشن اتحاد کا حصہ ہے اور نہ دہلی میں رونما ہونے والی بدعنوانیوں کا تعاون کریں۔ بی جے پی والے جب بدعنوانی کی دہائی دیتے ہیں تو بے ساختہ ہنسی آجاتی ہے اس لیے کہ فی الحال اسے کرپشن کی واشنگ مشین کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ لوگ ہیمنتا بسوا سرما جیسے بدعنوان انسان کو پہلے ای ڈی سے ڈراتے ہیں اور پھر اپنی سرکار میں وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز کردیتے ہیں۔

وزیر اعظم ایک دن پہلے این سی پی کے سترّ ہزار کروڈ کی بدعنوانی کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کی گارنٹی دیتے ہیں اگلے دن اسی پارٹی کے اجیت پوار کو سارے بدعنوان ساتھیوں سمیت اپنی سرکار میں شامل کرکے مختلف وزارتوں پر براجمان کردیتے ہیں۔ کل تک جس این سی پی کو دھمکی دی جارہی تھی آج اس کے رہنما شرد پوار کے ہاتھوں اعزاز حاصل کیا جارہاہے ۔ ایسے میں اپوزیشن پارٹیوں سے کیجریوال کے مبینہ کرپشن پر حزب اختلاف سے تعاون مانگنا مضحکہ خیز نہیں تو اور کیا ہے؟

بی جے پی والوں کی نس نس میں انتخاب گھس گیا ہےاور یہ بیچارے دن رات انتخاب میں غرق رہنے کو عیب کے بجائے خوبی سمجھنے لگے ہیں ۔ اس ترمیمی بل کوپیش کرتے ہوئے وزیر داخلہ بھول گئے کہ وہ کسی انتخابی مہم میں نہیں بلکہ ایوان پارلیمان میں ہیں ۔ اس لیے امیت شاہ نے کہہ دیا اپوزیشن اتحاد کے باوجود وزیر اعظم نریندر مودی اکثریت کے ساتھ الیکشن جیتیں گے۔ وزیر داخلہ کو اس پیشنگوئی کی چنداں ضرورت نہیں تھی ۔ یہ دراصل ان کے اندرکا چور ہے جو بار بار ڈراتا ہے کہ اب لٹیا ڈوبنے ڈوبنے والی ہے اور اس پر قابو پانے کے لیے کبھی وزیر اعظم تیسری مدت کار میں دنیا کی تیسری بڑی معیشت بنانے کا دعویٰ کردیتے ہیں اور کبھی وزیر داخلہ ایوان میں بے موقع ا یسا جملہ ہانک دیتے ہیں۔
وزیر داخلہ نے الزام لگایا کہ 2015ء میں اقتدار سنبھالنے والی عام آدمی پارٹی کامقصد خدمات فراہم کرنا نہیں بلکہ صرف لڑنا تھا ۔ دنیا بھر میں ا لڑائی بھڑائی کے لیے بی جے پی سب سے زیادہ مشہور ہے اس لیے کچھ لوگ اسے بھارتیہ جھگڑا پارٹی کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں ۔ ایسی جماعت کے رہنما شاہ جی کو اپنے گریبان میں جھانک کردیکھ لینا چاہیے کیونکہ جن کے گھر شیشے کے ہوتے ہیں وہ پردہ لگا کر کپڑے بدلتے ہیں۔
اس مشکل کی گھڑی بی جے پی کو اچانک کانگریس اور پنڈت نہرو کی یاد آگئی اور امیت شاہ نے کہا کہ ملک کو آزادی دلانے میں اہم کردار ادا کرنے والے عظیم رہنما جیسے جواہر لال نہرو،سردار ولبھ بھائی پٹیل ،چکرورتی راجگو پال آچاریہ، راجندر پرساد اور ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈ کردہلی کو مکمل ریاست کا درجہ دینے والے نظریے کے خلاف تھے۔یہاں پر آزادی کی جدوجہد میں شامل ہونے والے جتنے لوگوں کا نام لیا گیا ہے ان میں سے ایک بھی ہندوتوا نواز نہیں ہے اس لیے کہ یہ لوگ تو انگریزوں کے آلۂ کار بنے ہوئے تھے ۔ ان میں ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کے سوا سب کے سب کانگریسی تھے جن کو بی جے پی ملک و قوم کا دشمن نمبر ایک سمجھتی ہے۔
ویسے ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر تو سنگھ پریوار کے کانگریس سے بھی بڑے مخالف تھے۔ شاہ جی کی زبان سے کانگریسی رہنماوں کی تعریف و توصیف سننے کے بعد بیرسٹر اسدالدین اویسی کو یادلانا پڑا کہ بی جے پی کےسابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی تو دہلی کو مکمل اختیار دینے کے حامی تھے۔ اس طرح یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ اپنے مطلب کی خاطر یہ لوگ اپنوں کو چھوڑ کر غیروں کے سہارے اپنی نیاّ پار لگانے کی سعی کرتے ہیں۔
دہلی کو مکمل ریاست کا درجہ دینے کے خلاف امیت شاہ نے دوبارہ پنڈت نہرو کا حوالہ دے کر کہا کہ چونکہ دہلی تین چوتھائی جائیداد مرکزی کے تحت ہے اس لیے انہوں نے مخالفت کی تھی۔ وزیر داخلہ بھول گئے کہ فی الحال مسئلہ زمین جائیداد کا نہیں بلکہ عوامی فلاح و بہبود کا ہے۔ ساری جماعتوں اپنے سیاسی مفاد سے اوپر اٹھ کر اس بل کی حمایت کے لیے بلانے والے امیت شاہ کو کوئی واقعہ ایسا بتانا چاہیے کہ جب ان کی پارٹی نے ایسی غلطی کی تھی۔ یہ لوگ تو گجرات جیسی محفوظ ریاست میں سیاسی فائدے کے لیے بلقیس بانو اور ان اہل خانہ پر ظلم کا پہاڑ توڑنے والوں کو قبل از وقت رہا کرکے مجرمین کی آرتی اتارے ہیں ۔
وہ خود خونریزی اور فساد کو فخر سے سبق سکھانے کا نام دیتے ہیں۔ جس کا اپنا دامن تار تار ہو اسے دوسروں سے کوئی مطالبہ کرنے سے قبل اپنا جائزہ لینا چاہیے۔ امیت شاہ نے یہ بھی کہا کہ 2015ء سے پہلے تک دہلی کے انتظامی معاملات کو کانگریس اور بی جے پی نے بآسانی سنبھالا تھا ۔ یہ بھی کانگریس کو خراج عقیدت ہی تھا کیونکہ اسی نے دہلی میں سب سے زیادہ حکومت کی ہے۔ کانگریس کے ادھیر رنجن چودھری نے جب نہرو اور کانگریس کی تعریف پر حیرت کے ساتھ شکریہ ادا کیا تو شاہ جی کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور وہ بولے میں نے تو صرف حوالہ دیا ہے لیکن تیر نکل چکا تھا۔
امیت شاہ ماضی میں بھی پنڈت نہرو کی یادکرچکے ہیں ۔ سی اے اے سے متعلق ترمیم پیش کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے کہا تھا کہ 1950 میں دہلی میں نہرو لیاقت معاہدہ ہوا تھا اور اس معاہدے کے تحت فیصلہ کیا گیا تھا کہ ہندوستان اور پاکستان اپنی اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کریں گے۔ پاکستان نے انڈیا کو یقین دلایا تھا کہ وہ ہندوؤں، سکھوں، بودھوں، جینوں، مسیحی اور زرتشتیوں کا خیال رکھے گا۔ اس کے بعد وہ پٹری سے اترگئے اور پاکستان و بنگلا دیش میں ہندووں کی حالتِ زار بیان کرنے لگے حالانکہ ہندوستان نے بھی یہی وعدہ کیا تھا ۔ ان کو یہ بتانا چاہیے کہ کیا بی جے پی اس عہد کو پورا کررہی ہے۔
اب تو مسلمانوں کے ساتھ ساتھ عیسائیوں پر بھی مظالم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں ۔ ساری دنیا اس پر تشویش کا اظہار کررہی ہے اور ملک کا وزیر اعظم اس پر ایوان میں بیان دینے سے بھاگتا پھر رہا ہے۔ مرکزی حکومت فی الحال عدالت اور حزب مخالف کے بیچ چکی کے پاٹوں کی مانند پس رہی ہے۔ ایوان پارلیمان کے اندر ’انڈیا‘ نے اس کے ناک میں ایسا دم کررکھا ہے کہ اسے دہلی سروس بل پیش کرتے ہوئے اپنے اولین دشمن پنڈت نہرو کی یاد آگئی اور باہر عدالت عظمیٰ نے اتنا پریشان کیا ہوا ہے کہ پیشگی صفائی پیش کرنی پڑرہی ہے ۔
                           اشتہار 
________________________________________
دہلی بل کی بحث میں امیت شاہ نے یہ ثابت کردیا کہ ڈھٹائی سے جھوٹ بولنے میں یوگی ادیتیہ ناتھ یا ہیمنتا بسوا سرما ان کی برابری نہیں کرسکتے اس لیے مودی جی کے اصلی ولیعہد وہی ہیں ۔ یہ دو اور ان کے دو ملک کا کیا حال کریں گے یہ کوئی نہیں جانتا۔ ان لوگوں کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لیے شکوہ شکایت کافی نہیں بلکہ زمین پر اتر کر انہیں بے نقاب کرنا ہوگا۔ یہ انقلاب دیوان خانے میں بیٹھ چائے کی پیالی پر نہیں آئے گا۔ ایسے میں ماہر القادری کا ایک شعر معمولی ترمیم کے ساتھ یاد آتا ہے؎
اربابِ سیاست سے یہ کہو شکوے نہ کریں کوئی کام کریں 
جو ظلم و ستم پہ اترائے شکوے سے پشیماں کیا ہوگا؟