Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, August 9, 2023

آزادی، یوم آزادی تعارف اور حقائق


✍️ نثار احمد/متعلم: دارالعلوم دیوبند/صدائے وقت 
==================================
       خیر وشر کا کشمکش، چراغ مصطفوی سے شرار بولہبی کی ستیزہ کاری اور حق و باطل کا تصادم ازل سے  تا امروز ہے، امت مسلمہ اپنے ابتدائی دنوں سے ہی ابتلا و آزمائش سے دو چار ہے، مصائب و آلام نے انہیں کبھی بھی غفلت و ذہول کی نیند لینے ہی نہیں دی، کبھی اسلام  کا مقابلہ نظریات اور فلسفے سے ہوا، تو کبھی اس  کا مقابلہ عسکری قوت  سے ہوا؛ لیکن تاریخ شاہد ہے کہ ہر موڑ پر بطل‌ِ اسلام اور مومن جیالوں نے  میدان کارزار میں انہیں دھول چٹایا؛ چنانچہ ایک زمانہ وہ تھا جب تاتاریوں نے  مسلمانوں کو تہس نہس کردیا تھا، بغداد کی ندیاں اور نہریں مسلمانوں کے خون سے رنگین ہوچکی تھی، مسلم عورتوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کی حدیں پار کی گئیں اور ان کی پردۂ عصمت کو تار تار کردیا تھا؛ لیکن چونکہ تاتاریوں کے پاس صرف گھوڑے، تلواریں اور اسلحۂ خون خواری تھی، اجتماعی زندگی جینے کا کوئی لائحہ عمل اور کوئی ٹھوس نظریہ نہیں تھا، ان کے پاس رہن سہن اور بودوباش کے لیے چند قدیم، فرسودہ اور اجڈ  طریقے تھے، جنہیں یہ لوگ زندگی جینے  کا اٹوٹ انگ اور لازمی جزوسمجھتے تھے، جن سے سر مو انحراف زندگی سے بغاوت سمجھی جاتی، س لیے  عوام ان سے متنفر ہونے لگی؛ چنانچہ ان کا تسلط زیادہ دیر نہ چل سکا۔
       اسی طرح ایک زمانہ وہ تھا، جب یونانی فلسفہ وفکر زوروں پر تھا،  ہر طرف اس کی ثنا خوانی ہوتی، اور جدھر دیکھیے اسی کے چرچے تھے، فرق ضالہ کی تمام جماعتوں نے اور ان تمام جماعتوں کے تمام افراد نے  اس کے حقانیت اور صداقت کا قائل ہوکر ناصرف یہ کہ اس کا اقرار کیا؛ بلکہ اسے اپنالیا تھا، ان فلسفی نظریات کو آلہ بناکر اسلام کے اضلاع کو ناپ کر اسلام کو ناقص قرار دیا جاتا اور اعتراضات کے بوچھاڑ کیے جاتے تھے؛ لیکن یونانی فکر وفلسفہ کی یلغار اسلام پر  اس حالت میں  ہوئی، جبکہ اسلام تین بر اعظموں پر حکومت کررہا تھا، اسلام محض تصورات کی شکل میں ہی نہیں تھا، بلکہ اس کا مظہر خلافت کی شکل میں تھا، حدود و قصاص کے نفاذ  کی صورت میں بھی تھا اور شریعت کے مکمل خاکے، کامل وجود اور مسلمانوں کے اس پر عمل کی شکل بھی موجود تھا؛ چنانچہ اسلام اپنے حسن و قبح، خوبی و خامی، اچھائی و برائی، نقص و صواب اور عیب و خوبصورتی کے ساتھ بلکہ حسن ہی حسن، خوبی ہی خوبی، اچھائی ہی اچھائی، صواب ہی صواب اور خوبصورتی ہی خوبصورتی سب کے سامنے مکمل واضح رہنمائی کے ساتھ موجود تھا، اس لیے ان اعتراضات سے اسلام کو کوئی خاطر خواہ نقصان نہیں پہنچا، اور خود یونانی  فلسفےکو ہی موت واقع ہوگئی، امام  غزالیؒ نے تہافت الفلاسفہ لکھ کر یونانی فلسفے کو جڑ سے ہی اکھاڑ پھینکا، یونانی فلسفے کی بنیادوں اور ان اصولوں کی بیخ کنی کرکے ان کے بطلان کو واضح اور ثابت  کردیا جن کے سہارے اسلام میں شبہات پیدا کیے جاتے؛ لہذا جب ان بنیادی اصولوں کا بطلان  واضح ہوگیا، تو ان سے اٹھائے جانے والے اعتراضات خود بخود پھسپھسے ہوگئے۔
        سترہویں صدی سے پہلے تک اسلام پر جو یلغاریں ہوئیں ہیں یا تو وہ خالص  تہذیب و تمدن کی یلغار تھی یا پھر وہ یلغار خالص عسکری اور سیاسی تھی؛ لیکن سترہویں صدی کے بعد سے حالات کچھ دگرگوں ہیں اہل مغرب سیاسی تسلط کے ساتھ ساتھ فکری میدان میں بھی ایک خاص نظریہ اور فلسفہ کے ساتھ  مذاہب عالم کو چیلنج کرہا ہے۔
      بات یہ ہے کہ تہذیبِ مغرب کا گونسلہ بہت سے قدیم و جدید فلسفیوں کے تخیلاتی خس و خاشاک کو اکٹھا کر کے تیار کیا گیا ہے، جو کہ اب ایک مکمل نظام حیات کی حیثیت اختیار کر چکی ہے، جس نے  زندگی کے ہر پہلو کے متعلق بحث کی ہے، مغربی تہذیب کے اپنے اصول ومبادی ہیں وہ کسی تہذیب یا کسی مذہب کا پابند نہیں، ان کے اپنے خاص نظریات اور تصورات زندگی ہیں، مغربی تہذیب ایک ایسا اژدھا ہے جس نے تمام مذاہب سماویہ و غیر سماویہ کو نگلنے کی کوشش کی ہے، جس کے سامنے دنیا کے تمام مذاہب و عقائد نے گھٹنے ٹیک دیا ہے، اس کائنات کے اندر صرف ایک نظام مغرب سے لوہا لینے اور اس کے مقابلے کے لیے ڈٹ کر کھڑاہے، اس نظام کی اپنی خصوصیات ہیں، اس میں زندگی گزارنے کے انوکھے اصول بتائے گئے ہیں، اس نظام کی اپنی تہذیب ہے، جس کا مقابلہ دنیا کی کوئی تہذیب نہیں کرسکتی، اس نظام میں قرآن مجید کی شکل میں وہ نسخۂ کیمیا موجود ہے، جس کے مطابق عمل کرکے فلاح یقینی ہے، اس نظام کے پاس اس کے بانی اور مؤسسؐ کے اقوال و افعال ذخیرۂ احادیث کی شکل موجود ہے جس میں پیدائش سے موت تک، مہد سے لحد تک چھوٹی سے چھوٹی، بڑی سے بڑی اور تمام نفع و نقصان کی باتیں بتا دی گئیں ہیں اور جس میں زندگی کے تمام پہلوؤں کے بارے میں صحیح رہنمائی موجود ہے، جس پر عمل کرنا کامیابی کی و کامرانی کی ضمانت ہے۔ جی وہی ایک نظام ہے جو مغربی نظام سے نبردآزما ہوسکتا ہے، جی ہاں اس عظیم الشان اور رفیع المرتبت نظام کا نام اسلامی نظام ہے؛ کیوں کہ اس نظام کی خصوصیت یہ ہے کہ صرف یہ نظریات تک محدود نہیں ہے، اس نظام کے ماننے والے صرف باتوں کے شہسوار نہیں ہیں؛ بلکہ ایک طویل عرصے تک، بلکہ آج تک بلکہ ان شاءاللہ آئندہ قیامت تک اس نظام پرعمل بھی کیا جاتا رہا ہے اور ان شاءاللہ کیا جاتا رہے گا، اس نظام میں جمہوریت کے بجائے خلافت ہے، سرمایہ دارانہ نظام کے بجائے کتاب البیوع ہے اور برٹش لاء کے بجائے کتاب القضاۃ بالتفصیل بیان کئے گئے ہیں، اور یہی وہ نظام ہے جو مغربی تہذیب و تمدن پر فوقیت حاصل کرسکتی ہے اور ان شاء اللہ کرکے رہے گی۔
        یہ الگ بات ہے کہ مغربی تہذیب میں زندگی کے ہر پہلو سے متعلق رہنمائی موجود ہے، لیکن ان کی یہ رہنمائی کئی اعتبارات سے ناقص ہیں اور ناقص کیوں نہ ہو؟ جب اس نظام میں بنیادی اور اعلی اتھارٹی ہی عقل انسانی کو حاصل ہے؛ جبکہ خدائی رہنمائی کے بغیر انسان خود اپنے لیے کوئی قانون وضع  نہیں کرسکتا، جس کا برملہ اعتراف ڈاکٹر  فرائڈ مین نے ان الفاظ میں کیا ہے: ”ان مختلف کوششوں کا جائزہ لیا جائے تو یہی نتیجہ بر آمد ہوتا ہے کہ انصاف کے حقیقی معیار کو متعین کرنے کے لیے مذہب کی رہنمائی حاصل کرنے کے سوا دوسری ہر کوشش بے فائدہ ہوگی“۔
(Legal Theory.P.18)
    یہ نظام اگرچہ عین فطرت کا دعویدار ہے؛لیکن ذرا تدبر سے کام لینے پر پتا چلتا ہے کہ یہ فطرت سلیمہ سے عین بغاوت ہے۔
     جب ہم ان کے مصطلحات کی چھان پھٹک کرتے ہیں تو اس نظام میں موجود نقص و کمی مکمل وا ہوجاتی ہے، اور جب ذرا تحقیقات میں پڑتے ہیں تو ان کی لیپا پوتی، اور چاندی کے ورق میں نجاست کو پیش کرنا بالکل ظاہروباہر ہو جاتا ہے؛ ہاں! موجودہ حالات میں ابلیسی فتنہ انگیزیوں کا رنگ وروپ وہ نہیں رہ گیا ہے، جو آج سے صدیوں پہلے ہوا کرتا تھا؛گویا امتِ مسلمہ تاریخ انسانیت کی سب سے سنگین اور پرخطر دور سے گزر رہی ہے
                             اشتہار 
.              Mob no 9415315155 
__________________________________________
       حقیقتِ واقعہ اور اس اجمال کی تفصیل یوں ہے کہ دورِ حاضر میں اہل مغرب کی حیران کن ایجادات، اور آنکھوں کو چندھیا دینے والی سائنسی ترقیات کے بدولت غیر مغربی اقوام اس قدر مرعوب ہیں کہ اہل مغرب کی طرف سے آیا ہوا ہر نعرہ بے سوچے سمجھے اور بغیر غور وفکر کے قبول کیا جاتاہے، وہاں سے اٹھنے والے نعروں کی اس کے ابہام اور جاذبیت کی وجہ سے اپنے زعم و گمان کے مطابق تشریح کرکے اس کی پرزور حمایت کی جاتی ہے؛ مثلاً بے جا آزادی کا نعرہ، مرد وعورت کے درمیان مساوات کا فلسفہ جبکہ یہ سب اہل مغرب کی اختراع ہے، افسوس اس وقت ہوتا ہے جب  امت مسلمہ کا ایک بڑا طبقہ بھی  اہل مغرب کے نظریات کا شکار ہو کر سیکولر اور لبرل بنتے جارہے ہیں اور پس پردہ کی کربناک حقیقت سے غافل ہوکر پردہ پر ابھرنے والی تصویروں کی نقالی میں فخر محسوس کررہے ہیں، مغربی نظر یا ت کے اندر جاذبیت اور کشش کی وجہ سے  ان  کی اسلام کاری کو وقت کی سب سے اہم ضرورت محسوس کررہے اور ماڈرن ازم کو بڑھاوا دے رہے ہیں، اور نوبت بایں جا رسید کہ اسلامی تہذیب و ثقافت نسل نو کے لیے محض ایک نقطہ سیاہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ جو ان کو اپنے باپ دادا سے وراثت میں ملی ہے،  ورنہ شعوری طور پر نہ انہیں اسلامی تہذیب سے وابستگی کی فکر ہے اور نہ اس سے محرومی پر کسی قسم کا رنج ہے، اور اس سلسلے میں سب سے اہم کردار میڈیا ادا کررہی ہے، میڈیا اہل مغرب کے نعروں کو خوبصورت انداز میں پیش کرتی ہے، یہ باور کرانے کی حتی الامکان سعی کرتی ہے کہ اس نظامِ حیات سے بہتر کوئی اور طرزِ زندگی نہیں، اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ ہمارا خیر چاہتے ہیں، یہی نظام امن و سکون کا ضامن ہے، اس لیے ہمیں بھی چاہیے کہ ان نظریات کو من و عن تسلیم کرلیں یا کم از کم اپنے موقف و مذہب میں تھوڑی سی تاویل کر کے ان نظریات کے قریب ہو جائیں؛ جبکہ اس کی حقیقت  ملمع سازی اور چھلاوا  کے سوا کچھ بھی نہیں، مغربی تہذیب کے اندر جن نظریات کو بنیادی حیثیت حاصل ہے ان میں سے ایک نظریہ آزادی کا ہے۔
        اب دیکھیے! آزادی کا جو تصور اور خاکہ اہل مغرب نے پیش کیا ہے وہ اسلام سے کسی حد تک بھی میل نہیں کھاتا، اہل مغرب کے یہاں آزادی کا تصور یہ ہے کہ انسان آزاد پیدا ہوا ہے لہذا ہر اعتبار سے وہ آزاد ہونا چاہیے، انسان مذہب کی بندشوں سے آزاد ہونا چاہیے، سماج کی جکڑبندیوں سے آزاد ہونا چاہیے، اپنے خاندان اور معاشرے کی پابندیوں سے آزاد ہونا چاہیے یہاں تک کہ خدا، رسول اور  مادر پدر سے آزاد ہونا چاہیے۔ اس کی آزادی کا مطلب یہ ہے کہ ایک انسان کو اس کی نفسانی، جسمانی، اور روحانی خواہشات کی تسکین میں کوئی مذہب، کوئی سماج، کوئی پابندی آڑے نہیں آنا چاہیے، وہ کھلے عام زنا کرے تو وہ  اس کا حق ہے اس میں مداخلت کرنے والا مجرم شمار کیا جائے گا، انسان جوا اور سٹا میں تباہ ہوجائے اس کے والدین کو اعتراض کا کوئی حق نہیں، بیوی اپنے شوہر کے سامنے کسی کے ساتھ ناجائز تعلقات اور غلط سنبندھ بناکر جسمانی خواہش پوری کرے؛لیکن شوہر کو حقِ اعتراض حاصل نہیں، اہل مغرب کے یہاں آزادی کا مطلب یہ بھی ہے کہ ہر کسی کو  اپنی رائے کے اظہار کا حق ہونا چاہیے خواہ اس کی رائے کسی کے متعلق گالم گلوچ اور تذلیل و اہانت پر ہی  مبنی کیوں نہ ہو؟ چنانچہ آزادیِ اظہار رائے کے نام پر ہی ایک دوسرے کو گالی دینے کا رواج عام ہونے لگا ہے، یہاں تک کہ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی اہانت، ان کی شان میں گستاخی اور مقدس کتاب خصوصاً قرآن پاک کی بے حرمتی کا جواز بھی اہل مغرب نے آزادی کے لفظ سے نکالا ہے۔ یہ اور اس طر ح کے جتنے گھناؤنے افعال ہیں اہل مغرب کے یہاں متصور آزادی نے اسے صرف حلال ہی نہی؟ بلکہ معاشرے میں اسے مستحسن بنادیا ہے اور حد تو یہ ہے کہ اہل مغرب آزادی کے نام پر ہومو سیکس  بلکہ بیٹے کا  اپنی ماں سے، باپ کا اپنی بیٹی سے اور بھائی کا  اپنی بہن کے ساتھ سیکس تک کو روا  سمجھتے ہیں اور ان مقدس رشتوں کی عزت کو پامال کرتے اور ان کی عصمت کو تار تار کردیتے ہیں۔
       خلاصہ یہ ہے کہ ان کے یہاں انسان مطلق العنان ہے یہ ہر طرح کی مذہبی بندش، سماجی جکڑبندی، تہذیبی اور روایتی  اقدار کی پابندی اور خاندانی دباؤ سے آزاد ہے، جو انسان اپنے آپ کو کسی دوسری طاقت کے سامنے جھکائے وہ اہل مغرب کے نزدیک انسان کہلانے کا حقدار نہیں؛ جبکہ اسلام کے اندر اس آزادی کو  دہریت، الحاد ، نفس پرستی گردانا گیا ہے۔
       اسلام کے اندر آزادی کا یہ مطلب ہرگز نہیں اور ہونا بھی نہیں چاہیے؛ کیونکہ اسلام ایک خدائی مذہب ہے اس کی تعلیمات بہت مضبوط ہے اور پاک ہے،جو  ہرگز ان گھٹیا اور قابل نفرت اعمال و افعال کی اجازت نہیں دے سکتی؛ بلکہ جو چیزیں عمدہ اور بہترین ہوتی ہیں، اسلام اس کے برتنے اور انجام دینے کا حکم دیتا ہے اور جو چیزیں گٹھیا اور خسیس ہوتی ہیں، اسلام ان چیزوں سے منع کرتا ہے اور صرف منع پر اکتفا نہیں کرتا، بلکہ اس کے انجام دینے پر وعیدیں بھی سناتا ہے اور بعض دفعہ تو کسی حرام فعل کے ارتکاب پر اس کے لئے دنیوی زندگی ہی تنگ ہوجاتی ہے، اسی لیے اسلام کو دینِ فطرت کہا گیا ہے: فطرت کہتی ہے کہ چوری غلط ہے، زنا قابل معافی نہیں، ڈاکہ زنی اور شراب نوشی قابل ترک افعال ہیں، اسلام بھی ان چیزوں سے روکتا ہے، ان سے اجتناب کا حکم دیتا ہے اور ارتکاب پر سخت سزا سناتا ہے۔
      بات یہ ہے کہ انسان جس بھی معاشرے میں یا مذہب میں زندگی گزار تا ہے، اس میں کسی کے ہاتھ اور پاؤں باندھے تو نہیں جاتے کہ ہاتھ پاؤں باندھ کر ایک طرف ڈال دیا جاتا ہو بلکہ وہ فرد آزادانہ طور پر معاشرے میں اپنے روزمرہ کے امور کو انجام دے سکتا ہے اور اس طرح کی آزادی صرف اسلام ہی میں  نہیں بلکہ دنیا کے تمام مذاہب میں متصور ہے؛ جہاں تک آزادیِ اظہار رائے کا مسئلہ ہے شریعتِ اسلامیہ نے علی الاطلاق  اس سے منع نہیں کیا بلکہ اس کا  ایک طریقہ متعین کردیا ہے چنانچہ سورة النحل آیت نمبر ۱۲۵ میں اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ "و جادلهم باللتي هي أحسن" کہ بحث و مباحثہ کی اجازت تو ہے؛ لیکن انتہائی مؤدبانہ انداز میں ہونا چاہیے، الفاظ مہذب اور شائستہ ہونے چاہئیں، گالم گلوچ اور اہانت آمیز الفاظ سے حد درجہ گریز ہونا چاہیے؛ اگر ان چیزوں کی رعایت کوئی کرتا ہے تو اسے اظہار رائے کی آزادی ہے ورنہ وہ مجرم اور قابل گردن زدنی ہے؛ جب واقعہ یہ ہے اور نفس الامر  میں ایسا ہے تو پھر اہل مغرب کیوں تحفظِ آزادی کا نعرہ لگاتے ہیں اور آزادی آزادی کا بھنگڑا پیٹتے رہتے ہیں۔
           مطلب صاف ہے کہ یہ لوگ اپنے نظریات کو بڑھا وا دینا چاہتے ہیں، اور اپنی تہذیب کو اس کے کھوکھلے اور ناپائدار ہونے کے باوجود پوری دنیا میں رائج کرنا چاہتے ہیں اور عالمی سطح پر اپنی کامیابی کے امیدوار ہیں اور ایک حد تک اس میں انہیں کامیابی بھی مل رہی ہے۔
       اہل مغرب نے اپنے سیاسی تسلط کے لیے جب پوری دنیا پر  یلغار کیا یہاں تک کہ  ہمارے ملک ہندوستان میں بھی ایسٹ انڈیا کمپنی کے نام پر اپنی دریدہ ذہنی کے ساتھ ہمیں لوٹنے کھسوٹنے کے لیے وہ گھس آئے اور اپنا سیاسی تسلط جما لیا تو ہمارے علمائے کرام نے اپنے عوام اور دیگر ہندوستانیوں کے ساتھ جہاد کا علم بلند کیا اور گھس پیٹیوں کو نکالنے کی ہر ممکن کوشش کی تقریبا دو سو سال تک آزادی کی جنگ اپنے عروج پر رہی، ہندوستانیوں کو غلام بنالیا گیا،  لاکھوں کی تعداد میں  علماء کرام کو پھانسی دی گئی، مسلم ماؤں اور بہنوں کی آبروریزی کی گئی، الغرض ہندوستانیوں کو تباہ و برباد کردیا، لیکن ہمارے اسلاف نے ہمت نہیں ہاری، مسلسل  آزادی کے نعرے بلند کرتے رہے یہاں تک کہ ۱۵/ اگست ۱۹۴۷ کو ہمارا ملک آزاد ہوگیا، ذرا یہاں رکیے اور غور کیجیے کہ قتل ہمارے مسلمانوں کو کیا گیا، پھانسی ہمارے علماء کرام کو دی گئی، کھلواڑ ہماری ماں اور بہنوں کی عزت سے کیا گیا؛ لیکن آزادی کے بعد بلکہ اس سے قبل ہی قیادت ہنود کے ہاتھوں میں سپرد کردی گئی۔ افسوس! یہاں تھانوی کا نظریہ بالکل کلیئر تھا کہ ”ہم جنگ صرف گوروں سے کررہے ہیں کالوں سے نہیں حالانکہ دشمن ہمارے دونوں ہیں“ دوسرے مقام پر فرمایا: ”گورے سانپ سے زیادہ زہریلا کالاسانپ ہوتا ہے۔اس لیے اگر گورے سانپ کو گھر سے نکال دیاجائے توکالا توڈسنے کوموجودہےاور جس کا ڈسا ہوا زندہ رہنا ہی مشکل ہے“ حضرت تھانوی ؒ نے جمیعة علما ءہندکو بار بار متنبہ کیا کہ: ”ہندوؤں پر بھروسہ کرنا غیر دانشمندی ہے۔انگریزوں سے زیادہ ہندو مسلمانوں کے دشمن ہیں۔بر سر اقتدار ہونے کے باوجود انگریز مسلمانوں کے ساتھ کچھ ناکچھ رعایت کا معاملہ کرتے ہیں لیکن اگر یہ ہندو بر سر اقتدار آگئے تو وہ مسلمانوں کو جڑ سمیت اکھاڑ پھینکیں گے“(الاضافات الیومیہ)
  خیر! ان انگریز گھس پیٹیوں کو ہمارے آباء و اجداد نے ملک سے  نکال پھینکا، ہم جسمانی طور پر  آزاد تو ہوگئے؛ لیکن ذہنی  غلام بن کر رہ  گئے، اس لئے کہ جب قومیں مغلوب ہوتی ہیں، تو صرف شمشیر و سنان، تیر و ترکش ہی مغلوب نہیں ہوتے؛ بلکہ پوری قوم کی سوچ و فکر، ذہنیت،  انداز فکر ، زاویہ نظر تک متاثر ہوجاتے ہیں، اور اس تاثر کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم مغرب کی طرف سے آنے والے ہر نظریے کا پرعزم باالجزم حامی بن جاتے ہیں اور اس کی اسلامی تاویلات کرکے اسے اپنانے لگتے ہیں؛ یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں زنا عام ہے، اس کی قباحت عوام الناس کے ذہن سے نکل چکی ہے ہم میں جو جتنا ماڈرن ہوتا ہے اس کی معاشرے میں اتنی ہی زیادہ عزت واہمیت  ہوتی ہے، رقص و سرود، بےحیائی و بے پردگی، فحاشی اور عریانیت کو لوگ ترقی سمجھ بیٹھے ہیں؛ الغرض جسم فروشی و عصمت کی ارزانی اس دور میں عزت و شہرت بلکہ سماجی رتبہ حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ بن چکی ہے۔